حال ہی میں وزیراعظم پاکستان کئی دوست ممالک کے مہمانوں اور پاکستان کے سول و فوجی حکام کے جَلو میں گوادر تشریف لائے تو پہلے سے جاری اور کئی نئے منصوبوں کی نوید سنائی۔ ان کے لئے مختلف اداروں کی طرف شاندار بریفنگز کا اہتمام کیا گیا جن میں پورے بلوچستان، جنوبی بلوچستان اور پھر خاص طور پر گوادر کی ترقی و تعمیرات کے خوش کُن اعلانات سامنے آئے۔ جیسے جیسے گوادر اور سی پیک سے متعلق تفصیلات عملی جامہ پہننے کی طرف گامزن ہو رہی ہیں ویسے ویسے ترقی و خوش حالی کی منزل واضح ہوتی دکھائی دیتی ہے جوں ہی وزیراعظم گوادر سے اپنے طیارے کے ذریعے اسلام آباد واپسی کے لئے فضا میں بلند ہوئے تو اسی لمحہ گوادر ہی نہیں پورے مکران ڈویژن کے لوگ سخت آزمائش سے دو چار ہوگئے ۔ اچانک پورا مکران اندھیرے میں ڈوب گیا۔ بجلی غائب ہوگئی، پنکھے بند ہوگئے۔ گرمی، حبس اور بے چینی سے تنگ شہری دم بھر کے لئے سانس لینے گھروں سے باہر نکلے تو انہیں قسطوں میں پتہ چلا کہ ایران سے آنے والی بجلی مکمل طور پر منقطع ہوگئی ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کب آئے گی ،کم از کم چالیس گھنٹے یہ صورت حال برقرار رہی ۔
بہت سارے لوگوں کے لئے یہ خبر یقینا حیران کن ہوگی کہ پاکستان کو گوادر کی حوالگی سے لے کر آج تک مکران کے پورے علاقے میں ایک میگا واٹ بجلی بھی پاکستان تو کیا خود بلوچستان کے کسی گِرڈ (Grid) سے مہیا نہیں کی جا سکی۔ پاکستان بنے چوہتر سال اور گوادر ہمیں ملے چونسٹھ سال گزر گئے۔ کئی فوجی اور سول حکومتیں آئیں مگر مجال ہے کسی نے اس طرف دھیان بھی دیا ہو۔ زیادہ تر انگریزوں کے دور سے کھڑے کئے گئے کھمبوں اور ہمسایہ دوست ملک ایران کی مہربانی سے مہیا ہونے والی اُدھار کی بجلی سے گوادر و مکران کے گلشن کا کارو بار چل رہا ہے۔ بطور ِ مملکت ہمارے لئے شرم کا ایک مقام یہ بھی ہے کہ تھوڑی سی مقدار میں ملنے والی اس بجلی کی طے شدہ قیمت بھی ہم کئی ماہ و سال کی تاخیر سے ادا کرتے ہیں اور اکثر بد مزہ ہوتے ہیں ۔ایران سے کسی زمانے میں صرف 27میگا واٹ اور اب تقریباً 100میگا واٹ بجلی مکران ڈویژن کو مہیا کی جاتی ہے ۔جو بچ بچا کے 70/80میگا واٹ رہ جاتی ہے۔
آئیے، پہلے تو یہ دیکھ لیتے ہیں کہ تازہ ترین ، بجلی کا بحران کیوں کر پیدا ہوا ۔ ایران گزشتہ برس تک نہ صرف بجلی کی پیداوار میں خود کفیل تھا بلکہ اس کے پاس فالتو بجلی تھی۔ مگر گزشتہ چند برسوں میں اس کی آبادی اور گرمی کی شدت بڑھنے اور بجلی کی کھپت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے طلب بڑھ گئی اور اس طلب کے مقابلے میں پیداوار کم ہوگئی۔ گزشتہ سال ایران میں بارشوں میں52%کمی واقع ہوئی جس کا اثر اس کے ڈیموں پر بھی پڑا۔ پن بجلی کے کارخانوں پر اس کا منفی اثر ہوا اور بعض اطلاعات کے مطابق بجلی بنانے کے چار بڑے پاور ہائوس سالانہ مرمت نہ ہونے یا تیکنیکی خرابیوں کے باعث کافی حد تک بجلی بنانے سے قاصر ہوگئے۔ ان سب عوامل نے مل کر ایران میں بھی بجلی کا بحران پیدا کردیا اور ایران نے پاکستان اور افغانستان کو باضابطہ اطلاع دے کر ہرات اور مکران کی بجلی منقطع کردی مگر بجلی کی یہ بندش گوادر اور مکران کی آبادی کے لئے اچانک ایک اُفتاد بن کر سامنے آئی۔ اگرچہ ایران کی حکومت پر لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اس کے عوام کا شدید دبائو ہے مگر پاکستانی حکام کی کوشش سے ایران نے دو تین دن کے بعد معمولی مقدار میں جزوی طور پر مکران کی بجلی بحال کردی ہے جو یہاں کے دیہاتوں، قصبوں یا شہروں کے لئے اُونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے اور مکران کے ہر علاقے کے شہری ابھی کافی عرصہ بجلی کے ہاتھوں بے حال رہیں گے۔
سی پیک اتھارٹی ،صوبائی اور وفاقی حکومتیں بلا شبہ میگا پراجیکٹس کے پیچھے ہیں اور اب گوادر ماسٹر پلان نافذ ہونے کے بعد اپنے اہداف حاصل کرنے میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہیں ۔ البتہ یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ ملکی اورغیر ملکی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری بڑے بڑے منصوبوں کے لئے ، جس جس توجہ اور کوشش کے ساتھ حاصل کرنے پر زور ہے اس کا عشرِ عشیر بھی مقامی اور موجود انسانی آبادی کے لئے میسر نہیں ہے۔ افلاس ،جہالت ، نشہ اور بے روزگاری کے ہاتھوں قریب المرگ لوگ اگر پانی اور بجلی جیسی سہولت سے بھی طویل مدت محروم رہیں گے تو ان کے بالکل معدوم ہونے کاخطرہ بڑھ جائے گا۔ اس آبادی کے ہر درد کا درمان کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے تاکہ جب گوادر کی ترقی کا سورج پورے جوبن پرہو تو خوش حالی کی شاہراہ پر دوڑتے ،نئے مکینوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے پرانے مکین بھی رینگ سکیں گے۔ گویا ترقی کی منزل سے ان کو بھی حصہ مل جائے تو یہ ان کے لئے ضرور ہی اطمینان کا باعث بنے گا۔
سی پیک اور جنوبی بلوچستان میں بجلی کے منصوبوں کے پاکستانی مجاز افسران اب یہ بتا رہے ہیں کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ گوادر کو بجلی کی فراہمی اور اس کی خود کفالت کے منصوبوں پر کام کررہے ہیں ۔ کوئٹہ ، خضدار، حب وغیرہ کے نیشنل گرڈسے اب مکران اور بالخصوص گوادر کے لئے بجلی فراہم کرنے کے لئے کام اپنے ابتدائی مرحلے میں داخل ہے۔ اس احساس کے بعد کہ واقعی گوادر کے لئے اب تک ایک میگا واٹ بجلی بھی نیشنل گرڈ سے مہیا نہی ںکی گئی اور اب اس کا ازالہ کرنے کا وقت آگیا ہے لہٰذا اس احساس کا خیر مقدم ہی کرنا چاہئے۔
چینی کمپنی کی مدد سے گوادر کول پلانٹ کو بننے اور آپریشنل ہونے میں ابھی دو تین سال لگیں گے جس سے 300میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ سردست تو گزشتہ چار پانچ سالوں میں اس پلانٹ کے لگنے کی بار بار نوید سنانے کے باوجود، ابھی اس کی صرف Siteفائنل ہوئی ہے۔ عملاً کام شروع کرنے اور پھر مکمل ہونے کا تو بہرحال انتظار ہی کرنا پڑے گا۔
بجلی کے اس مسئلہ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس سارے علاقہ میں پہلے سے موجود ٹرانسمیشن لائنز بوسیدہ ہیں۔ بجلی کی پیداوار، اس کی وصولی اور پھر محفوظ ترسیل کا نظام بہت کمزور یا ناکافی ہے۔ گبد250، پاک ایران بارڈر کے راستے مکران اور گوادر کو جو پاکستانی حصے میں 100میگا واٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے وہ پورے مکران میںA 132-KV کی لائن کے ذریعے تقسیم ہو تی ہے جبکہ اس کے لئےA 220KVکی لائنز درکار اور ناگزیر ہیں ۔ کمزور لائن کی وجہ سے طویل فاصلوں تک پہنچائی جانے والی بجلی خرابی اور لوڈشیڈنگ کا سبب بن جاتی ہے۔ جو مسلسل لوگوں کے لئے اذیت کا سبب بنتی ہے۔
اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ سی پیک اور دیگر تمام ذرائع سے ہنگامی طور پر اس کام کے لئے فنڈز فراہم کئے جائیں اور جنگی بنیادوں پر کم سے کم مدت میں نئی اور پاور فل ٹرانسمیشن لائنز، انفراسٹرکچر ،بجلی کی وصولی کا محفوظ سسٹم اور پھر ترسیل کا سارا نظام نئے سرے سے تشکیل دے لیا جائے۔
مختصر مدت میں پَن بجلی، ہوائی چکیوں اور سولر بجلی گھرکے چھوٹے بڑے منصوبے مکمل کئے جائیں اور گوادر کول پلانٹ کی تعمیر میں حائل رکاوٹیں نہ صرف ختم ہوں بلکہ اس کی جلدسے جلد تکمیل کو یقینی بنا دیا جائے۔
ایران بہتر وسائل اور مینجمنٹ کی وجہ سے بہت جلد اپنے ہاں بجلی کے حالیہ بحران پر قابو پا لے گا۔ ان کی اب تک زیادہ سے زیادہ ملکی ڈیمانڈ60ہزار میگا واٹ کی ہے جبکہ اس کی پیداوار ی صلاحیت 75ہزار میگا واٹ سے زیادہ ہے اس اَمر کی اشد ضرورت ہے کہ اس سے کئے گئے سابقہ معاہدے 100میگا واٹ کی مقدار کو بڑھا کر کم از کم دو تین سو میگا واٹ کی توسیع کرائی جائے۔ اس ضمن میں اگر کوئی رکاوٹ ہو یا بین الاقوامی دبائو ہو تو اسے ایک علاقائی اور مقامی مسئلے کے طور پر مقامی عمائدین اور اُن پر اثر انداز ہونے والے دوستوں کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔ ایران جیسے ہی موجودہ دبائو سے انکلے گا اس کے پاس وافر بجلی موجود ہوگی اور ہم اس سے ہمسائیگی کے ناتے اس کے حصول کی کوشش کر سکتے ہیں ۔
اگر ارباب اختیار نیک نیتی اور سنجیدگی سے ایران سے اس ضرورت کو پورا کرنے کی درخواست کریں تو غالب گمان ہے کہ وہ انکار نہیں کرے گا۔ اس طرح ہمارے پاس، اگر اپنے ذرائع سے بجلی آ بھی جائے تو ایک متبادل ذریعے کے طور پر پورے مکران کے لئے اضافی بجلی مہیا ہوگی۔کبھی کوئلے کی ترسیل میں کسی بھی وجہ سے کوئی رکاوٹ پیدا ہوا جائے تو یہ اقدام اس کا بھی ازالہ کر سکے گا اور نیشنل گرڈز سے اتصال کے بعد گوادر بجلی کے بحران سے مکمل طور پر نجات حاصل کرسکے گا۔
گوادر کے سی پورٹ نے پوری طرح فعال ہونا یانئے ایئر پورٹ نے کام کرنا ہو۔ نیوی اور افواج پاکستان کی دفاعی تنصیبات ہوں یا تعمیراتی شعبہ ، انڈسٹری یا ایکسپورٹ زون ہو یا تجارتی سرگرمیاں ، ماسٹر پلان کے مطابق متوقع آبادی کا پھیلائو ہو یا موجودہ آبادی کی تعلیمی،تفریحی یا گھریلو ضروریات ان میں سے ہر کام کے لئے بجلی کا میسر ہونا بنیادی ضرورت ہے۔ بجلی کی فوری اور بروقت دستیابی کے بغیر سی پیک یا گوادر کی ترقی محض ایک خواب ہوگایہ خواب اس مسئلہ کے مستقل حل تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ تو کیا ہماری سرکار خواب ِ خرگوش سے بیدار ہونے کو تیار ہے؟
٭٭٭٭