مذہبی یک جہتی کے شاعر، حیرتؔ فرخ آبادی بھی الوداع کہہ گئے:
وقت اپنی جگہ پہ قائم ہے
ہم گزرتے ہیں ایک اک پل سے
ایسے فلسفیانہ اور لازوال شعر کہنے والے شاعر جناب جیوتی پرساد مسرا المتخلص بہ حیرتؔ فرخ آبادی 11 جولائی2021 کو شہر رانچی، جھارکھنڈ، ہندوستان میں انتقال کر گئے ۔ گھر میں دو بیٹے، ایک بیٹی، اور ان کے اہل و اعیال آپ کی نشانی کے طور پر موجود ہیں۔ چند دنوں قبل ہی موصوف کی شریک حیات داغ مفارقت دے کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔ ؎
ایک دن مٹّی میں مل جائیں گے یہ خاکی پرندے
پھر بھی خوابوں میں مگن رہتے ہیں یہ خوابی پرندے
حؔیرت 8 فروری 1930 کو ضلع بہرائچ، ہندوستان، میں پیدا ہوۓ ۔ آپ کے والد متھرا پرساد مسرا، مشن ہائی اسکول، فرخ آباد، میں دینیات کے مدرس تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ رکھا چرچ اور بڑھپور چرچ کے پاسٹر بھی تھے۔ انہیں شاعری سے بھی شغف تھا اور ناؔمی تخلص فرماتے تھے ۔ اس طرح حؔیرت کو شاعری میراث میں عطا ہوئی تھی۔ حؔیرت کے والد نے عیسائی مذہب کو اپنایا تھا، وہیں ان کی والدہ پیدا تو مذہب اسلام پر ہوئی تھیں لیکن 9 سال کی عمر میں مع خاندان انہوں نے بھی عیسائیت کو گلے لگا لیا تھا۔
چنانچہ حؔیرت کا تعلق مسلم، ہندو اور عیسائی مذاہب سے واضح تھا، اور اسی لیے وہ ہمیشہ قومی یک جہتی کی زندہ مثال بنے رہے ۔ موصوف کے والد کے پچپن کے واقعات من و عن پریم چند کے افسانے خون سفید سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ پریم چند نے یہ قصہ کہیں سنا یا پڑھا تھا جسے انہوں نے افسانے کے سانچے میں ڈھال دیا تھا۔
حؔیرت نے مشن اسکول، فرخ آباد؛ گورنمینٹ ہائی اسکول، فتح گڑھ؛ سینٹ اینڈریوز کالج، گورکھپور؛ اور کرسچن ٹرینینگ کالج، لکھنؤ؛ سے اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ سینٹ اینڈریوز کالج میں موصوف کے اردو اور انگریزی کے استاد جناب مجنوں گورکھپوری صاحب تھے جن کی شاگردی کا چرچا حؔیرت تا دم مرگ کرتے رہے۔ حؔیرت نے رانچی کے مشہور اسکول وکاس ودیالیہ میں 1960 سے 1990 تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں آپ دس سالوں تک گرین لینڈ اسکول کے پرنسپل کے طور پر مامور رہے۔ مزید براں آپ انجمن بقاۓ ادب، رانچی، کے صدر بھی تھے۔
حؔیرت نے 1952 سے با قائدہ شاعری کا آغاز کیا جب وہ بی۔اے۔ کے طالب علم تھے ۔
موصوف کا پہلا شعری مجموعہ نواۓ ساز دل 1987 میں منظر عام پر آیا ۔ اتر پردیش اردو اکاڈمی نے اس کتاب کی پزیرائی کرتے ہوۓ آپ کو انعام و اعزاز سے سرفراز کیا ۔ آپ کا دوسرا شعری مجموعہ بہ عنوان حس التماس ترمیم و اضافے کے ساتھ 2015 میں منظر عام پر نمودار ہوا ۔ یہ غزلیات و قطعات و منظومات و گیت سے آراستہ تھا ۔ ادبی حلقے میں اس کتاب نے خوب شہرت حاصل کی۔ اس مجموعے سے شاعر کے فنّی جوہر بھی عیاں ہوئے۔ ان ہی خصائل حمیدہ کو درپیش رکھ کر پروفیسر قمر رئیس صاحب نے حؔیرت کو ایک کہنہ مشق شاعر قرار دیا تھا ۔ وہیں علی احمد فاطمی صاحب نے تحریر کیا تھا کہ “جدید شاعری کے اس الجھے ہوئے دور میں حؔیرت کی شاعری حیرت میں ڈالتی ہے” ۔
حس التماس چند گراں قدر ادبی مضامین سے بھی منور ہے جن کے لکھنے والے پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر علی احمد فاطمی، عبد القیوم عبدالی، علی منیر اور ڈاکٹر حسن مثنٰی ہیں۔حؔیرت نے خود اپنے حالات بہ عنوان کچھ میرے خاندان اور میرے متعلق، لکھ کر محققین کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔ وہیں ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی ترتیب کردہ کتاب، حؔیرت فرخ آبادی۔ فن اور فنکار، ممدوح کی زندگی کے مختلف ادوار کا احاطہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔
جو کچھ دیکھا اک خواب ہی تھا اور جو بھی سنا افسانہ تھا
ہم سمجھے تھے دنیا جس کو کچھ اور نہ تھا ویرانہ تھا
ہم نے تو یہی جانا حؔیرت ہم نے تو یہی سمجھا حؔیرت
انسان سے کی نفرت جس نے اللہ سے وہ بیگانہ تھا
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
(خاؔطر غزنوی)
غم نہیں کچھ بھی اگر برسوں کا یارانہ گیا
کس کو کتنا پیار ہے یہ بھی تو پہچانا گیا
(حؔیرت فرخ آبادی)
نور ایماں کو بڑھاؤ تو کوئی بات بنے
اپنے باطن کو سجاؤ تو کوئی بات بنے
(عؔزیز مراد آبادی)
جو رخ سے پردہ اٹھاؤ تو کوئی بات بنے
ہمیں بھی جلوہ دکھاؤ تو کوئی بات بنے
( حؔیرت فرخ آبادی)
درد دل سے عشق کے بے پردگی ہوتی نہیں
اک چمک اٹھتی ہے لیکن روشنی ہوتی نہیں
(نؔظم طباطبائی)
اب ادا ہم سے نماز زندگی ہوتی نہیں
دل جلانے سے بھی اب تو روشنی ہوتی نہیں
(حؔیرت فرخ آبادی)
اداس بس عادتاً ہوں کچھ بھی ہوا نہیں ہے
یقین مانو کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے
(عؔرفان ستار)
تری بے نیازیوں کا مجھے کچھ گلہ نہیں ہے
مرا دل ہے خوب واقف ترا دل برا نہیں ہے
(حؔیرت فرخ آبادی)
دل جو آئینہ سا نہیں ہوتا
یار جلوہ نما نہیں ہوتا
(جؔمیلہ خدا بخش)
در امید وا نہیں ہوتا
اب وہ جلوہ نما نہیں ہوتا
(حؔیرت فرخ آبادی)
حؔیرت کے انتقال سے رانچی میں موجود کلاسیکی شعراء کی انجمن اب ویران ہے ۔ ایک ایسا بھی دور گزرا ہےجب شہر میں بزم ادب کے جلسے منعقد ہوتے تھے جس میں ہندوستان کے مشہور و معروف وکیل مرحوم سید انور حسین خاں، وزیر عبد القیوم انصاری صاحب جیسے قد آور افراد شرکت کرتے تھے اور محفل کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ شہر میں سب کچھ ہوتے ہوۓ بھی اب ویرانہ ہے ۔ وہ رونقیں کہیں گم ہو گئی ہیں۔ اور شہر اپنے ماضی کے حسین لمحات کی یاد میں ماتم سرا بنا ہواہے ۔