دھندے عموماً گندے نہیں ہوتے ہاں دھندے میں بندے گندے آ جاتے ہیں۔ یہی ہے ہماری صحافت کا المیہ لیکن یہ شاید اکثر پیشوں کا مسئلہ آج کل بنا ہوا ہے۔ صحافت چونکہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح دور سے نظر آتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے ییہ مان رکھا ہے کہ ان کے کھانے کے دانت اور ہوں گے حالانکہ سب کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ ایک میراثی سے کسی نے پوچھا کہ تمہارے دانت تو بہت چمک رہے ہیں، کیا بات ہے! اس نے آگے سے بھنا کر کہا کئی دنوں سے بھوکا ہوں کچھ کھاؤں گا تو پیلے ہوں گے ناں۔ بس اصل صورت ہماری بھی ہے چمکیلے دانت بھوکوں کے بھی ہوتے ہیں ہماری اکثریت یہ بات شاید نہیں جانتی۔
میرا یہ ماننا ہے کہ صحافی اور صحافتی اداراہ بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ خبر بڑی یا چھوٹی ہوتی ہے۔ 2012ء کے بعد سے ہم نے دیکھا کہ صحافی اور صحافتی اداروں کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر نشانہ بنایا گیا۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ اس ملک میں نا تو صحافت اور نا صحافی اس مقام پر پہنچے کہ جس پر عالمی سطح پر ناز کیا جا سکے جس طرح نوبل میں ہماری حالت ہے اس سے بری حالت صحافتی نوبل یعنی پلٹزر میں بھی ہے۔ اگر اتنی جانی قربانیوں کے باوجود بھی ہم انفرادی طور پر پلٹزر جیت نہیں پائے تو یقیناً کچھ خامی تو ہے۔اس کے باوجود طاقت کے ایوانوں کو ہماری لنگڑی لولی صحافت ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ آئیندہ بھی ایسے ہی ہو گا۔
بات ہو رہی تھی 2012ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ میڈیا “بے لگام” ہو گیا ہے۔ اس لئیے جو سفر رپورٹر کو مار کر اینکر مافیا کی شکل میں شروع ہوا تھا اب نیا موڑ لینے لگا اور اینکرز کی صفائی کا عمل شروع ہوا۔ اینکر مطیع اللہ جان کے ذریعہ آج صحافت کے حریت پسندوں کو خوب گندا کیا گیا۔
کیا عاصمہ شیرازی اور کیا رؤف کلاسرا، سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا گیا۔ پھر مالکان کی باری آئی اور بالآخر سیاست کو ٹسٹ ٹیوب اور صحافت کو یو ٹیوب پر ڈال دیا گیا۔ ہزاروں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو پہلے اپرنٹس شپ اور پھر روزگار پر لگایا گیا۔ سوشل میڈیا منٹو مرحوم کی وہ پبلک لیٹرین بن گئی کہ جس کی دیواریں فحش نگاری پر مبنی آرٹ کا نمونہ پیش کرنے لگی۔ منٹو صاحب کے افسانہ کی طرح ایک بار دیکھا گیا کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کی ماں کی۔۔۔دوسری دفعہ جب رفع حاجت کی عرض سے بندہ گھسا تو لکھا تھا، مسلمانوں نے ہندوؤں کی ماں کی۔۔۔جب کئی دن بعد وہی حضرت پھر اس پبلک لیٹرین میں وارد ہوئے تو وہ دونوں نعرے مٹا کر کسی نے لکھ دیا تھا، انگریزوں نے دونوں کی ماں کی۔۔۔
تو جناب، لگ بھگ یہی ہوا ہماری صحافت کے ساتھ بھی کہ پہلے ایک دھڑے نے دوسرے اور پھر دوسرے دھڑے نے پہلے اور اب تیسرے دھڑے نے دونوں کے پرخچے اڑانا شروع کر دیئے ہیں۔ اداروں کو اگر یہی کھیل جاری رکھنا ہے تو جاری رکھیں۔ ہم صحافیوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئیے۔ اگر آپ کے پاس ہنر ہے، خبر ہے تو یہی صحافت آپ کو روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ جہاں تک خبر کی بات ہے تو گلوبل ویلیج میں خبر کا روکنا ایسے ہی ہے کہ جیسے بزرگ عورت اپنا مرغا بغل میں دباکر یہ کہتے ہوئے گاؤں سے نکلے کہ “اب دیکھتی ہوں بغیر میرے مرغ کے اذان کے گاؤں میں صبح کیسے ہوتی ہے۔”
اب دیکھیں نا, احمد نورانی نے خبر بنائی کئی اداروں کو دکھائی کسی نے نہیں چلائی تب ایسے چلی کہ بات چلی اور بات نکلی ہے تو اب دور تلک جائے گی۔ چونکہ ایک پسماندہ ملک کی پسماندہ سوچ کی حامل صحافت کا حصہ ہوں تو سازشی تھیوری پر ایمان رکھتے ہوئے اس خبر کے پیچھے بھی طاقتیں نظر آتی ہیں لیکن یہود وہنود کی نہیں اپنے ہی وہ پبلک لیٹرین والے دھڑوں کی جس کا فائدہ اب تیسرےفریق کے اٹھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
بقول منیر نیازی مرحوم کے؛
جو خبر پہنچی یہاں پر اصل صورت میں نہ تھی
تھی خبر اچھی مگر اہل خبر اچھے نہ تھے
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کسطرح اسی احمد نورانی صاحب کو فیڈ کرکے میاں نواز شریف کے خلاف خبر چلائی گئی کہ وہ پانامہ جی آئی ٹی میں بچ جائیں گے اور پھر یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ نورانی صاحب نے ایک پروفیشنل صحافی کی طرح اس غلط خبر کی معافی بھی مانگی۔
فی الوقت تو یہ دیکھیں کہ جس نام نہاد مین سٹریم میڈیا کو نام نہاد کے بھی قابل نہ چھوڑا گیا آج وہ میڈیا نہ خود کو بچانے کے قابل ہے نہ اپنے چلانے والوں کے کام آ رہا ہے۔ ایک خبر جو کچھ روز قبل ہی بننے والے ویب سائٹ پر آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا کی وہی دیواریں ان کے نام گالیوں سے بھر گئیں جن لوگوں نے انہی دیواروں کو مخالفین کے نام گالیوں سے بھر کر یہ راستہ دکھا دیا تھا۔ پڑھنے والے عام قارئین کی سمجھ کے لئیے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ صحافت اور خبر آپ کی وہ طاقت ہے کہ جس سے آپ اپنے حکمرانوں کا احتساب کر سکتے ہیں۔ اگر صحافت اور صحافی کمزور ہوں گے تو جس گھڑے کی طرف آپ صحافت کو جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں یقین مانئیے کل آپ ہی نے اس گھڑے میں گرنا ہے کیونکہ صحافت اس گھڑے میں نہیں جا رہی ہوتی بلکہ آپ کو خبردار کر رہی ہوتی ہے۔ اس لئیے سوشل میڈیا کے گند سے بچنے کے لئیے مصدقہ خبروں پر توجہ دیجئے۔ ویسے حکمرانوں نے یہ تو دیکھ لیا ہو گا کہ جب ایک مصدقہ خبر آتی ہے چاہے وہ ڈان، نیوز، جنگ، اے آر وائی، دنیا، ایکسپریس پر نا بھی ہو ان کی دیواریں ہلانے کے لئیے کافی ہے۔ایک مصدقہ بڑی۔ اور اچھی خبر کے لئیے اب کسی مجبور یا کرپٹ ادارے کی ضرورت نہیں رہی۔ ذرا سوچیں اگر کوئی بھی صحافی چاہے وہ کسی چھوٹے سے ضلع میں ہی کیوں نہ کام کر رہا ہو، اس طرح کی خبریں فائیل کرنا شروع کر دے کہ تردید بھی مشکل میں پڑ جائے اور عدالت کا راستہ بھی دکھائی نہ دے اور متعلقہ صحافی پر حملہ کیس مزید بگاڑنے کا سبب بنے تو عوامی مفاد کس حد تک پورے ہو سکتے ہیں۔ جاتے جاتے یہ جان لیں کہ خبر تاریخ کا پہلا اندراج ہوتی ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کیا ہو گاکہ اگر کوئی خبر آ گئی۔۔۔یاد رکھیں خبریں نسلوں کا پیچھا کرتی ہیں۔