کڑیو تے منڈیو آجاو آجاو ویکھ لو سب کچھ چار آنے چار آنے، پرانی سی سائیکل پر ایک سٹینڈ اور تین سوراخوں والا ڈبہ اٹھائے آوازیں لگاتا شخص ھر گاوں ھر میلے میں بچوں کیلئے ایک خاص کشش رکھتا تھا، وہ تصویریں دکھاتا جاتا اور ساتھ کمنٹری کرتا جاتا، کبھی اسلامی عمارات کی تصاویر ھوتی تو کبھی فلمی اداکاروں کی تصویریں، اس کی کمنٹری بہت شاندار ھوتی تھی آجاو آجاو بیٹھے بٹھائے ویکھو مکہ تے مدینہ زیارات کرو اللہ دے گھر دی تے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دے روضے دی، خرچہ وی کوئی خاص نہیں بس چار آنے چار آنے، لو جناب حاجی صاحب ھن تسی پیچھے ھٹ جاو تہاڈا حج ھوگیا کسی ھور دی واری آن دئیو، لو جناب کون کریندا اے حج دے سارے فرائض دی تصویری سیر او وی چار آنے وچ،
اگلی دفعہ وہ پھر نئی کہانی لیکر آجاتا۔
لو جناب تسی صرف سنیا اے ملکہ ترنم نورجہاں نوں آج ویکھ وی لو ایناں لاگیوں کہ ساہ نال ساہ ٹکرا جان، شاوا بھئی شاوا لئی آو اپنے اپنے گھروں چار آنے چار آنے تے ویکھو ملکہ ترنم نورجہاں کی کہندی اے تے، نظر کینج دی آندی اے، عاشقاں ھزاراں تے لاکھاں روڑ چھڈے ایک جھلک ویکھن نوں تسی چار آنے خرچدے سوچدے او، دل وڈا کرو تے دل تے ھتھ رکھو آخر ملکہ ترنم نورجہاں نوں ویکھن لگے ھو۔
جس جس نے یہ سب دیکھا میرے سمیت وہ یہی سمجھا کہ اس نے سب دیکھ لیا ھے اور کبھی کبھی تو اپنے آپ کو گنہگار بھی سمجھا پر اگلی دفعہ پھر خانہ کعبہ، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر اپنی آنکھوں، دل، دماغ، روح کو پاکیزہ کرلیا، اور توبہ کرلی دوبارہ اداکاراوں کی تصاویر اتنی نزدیک سے نہیں دیکھوں گا، عمر بھی چھوٹی تھی اور گناہ بھی چھوٹے تھے، تصویریں دیکھ کر گنہگار ھوجاتے اور تصویریں دوبارہ دیکھ کر پاکباز ھوجاتے، جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی گناہ بھی بڑھتے گئے اور معافی بھی مشکل ھوتی گئی، جو کل تھے وہ آج ھوگئے اور جو آج تھے انکو ھم نے خود کل ھوتے دیکھا۔
روز کچھ نیا دیکھتے ھیں اور سوچتے ھیں سب دیکھ لیا پھر پتہ چلتا ھے جو بچپن میں دیکھتے تھے وہ چھوٹا جادو کا ڈبہ تھا اب بڑا ھوکر وہ ٹیلیویژن بن گیا ھے، بس دکھ یہ ھے کہ بچپن والا جادو کا ڈبہ یاتو فلمی ھوتا تھا یا پھر دینی فیصلہ آپکا ھے کہ دیکھنا کیا ھے اور اب نئے دور کا ڈبہ سیاسی بھی ھوگیا ھے ھر چیز میں سیاست وہ فلم ھو یا مذھب ھو۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جادو کے ڈبے سے نفرت سی ھونے لگی ھے جہاں اس کو ھر مہینے دیکھتے تھے اب کئی کئی سال گزر جاتے ھیں اس کو دیکھے ھو، سچ تو ھمیشہ سچ ھوتا ھے اور جھوٹ کی کوئی عمر نہیں ھوتی۔
یہ جادو کا ڈبہ ٹیلیویژن سے ترقی کرکے کمپیوٹر بن گیا اور مزید ترقی تب ھوئی جب سمارٹ فون ھمارے ھاتھوں میں آگیا، اب سمارٹ فون اور اسکا سوشل میڈیا اتنا طاقتور ھوچکا ھے کہ باقاعدہ جنگیں ان پر لڑی جارھی ھیں، ھم اپنوں کو نظر انداز کر رھے ھیں اور اپنا سارا وقت اس سمارٹ فون کو دے رھے ھیں اسکو اپنا سمجھ رھے ھیں، وہ فیس بک ھو، انسٹاگرام ھو، واٹس ایپ ھو، ٹک ٹاک ھو، ٹویٹر ھو، سنیپ چیٹ ھو یا کوئی دوسری بیماری یہ سب ھمیں اپنوں سے دور کر رھی ھیں، اور جن کو نہ ھم نے کبھی دیکھا اور نہ ملاقات ھوئی وہ ھمارے اپنے بنتے جارھے ھیں، اس کو کچھ سیانے گلوبل ویلج کا نام دیتے ھیں، اور میرا خیال ھے ھمیں گلوبل ویلج کی بجائے اپنے گاوں واپس چلے جانا چاھیئے، کیونکہ جن چیزوں کے مشورے یہ گلوبل ویلج والے دیتے ھیں وہ سب کچھ وھاں پہلے سے موجود ھے، کیمیکل سے پاک ھوا، سبزیاں، گھی، جانور، اور اپنے لوگ ۔ ضروری تو نہیں ھے آپ کا سب دیکھنا، اگر سب دیکھ کر زندگی ضائع کرنی ھے تو کیجئے یا پھر سادگی اپنائیے اپنا اور گھر والوں کا فائدہ کیجئے، کچھ دوست بیوی بچوں کو چھوڑ بہتر مستقبل کیلئے دوسرے ممالک جاتے ھیں نہ اپنے بچوں کا بچپن دیکھ پاتے ھیں اور نہ ھی اپنی جوانی۔ کیا پیسے کمانا ھی عقلمندی ھے یا روز اپنے بچوں کو دیکھنا ان سے پیار کرنا، آپ نے سب دیکھ لیا لیکن اپنی زندگی میں اپنے بیوی بچوں کو بیوہ اور یتیموں والی زندگی مت دیجئے، ان کو ساتھ لیجائے یا پھر ایسا فیصلہ مت کیجئے، جو عمر بھر کا پچھتاوا بن جائے، آنکھوں کے سامنے ھونا اور ویڈیو کال پر ھونا دونوں میں فرق ھوتا ھے فرق محسوس کیجئے اپنا بھلا کیجئے، سب دیکھنا ضروری تو نہیں ھے پر اپنوں کو دیکھنا بہت ھی ضروری ھے۔