1928 سے 1988 ساٹھ سال ہوتے ہیں ، میں ان 60 سالوں کو پنجاب کی ہسٹری کا تاریک دور dark ages گردانتا ہوں ، یہ وہ منحوس دور ہے جب پنجابیوں کا برین واش کرکے ان میں اپنی ماں دھرتی سے بیگانگی واجنبیت اور پنجابی زبان سے نفرت کے وحقارت کے بیج بوئے گئے اور آج وہ بیج تناور درخت بن چکا ہے، یہی وہ تاریک دور تھا جب پنجاب توڑ دیاگیا اور یہی وہ دور ہے جس میں سرائیکی فتنے کا بیج بویا گیا۔
پنجاب کا یہ تاریک دور علامہ اقبال کے عروج یعنی 1928 سے شروع ہوتا ہے اور ساٹھ سال مکمل کرتے ہوئے جنرل ضیا کی موت اگست 1988 پر آ پہنچتا ہے۔پنجاب کے اگر کوئی دو ولن ہوسکتے ہیں تو بلاجھجک میری انگلی علامہ اقبال اور جنرل ضیا الحق کی طرف اٹھے گی کیونکہ اگر علامہ اقبال کی شاعری نے پنجابیوں کے دل میں اندلس اور سمرقند کا باسی ہونے اور پنجابی شناخت ترک کرکے امت مسلمہ کا چیمپئن بننے کا خیال دل میں ڈالا جس نے پنجاب میں مذہبی نفرت پیداکی اور پنجابی مسلمانوں کو اپنے ہی سکھ اور ہندو پنجابی بھایئوں کے خلاف فسادات اور پنجاب توڑنے پر اکسایا۔
علامہ اقبال کا دور ہم پنجاب کے تاریک دور کا فیز ون کہہ سکتے ہیں ، جنرل ضیا کادور پنجاب کے تاریک دور کا فیز 2 کہنا درست ہوگا جب پنجابیوں کو باقاعدہ سرائیکی پوٹھواری اور پنجابی یعنی تین خطوں میں تقسیم کیاگیا ، فرقہ ورانہ تنظیمیں بنواکر شیعہ سنی محاذ آرائی کروائی گئی ، برادری ازم کو فروغ دیاگیا، میڈیا خصوصن پی ٹی وی ڈراموں کے ذریعےپنجابی کو جاہلوں اور ڈھگوں کی زبان بنا کر پیش کیاجاتا رہا ، تخت لاہور کے خلاف نظم لکھواکر لاہور کو باقاعدہ گالی دلوائی گئی۔
میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کو کسی غیر پنجابی نے کم لیکن بے شعور اور خودغرض ان دو پنجابیوں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے،مستقبل کا مورخ علامہ اقبال اور جنرل ضیا الحق کے پنجاب کے خلاف جرائم کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
میں علامہ اقبال سے جنرل ضیا تک 60 سال کا دور پنجاب کا تاریک دور قرار دیتا ہوں اور ان دونوں کو ولن ۔