Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
رقیہ خالہ کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ ہمارے قریبی دوست کی اماں جان تھیں۔ اور یہی بات ہمارے لیے بدقسمتی کا باعث بنی ہوئی تھی۔
ادھار اور چلتی ہوا سے کام لینا ان سے کوئی سیکھے۔ جس گلی میں رقیہ خالہ کا گھر تھا۔وہ کئی دوستوں کے لیے ’علاقہ غیر‘ بنا رہتا۔ وجہ خالہ جی کا کام اور ادھار ہی تھا۔ دروازے پر ہمیشہ ڈیرے ڈالے رہتی تھیں اور راہ چلتے سے محلے بھر کی خبر جان کر ’اپ ٹو ڈیٹ‘ ہوتی رہتیں۔ گھر کا کام کاج کون کرتا،کس سے کراتیں۔ یہ راز کبھی نہیں کھلا۔ کیونکہ ہمارے دوست ان کی اکلوتی ’سنتان‘ تھیں۔ کچھ ’باخبر‘ لوگ کہتے تھے کہ ’انکل جی یعنی انکل شرافت ‘ ہی وہ ’فرشتے‘ تھے جو چپ چاپ گھریلو ذمے داریاں نبھاتے تھے۔ سرکاری محکمے میں ملازم تھے اور دوپہر میں کھانا کھانے یا بنانے کے بہانے گھر آتے تو اس کے بعد اگلے ہی دن ناشتہ کرکے دفتر کا رخ کرتے۔ شوکی یعنی ہمارے دوست کی جب کوئی کلاس لیتا تو ان کے ابا جی کی اسی امور خانہ داری کو موضوع بنایا جاتا۔ وہ بے چارہ جھینپ کر ناکام سیاست دان کی طرح کمزور بیان دے کر جان چھڑانے کی ناکام کوشش کرتا لیکن جناب کیا کریں بھلا حقیقت کہاں چپ سکتیں بوکمزور بیانات سے خالہ رقیہ کا شوہر پر اتنا ’ہولڈ‘ تھا جیسے ہماری تبدیلی سرکار کا اپنا وزیروں پر ۔ مرضی کے بغیر بے چارے جس طرح وہ ایک بھی کام نہیں کرسکتے اسی طرح انکل شرافت بھی۔ما ں باپ نے نام شرافت غالباً یہ سوچ کر رکھا ہوگا کہ بچہ شریف نکلے گا، فرماں بردار ہوگا لیکن انہیں کیا پتا تھی یہ ساری شرافت صرف اور صرف رقیہ خالہ کے ہی کام آئے گی۔ خالہ جی کے کام اور ادھار کے خوف سے اکثر دوست ان کے در پر جانا ہی چھوڑ گئے تھے۔ ہم نے شوکی سے ’سیٹنگ‘ کی اور اسے بلانے کے لیے گلی کا کھمبا بجانا شروع کردیا۔ لیکن نجانے کون کم بخت مخبر تھا جس نے یہ ’خبری‘ خالہ تک پہنچا دی۔ ادھر ہم کھمبا بجائیں ادھر جھٹک سے لپک کر آجاتیں۔ اور دور سے ہی آواز لگاتیں:”ارے صوفی بیٹا۔ذرا جلدی سے سلیم کی دکان سے چینی لادو۔ تمہارے انکل آفس جانے کے لیے بیٹھے ہیں۔“ رقم کا تقاضہ ہم اس لیے نہیں کرتے کیونکہ ہمیں پتا تھا ان کے پاس رٹارٹایاایک ہی جواب ہوگا:”ارے بیٹا تم لے آؤ۔ شوکی دے دے گا۔۔“ اور شوکی سے مانگا جاتا تو وہ بھی اماں کی طرح جواب دیتے ہوئے کہتا کہ کس نے کہا تھا پیسے دو، مجھ سے پوچھ کر دیے تھے؟
محلے کا کون سا ایسا دکاندار نہ ہوگا جس کے ’ادھار کی قینچی‘ کو خالہ نے زنگ نہ لگنے دیا ہو۔ دکانداروں کے ادھار کے سارے ’انقلابی نعرے‘ خالہ کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ دکانداروں نے خالہ کے خلاف ’ادھار اگلے چوک‘ کی مہم چلائی لیکن کیا کہنے خالہ کے۔ جن کی چکنی چپڑی باتوں میں ایسے آئے کہ ’کشمیر کی آزادی سے پہلے ادھار نہ دینے‘ کے ایجنڈے سے دست بردار ہوہی گئے
خالہ رقیہ اور ہمارا ٹاکرا اکثر و بیشتر تو ہوتا ہی رہتا تھا۔ یہ زیادہ تر کام یا پھر ادھار کے لیے ہوتا۔ایک روز ہماری بیٹھک جاری تھی۔شوکی کے گھر، اچانک ہی خالہ آندھی طوفان کی طرح آئیں۔ ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی۔ جو ہماری طرف بڑھائی گئی۔ اس ’غیر متوقع مہمان نوازی‘ نے ہمارے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کردیں۔شوکی غالباً اماں کے مستقبل کے ارادوں کوبھانپ گیا تھا جبھی نو دو گیارہ ہوگیا۔ خالہ پاس کرسی پر بیٹھیں اور ہم تصور میں اپنے آپ کو ’قربانی کا بکرا‘ سمجھنے لگے ۔ ہمارے خیالوں کا یہ تسلسل خالہ کی آواز سے ٹوٹا:
”وہ صوفی بیٹا۔ تم سے ایک کام تھا۔۔“ ”جی جی۔۔ بولیے۔ “ ڈرتے ڈرتے ہم نے صرف اتنا ہی کہا۔
”وہ تمہارے انکل کو ایک کے پیسے دینے ہیں۔ ہو سکے تو ہزار روپے قرضا مل سکتا ہے۔ ان کی تن خواہ پر تم کو دے دوں گی۔“ خالہ آگئیں
اصل مدعے پر۔
”وہ خالہ ہمارے پاس اتنی بڑی رقم کہاں۔“ واقعی یہ اتنی بڑی رقم تھی کیونکہ اس زمانے میں ہم پڑھ ہی تو رہے تھے۔
”پھر کتنے ہیں تمہارے پاس؟“ خالہ ’بار گینی نگ‘ پر اتر آئیں۔
”وہ پانچ سو ہوں گے اس وقت تو۔“ ہم نے بمشکل ہی کہا اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے یہ اکلوتا نوٹ ان کی طرف بڑھا دیا جو ابا نے ہماری جیب خرچی دی تھی۔
خالہ نے ہاتھ آئی یہ ’غیر ملکی امداد‘ دبوچتے ہوئے اگلا بیان داغا ”باقی پانچ سو کب دوں گے؟“
”میں کوشش کروں گا کہ انتظام کر دوں۔۔“ ہمیں اماں کے بٹوے کا خیال آیا۔ جو میز پر ہوتا ہے اور بہت دنوں سے ہمیں منہ چڑا رہا تھا۔
”جلدی کر دینا بیٹا۔“ خالہ نے التجائی انداز میں فرمائش کی۔۔۔
”جی جی میں کوشش کروں گا۔“ ہم نے چائے کے کپ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تبھی خالہ بولیں:”ہاں جلدی۔ ارے لاؤ پیالی میں چینی ڈالنا تو بھول ہی گئی تھی جلدی جلدی میں۔“ یہ کہہ کر رقیہ خالہ پیالی لے کر ایسی گئیں کہ ہم گھنٹوں بیٹھے رہے لیکن پھر دیدار نہ ہوا اس ’عظیم اور نادر کپ‘ کا۔۔ یعنی ہاتھ کو بھی آیا نہ منہ کو لگا
خالہ سے قرض کا ’عہد وفا‘ تو کرلیا ہم نے لیکن یہی ہم پر بھاری پڑگیا۔ جب کھمبا بجاتے خالہ کا دیدار ہوتا جو گیٹ سے ہی چیخ کر پوچھتیں ”ارے بھئی وہ پانچ سو روپے کب دوں گے؟“
آس پاس کے لوگ ہم کو خود ’مقروض‘ سمجھتے اور ہم سر جھکا کر چپ ہی ہوکر عافیت جانتے۔ یہاں تک کہ شوکی سے ملنے کبھی غلطی سے اس کے در پر آجاتے تو خالہ کا تقاضہ یہ ہوتا کہ تم نے وعدہ کیا تھا پانچ سو روپے کا۔ لیکن ابھی تک نہیں دیے۔ کب دو گے کوئی نہ کوئی تاریخ تو بتاؤ۔‘ ایسا لگتا کہ ہم نے ان سے قرض لیا تھا اور اسے ادا کرنے سے قاصر رہے۔ خالہ کا دباؤ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ آتے جاتے کبھی کرکٹ کھیلتے ہوئے ان سے ٹکراؤ ہوجاتا تو وہ دوستوں کے سامنے رسوا کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ یار دوست کی نگاہیں ہماری طرف ہوتیں جو بعد میں یہی کہتے کہ کتنی غلط بات ہے ایک تو قرض لیتے ہو اور وہ دیتے بھی نہیں۔ اب ہم لاکھ پورا واقعہ بیان کرتے بھلا نقار خانے میں ’صوفی‘ کی کون سنتا ہے جناب۔ دس بار سوچا کہ خالہ کا منہ بند کردیں لیکن اماں کے بٹوے پر ڈاکہ ڈالنے کی ہمت نہ جتا پائے۔ ادھر خالہ کی ’ڈیمانڈ‘ بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ شوکی بھی اب یہ کہنے لگا:”یار امی کہہ رہی تھیں کہ تم پانچ سو روپے کب دوں گے؟ کوئی حد ہے وعدہ خلافی کی۔۔“ ہم نے صبر و شکر کے ساتھ یہ بھی سوچ لیا کہ ہمارے پانچ سو روپے کی امداد واقعی ڈوب بھی گئی ہے۔۔۔
دھیرے دھیرے خالہ کے تقاضوں میں کمی آتی گئی۔ اور ہم واقعی بھول بھی گئے کہ کبھی ہم نے پانچ سو روپے کا قرض دیا تھا۔ یہاں تک کہ کئی ساون بیت گئے۔ لیکن آج بھی جب شوکی ملتا ہے تو اپنی اماں کا بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بس یہی کہتا ہے:”یار تم نے اب تک امی کے پانچ سو روپے نہیں دیے۔ اب تو تم کمانے بھی لگے ہو۔ دے دو۔ مقروض کی دعا قبول نہیں ہوتیں۔“ اور ہم مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کرصرف یہی کہتے ہیں:”نہیں نہیں بعض کی ہوجاتی ہیں۔
@suffyyan
رقیہ خالہ کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ ہمارے قریبی دوست کی اماں جان تھیں۔ اور یہی بات ہمارے لیے بدقسمتی کا باعث بنی ہوئی تھی۔
ادھار اور چلتی ہوا سے کام لینا ان سے کوئی سیکھے۔ جس گلی میں رقیہ خالہ کا گھر تھا۔وہ کئی دوستوں کے لیے ’علاقہ غیر‘ بنا رہتا۔ وجہ خالہ جی کا کام اور ادھار ہی تھا۔ دروازے پر ہمیشہ ڈیرے ڈالے رہتی تھیں اور راہ چلتے سے محلے بھر کی خبر جان کر ’اپ ٹو ڈیٹ‘ ہوتی رہتیں۔ گھر کا کام کاج کون کرتا،کس سے کراتیں۔ یہ راز کبھی نہیں کھلا۔ کیونکہ ہمارے دوست ان کی اکلوتی ’سنتان‘ تھیں۔ کچھ ’باخبر‘ لوگ کہتے تھے کہ ’انکل جی یعنی انکل شرافت ‘ ہی وہ ’فرشتے‘ تھے جو چپ چاپ گھریلو ذمے داریاں نبھاتے تھے۔ سرکاری محکمے میں ملازم تھے اور دوپہر میں کھانا کھانے یا بنانے کے بہانے گھر آتے تو اس کے بعد اگلے ہی دن ناشتہ کرکے دفتر کا رخ کرتے۔ شوکی یعنی ہمارے دوست کی جب کوئی کلاس لیتا تو ان کے ابا جی کی اسی امور خانہ داری کو موضوع بنایا جاتا۔ وہ بے چارہ جھینپ کر ناکام سیاست دان کی طرح کمزور بیان دے کر جان چھڑانے کی ناکام کوشش کرتا لیکن جناب کیا کریں بھلا حقیقت کہاں چپ سکتیں بوکمزور بیانات سے خالہ رقیہ کا شوہر پر اتنا ’ہولڈ‘ تھا جیسے ہماری تبدیلی سرکار کا اپنا وزیروں پر ۔ مرضی کے بغیر بے چارے جس طرح وہ ایک بھی کام نہیں کرسکتے اسی طرح انکل شرافت بھی۔ما ں باپ نے نام شرافت غالباً یہ سوچ کر رکھا ہوگا کہ بچہ شریف نکلے گا، فرماں بردار ہوگا لیکن انہیں کیا پتا تھی یہ ساری شرافت صرف اور صرف رقیہ خالہ کے ہی کام آئے گی۔ خالہ جی کے کام اور ادھار کے خوف سے اکثر دوست ان کے در پر جانا ہی چھوڑ گئے تھے۔ ہم نے شوکی سے ’سیٹنگ‘ کی اور اسے بلانے کے لیے گلی کا کھمبا بجانا شروع کردیا۔ لیکن نجانے کون کم بخت مخبر تھا جس نے یہ ’خبری‘ خالہ تک پہنچا دی۔ ادھر ہم کھمبا بجائیں ادھر جھٹک سے لپک کر آجاتیں۔ اور دور سے ہی آواز لگاتیں:”ارے صوفی بیٹا۔ذرا جلدی سے سلیم کی دکان سے چینی لادو۔ تمہارے انکل آفس جانے کے لیے بیٹھے ہیں۔“ رقم کا تقاضہ ہم اس لیے نہیں کرتے کیونکہ ہمیں پتا تھا ان کے پاس رٹارٹایاایک ہی جواب ہوگا:”ارے بیٹا تم لے آؤ۔ شوکی دے دے گا۔۔“ اور شوکی سے مانگا جاتا تو وہ بھی اماں کی طرح جواب دیتے ہوئے کہتا کہ کس نے کہا تھا پیسے دو، مجھ سے پوچھ کر دیے تھے؟
محلے کا کون سا ایسا دکاندار نہ ہوگا جس کے ’ادھار کی قینچی‘ کو خالہ نے زنگ نہ لگنے دیا ہو۔ دکانداروں کے ادھار کے سارے ’انقلابی نعرے‘ خالہ کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ دکانداروں نے خالہ کے خلاف ’ادھار اگلے چوک‘ کی مہم چلائی لیکن کیا کہنے خالہ کے۔ جن کی چکنی چپڑی باتوں میں ایسے آئے کہ ’کشمیر کی آزادی سے پہلے ادھار نہ دینے‘ کے ایجنڈے سے دست بردار ہوہی گئے
خالہ رقیہ اور ہمارا ٹاکرا اکثر و بیشتر تو ہوتا ہی رہتا تھا۔ یہ زیادہ تر کام یا پھر ادھار کے لیے ہوتا۔ایک روز ہماری بیٹھک جاری تھی۔شوکی کے گھر، اچانک ہی خالہ آندھی طوفان کی طرح آئیں۔ ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی۔ جو ہماری طرف بڑھائی گئی۔ اس ’غیر متوقع مہمان نوازی‘ نے ہمارے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کردیں۔شوکی غالباً اماں کے مستقبل کے ارادوں کوبھانپ گیا تھا جبھی نو دو گیارہ ہوگیا۔ خالہ پاس کرسی پر بیٹھیں اور ہم تصور میں اپنے آپ کو ’قربانی کا بکرا‘ سمجھنے لگے ۔ ہمارے خیالوں کا یہ تسلسل خالہ کی آواز سے ٹوٹا:
”وہ صوفی بیٹا۔ تم سے ایک کام تھا۔۔“ ”جی جی۔۔ بولیے۔ “ ڈرتے ڈرتے ہم نے صرف اتنا ہی کہا۔
”وہ تمہارے انکل کو ایک کے پیسے دینے ہیں۔ ہو سکے تو ہزار روپے قرضا مل سکتا ہے۔ ان کی تن خواہ پر تم کو دے دوں گی۔“ خالہ آگئیں
اصل مدعے پر۔
”وہ خالہ ہمارے پاس اتنی بڑی رقم کہاں۔“ واقعی یہ اتنی بڑی رقم تھی کیونکہ اس زمانے میں ہم پڑھ ہی تو رہے تھے۔
”پھر کتنے ہیں تمہارے پاس؟“ خالہ ’بار گینی نگ‘ پر اتر آئیں۔
”وہ پانچ سو ہوں گے اس وقت تو۔“ ہم نے بمشکل ہی کہا اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے یہ اکلوتا نوٹ ان کی طرف بڑھا دیا جو ابا نے ہماری جیب خرچی دی تھی۔
خالہ نے ہاتھ آئی یہ ’غیر ملکی امداد‘ دبوچتے ہوئے اگلا بیان داغا ”باقی پانچ سو کب دوں گے؟“
”میں کوشش کروں گا کہ انتظام کر دوں۔۔“ ہمیں اماں کے بٹوے کا خیال آیا۔ جو میز پر ہوتا ہے اور بہت دنوں سے ہمیں منہ چڑا رہا تھا۔
”جلدی کر دینا بیٹا۔“ خالہ نے التجائی انداز میں فرمائش کی۔۔۔
”جی جی میں کوشش کروں گا۔“ ہم نے چائے کے کپ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تبھی خالہ بولیں:”ہاں جلدی۔ ارے لاؤ پیالی میں چینی ڈالنا تو بھول ہی گئی تھی جلدی جلدی میں۔“ یہ کہہ کر رقیہ خالہ پیالی لے کر ایسی گئیں کہ ہم گھنٹوں بیٹھے رہے لیکن پھر دیدار نہ ہوا اس ’عظیم اور نادر کپ‘ کا۔۔ یعنی ہاتھ کو بھی آیا نہ منہ کو لگا
خالہ سے قرض کا ’عہد وفا‘ تو کرلیا ہم نے لیکن یہی ہم پر بھاری پڑگیا۔ جب کھمبا بجاتے خالہ کا دیدار ہوتا جو گیٹ سے ہی چیخ کر پوچھتیں ”ارے بھئی وہ پانچ سو روپے کب دوں گے؟“
آس پاس کے لوگ ہم کو خود ’مقروض‘ سمجھتے اور ہم سر جھکا کر چپ ہی ہوکر عافیت جانتے۔ یہاں تک کہ شوکی سے ملنے کبھی غلطی سے اس کے در پر آجاتے تو خالہ کا تقاضہ یہ ہوتا کہ تم نے وعدہ کیا تھا پانچ سو روپے کا۔ لیکن ابھی تک نہیں دیے۔ کب دو گے کوئی نہ کوئی تاریخ تو بتاؤ۔‘ ایسا لگتا کہ ہم نے ان سے قرض لیا تھا اور اسے ادا کرنے سے قاصر رہے۔ خالہ کا دباؤ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ آتے جاتے کبھی کرکٹ کھیلتے ہوئے ان سے ٹکراؤ ہوجاتا تو وہ دوستوں کے سامنے رسوا کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ یار دوست کی نگاہیں ہماری طرف ہوتیں جو بعد میں یہی کہتے کہ کتنی غلط بات ہے ایک تو قرض لیتے ہو اور وہ دیتے بھی نہیں۔ اب ہم لاکھ پورا واقعہ بیان کرتے بھلا نقار خانے میں ’صوفی‘ کی کون سنتا ہے جناب۔ دس بار سوچا کہ خالہ کا منہ بند کردیں لیکن اماں کے بٹوے پر ڈاکہ ڈالنے کی ہمت نہ جتا پائے۔ ادھر خالہ کی ’ڈیمانڈ‘ بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ شوکی بھی اب یہ کہنے لگا:”یار امی کہہ رہی تھیں کہ تم پانچ سو روپے کب دوں گے؟ کوئی حد ہے وعدہ خلافی کی۔۔“ ہم نے صبر و شکر کے ساتھ یہ بھی سوچ لیا کہ ہمارے پانچ سو روپے کی امداد واقعی ڈوب بھی گئی ہے۔۔۔
دھیرے دھیرے خالہ کے تقاضوں میں کمی آتی گئی۔ اور ہم واقعی بھول بھی گئے کہ کبھی ہم نے پانچ سو روپے کا قرض دیا تھا۔ یہاں تک کہ کئی ساون بیت گئے۔ لیکن آج بھی جب شوکی ملتا ہے تو اپنی اماں کا بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بس یہی کہتا ہے:”یار تم نے اب تک امی کے پانچ سو روپے نہیں دیے۔ اب تو تم کمانے بھی لگے ہو۔ دے دو۔ مقروض کی دعا قبول نہیں ہوتیں۔“ اور ہم مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کرصرف یہی کہتے ہیں:”نہیں نہیں بعض کی ہوجاتی ہیں۔
@suffyyan
رقیہ خالہ کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ ہمارے قریبی دوست کی اماں جان تھیں۔ اور یہی بات ہمارے لیے بدقسمتی کا باعث بنی ہوئی تھی۔
ادھار اور چلتی ہوا سے کام لینا ان سے کوئی سیکھے۔ جس گلی میں رقیہ خالہ کا گھر تھا۔وہ کئی دوستوں کے لیے ’علاقہ غیر‘ بنا رہتا۔ وجہ خالہ جی کا کام اور ادھار ہی تھا۔ دروازے پر ہمیشہ ڈیرے ڈالے رہتی تھیں اور راہ چلتے سے محلے بھر کی خبر جان کر ’اپ ٹو ڈیٹ‘ ہوتی رہتیں۔ گھر کا کام کاج کون کرتا،کس سے کراتیں۔ یہ راز کبھی نہیں کھلا۔ کیونکہ ہمارے دوست ان کی اکلوتی ’سنتان‘ تھیں۔ کچھ ’باخبر‘ لوگ کہتے تھے کہ ’انکل جی یعنی انکل شرافت ‘ ہی وہ ’فرشتے‘ تھے جو چپ چاپ گھریلو ذمے داریاں نبھاتے تھے۔ سرکاری محکمے میں ملازم تھے اور دوپہر میں کھانا کھانے یا بنانے کے بہانے گھر آتے تو اس کے بعد اگلے ہی دن ناشتہ کرکے دفتر کا رخ کرتے۔ شوکی یعنی ہمارے دوست کی جب کوئی کلاس لیتا تو ان کے ابا جی کی اسی امور خانہ داری کو موضوع بنایا جاتا۔ وہ بے چارہ جھینپ کر ناکام سیاست دان کی طرح کمزور بیان دے کر جان چھڑانے کی ناکام کوشش کرتا لیکن جناب کیا کریں بھلا حقیقت کہاں چپ سکتیں بوکمزور بیانات سے خالہ رقیہ کا شوہر پر اتنا ’ہولڈ‘ تھا جیسے ہماری تبدیلی سرکار کا اپنا وزیروں پر ۔ مرضی کے بغیر بے چارے جس طرح وہ ایک بھی کام نہیں کرسکتے اسی طرح انکل شرافت بھی۔ما ں باپ نے نام شرافت غالباً یہ سوچ کر رکھا ہوگا کہ بچہ شریف نکلے گا، فرماں بردار ہوگا لیکن انہیں کیا پتا تھی یہ ساری شرافت صرف اور صرف رقیہ خالہ کے ہی کام آئے گی۔ خالہ جی کے کام اور ادھار کے خوف سے اکثر دوست ان کے در پر جانا ہی چھوڑ گئے تھے۔ ہم نے شوکی سے ’سیٹنگ‘ کی اور اسے بلانے کے لیے گلی کا کھمبا بجانا شروع کردیا۔ لیکن نجانے کون کم بخت مخبر تھا جس نے یہ ’خبری‘ خالہ تک پہنچا دی۔ ادھر ہم کھمبا بجائیں ادھر جھٹک سے لپک کر آجاتیں۔ اور دور سے ہی آواز لگاتیں:”ارے صوفی بیٹا۔ذرا جلدی سے سلیم کی دکان سے چینی لادو۔ تمہارے انکل آفس جانے کے لیے بیٹھے ہیں۔“ رقم کا تقاضہ ہم اس لیے نہیں کرتے کیونکہ ہمیں پتا تھا ان کے پاس رٹارٹایاایک ہی جواب ہوگا:”ارے بیٹا تم لے آؤ۔ شوکی دے دے گا۔۔“ اور شوکی سے مانگا جاتا تو وہ بھی اماں کی طرح جواب دیتے ہوئے کہتا کہ کس نے کہا تھا پیسے دو، مجھ سے پوچھ کر دیے تھے؟
محلے کا کون سا ایسا دکاندار نہ ہوگا جس کے ’ادھار کی قینچی‘ کو خالہ نے زنگ نہ لگنے دیا ہو۔ دکانداروں کے ادھار کے سارے ’انقلابی نعرے‘ خالہ کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ دکانداروں نے خالہ کے خلاف ’ادھار اگلے چوک‘ کی مہم چلائی لیکن کیا کہنے خالہ کے۔ جن کی چکنی چپڑی باتوں میں ایسے آئے کہ ’کشمیر کی آزادی سے پہلے ادھار نہ دینے‘ کے ایجنڈے سے دست بردار ہوہی گئے
خالہ رقیہ اور ہمارا ٹاکرا اکثر و بیشتر تو ہوتا ہی رہتا تھا۔ یہ زیادہ تر کام یا پھر ادھار کے لیے ہوتا۔ایک روز ہماری بیٹھک جاری تھی۔شوکی کے گھر، اچانک ہی خالہ آندھی طوفان کی طرح آئیں۔ ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی۔ جو ہماری طرف بڑھائی گئی۔ اس ’غیر متوقع مہمان نوازی‘ نے ہمارے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کردیں۔شوکی غالباً اماں کے مستقبل کے ارادوں کوبھانپ گیا تھا جبھی نو دو گیارہ ہوگیا۔ خالہ پاس کرسی پر بیٹھیں اور ہم تصور میں اپنے آپ کو ’قربانی کا بکرا‘ سمجھنے لگے ۔ ہمارے خیالوں کا یہ تسلسل خالہ کی آواز سے ٹوٹا:
”وہ صوفی بیٹا۔ تم سے ایک کام تھا۔۔“ ”جی جی۔۔ بولیے۔ “ ڈرتے ڈرتے ہم نے صرف اتنا ہی کہا۔
”وہ تمہارے انکل کو ایک کے پیسے دینے ہیں۔ ہو سکے تو ہزار روپے قرضا مل سکتا ہے۔ ان کی تن خواہ پر تم کو دے دوں گی۔“ خالہ آگئیں
اصل مدعے پر۔
”وہ خالہ ہمارے پاس اتنی بڑی رقم کہاں۔“ واقعی یہ اتنی بڑی رقم تھی کیونکہ اس زمانے میں ہم پڑھ ہی تو رہے تھے۔
”پھر کتنے ہیں تمہارے پاس؟“ خالہ ’بار گینی نگ‘ پر اتر آئیں۔
”وہ پانچ سو ہوں گے اس وقت تو۔“ ہم نے بمشکل ہی کہا اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے یہ اکلوتا نوٹ ان کی طرف بڑھا دیا جو ابا نے ہماری جیب خرچی دی تھی۔
خالہ نے ہاتھ آئی یہ ’غیر ملکی امداد‘ دبوچتے ہوئے اگلا بیان داغا ”باقی پانچ سو کب دوں گے؟“
”میں کوشش کروں گا کہ انتظام کر دوں۔۔“ ہمیں اماں کے بٹوے کا خیال آیا۔ جو میز پر ہوتا ہے اور بہت دنوں سے ہمیں منہ چڑا رہا تھا۔
”جلدی کر دینا بیٹا۔“ خالہ نے التجائی انداز میں فرمائش کی۔۔۔
”جی جی میں کوشش کروں گا۔“ ہم نے چائے کے کپ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تبھی خالہ بولیں:”ہاں جلدی۔ ارے لاؤ پیالی میں چینی ڈالنا تو بھول ہی گئی تھی جلدی جلدی میں۔“ یہ کہہ کر رقیہ خالہ پیالی لے کر ایسی گئیں کہ ہم گھنٹوں بیٹھے رہے لیکن پھر دیدار نہ ہوا اس ’عظیم اور نادر کپ‘ کا۔۔ یعنی ہاتھ کو بھی آیا نہ منہ کو لگا
خالہ سے قرض کا ’عہد وفا‘ تو کرلیا ہم نے لیکن یہی ہم پر بھاری پڑگیا۔ جب کھمبا بجاتے خالہ کا دیدار ہوتا جو گیٹ سے ہی چیخ کر پوچھتیں ”ارے بھئی وہ پانچ سو روپے کب دوں گے؟“
آس پاس کے لوگ ہم کو خود ’مقروض‘ سمجھتے اور ہم سر جھکا کر چپ ہی ہوکر عافیت جانتے۔ یہاں تک کہ شوکی سے ملنے کبھی غلطی سے اس کے در پر آجاتے تو خالہ کا تقاضہ یہ ہوتا کہ تم نے وعدہ کیا تھا پانچ سو روپے کا۔ لیکن ابھی تک نہیں دیے۔ کب دو گے کوئی نہ کوئی تاریخ تو بتاؤ۔‘ ایسا لگتا کہ ہم نے ان سے قرض لیا تھا اور اسے ادا کرنے سے قاصر رہے۔ خالہ کا دباؤ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ آتے جاتے کبھی کرکٹ کھیلتے ہوئے ان سے ٹکراؤ ہوجاتا تو وہ دوستوں کے سامنے رسوا کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ یار دوست کی نگاہیں ہماری طرف ہوتیں جو بعد میں یہی کہتے کہ کتنی غلط بات ہے ایک تو قرض لیتے ہو اور وہ دیتے بھی نہیں۔ اب ہم لاکھ پورا واقعہ بیان کرتے بھلا نقار خانے میں ’صوفی‘ کی کون سنتا ہے جناب۔ دس بار سوچا کہ خالہ کا منہ بند کردیں لیکن اماں کے بٹوے پر ڈاکہ ڈالنے کی ہمت نہ جتا پائے۔ ادھر خالہ کی ’ڈیمانڈ‘ بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ شوکی بھی اب یہ کہنے لگا:”یار امی کہہ رہی تھیں کہ تم پانچ سو روپے کب دوں گے؟ کوئی حد ہے وعدہ خلافی کی۔۔“ ہم نے صبر و شکر کے ساتھ یہ بھی سوچ لیا کہ ہمارے پانچ سو روپے کی امداد واقعی ڈوب بھی گئی ہے۔۔۔
دھیرے دھیرے خالہ کے تقاضوں میں کمی آتی گئی۔ اور ہم واقعی بھول بھی گئے کہ کبھی ہم نے پانچ سو روپے کا قرض دیا تھا۔ یہاں تک کہ کئی ساون بیت گئے۔ لیکن آج بھی جب شوکی ملتا ہے تو اپنی اماں کا بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بس یہی کہتا ہے:”یار تم نے اب تک امی کے پانچ سو روپے نہیں دیے۔ اب تو تم کمانے بھی لگے ہو۔ دے دو۔ مقروض کی دعا قبول نہیں ہوتیں۔“ اور ہم مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کرصرف یہی کہتے ہیں:”نہیں نہیں بعض کی ہوجاتی ہیں۔
@suffyyan
رقیہ خالہ کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ ہمارے قریبی دوست کی اماں جان تھیں۔ اور یہی بات ہمارے لیے بدقسمتی کا باعث بنی ہوئی تھی۔
ادھار اور چلتی ہوا سے کام لینا ان سے کوئی سیکھے۔ جس گلی میں رقیہ خالہ کا گھر تھا۔وہ کئی دوستوں کے لیے ’علاقہ غیر‘ بنا رہتا۔ وجہ خالہ جی کا کام اور ادھار ہی تھا۔ دروازے پر ہمیشہ ڈیرے ڈالے رہتی تھیں اور راہ چلتے سے محلے بھر کی خبر جان کر ’اپ ٹو ڈیٹ‘ ہوتی رہتیں۔ گھر کا کام کاج کون کرتا،کس سے کراتیں۔ یہ راز کبھی نہیں کھلا۔ کیونکہ ہمارے دوست ان کی اکلوتی ’سنتان‘ تھیں۔ کچھ ’باخبر‘ لوگ کہتے تھے کہ ’انکل جی یعنی انکل شرافت ‘ ہی وہ ’فرشتے‘ تھے جو چپ چاپ گھریلو ذمے داریاں نبھاتے تھے۔ سرکاری محکمے میں ملازم تھے اور دوپہر میں کھانا کھانے یا بنانے کے بہانے گھر آتے تو اس کے بعد اگلے ہی دن ناشتہ کرکے دفتر کا رخ کرتے۔ شوکی یعنی ہمارے دوست کی جب کوئی کلاس لیتا تو ان کے ابا جی کی اسی امور خانہ داری کو موضوع بنایا جاتا۔ وہ بے چارہ جھینپ کر ناکام سیاست دان کی طرح کمزور بیان دے کر جان چھڑانے کی ناکام کوشش کرتا لیکن جناب کیا کریں بھلا حقیقت کہاں چپ سکتیں بوکمزور بیانات سے خالہ رقیہ کا شوہر پر اتنا ’ہولڈ‘ تھا جیسے ہماری تبدیلی سرکار کا اپنا وزیروں پر ۔ مرضی کے بغیر بے چارے جس طرح وہ ایک بھی کام نہیں کرسکتے اسی طرح انکل شرافت بھی۔ما ں باپ نے نام شرافت غالباً یہ سوچ کر رکھا ہوگا کہ بچہ شریف نکلے گا، فرماں بردار ہوگا لیکن انہیں کیا پتا تھی یہ ساری شرافت صرف اور صرف رقیہ خالہ کے ہی کام آئے گی۔ خالہ جی کے کام اور ادھار کے خوف سے اکثر دوست ان کے در پر جانا ہی چھوڑ گئے تھے۔ ہم نے شوکی سے ’سیٹنگ‘ کی اور اسے بلانے کے لیے گلی کا کھمبا بجانا شروع کردیا۔ لیکن نجانے کون کم بخت مخبر تھا جس نے یہ ’خبری‘ خالہ تک پہنچا دی۔ ادھر ہم کھمبا بجائیں ادھر جھٹک سے لپک کر آجاتیں۔ اور دور سے ہی آواز لگاتیں:”ارے صوفی بیٹا۔ذرا جلدی سے سلیم کی دکان سے چینی لادو۔ تمہارے انکل آفس جانے کے لیے بیٹھے ہیں۔“ رقم کا تقاضہ ہم اس لیے نہیں کرتے کیونکہ ہمیں پتا تھا ان کے پاس رٹارٹایاایک ہی جواب ہوگا:”ارے بیٹا تم لے آؤ۔ شوکی دے دے گا۔۔“ اور شوکی سے مانگا جاتا تو وہ بھی اماں کی طرح جواب دیتے ہوئے کہتا کہ کس نے کہا تھا پیسے دو، مجھ سے پوچھ کر دیے تھے؟
محلے کا کون سا ایسا دکاندار نہ ہوگا جس کے ’ادھار کی قینچی‘ کو خالہ نے زنگ نہ لگنے دیا ہو۔ دکانداروں کے ادھار کے سارے ’انقلابی نعرے‘ خالہ کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ دکانداروں نے خالہ کے خلاف ’ادھار اگلے چوک‘ کی مہم چلائی لیکن کیا کہنے خالہ کے۔ جن کی چکنی چپڑی باتوں میں ایسے آئے کہ ’کشمیر کی آزادی سے پہلے ادھار نہ دینے‘ کے ایجنڈے سے دست بردار ہوہی گئے
خالہ رقیہ اور ہمارا ٹاکرا اکثر و بیشتر تو ہوتا ہی رہتا تھا۔ یہ زیادہ تر کام یا پھر ادھار کے لیے ہوتا۔ایک روز ہماری بیٹھک جاری تھی۔شوکی کے گھر، اچانک ہی خالہ آندھی طوفان کی طرح آئیں۔ ہاتھ میں چائے کی پیالی تھی۔ جو ہماری طرف بڑھائی گئی۔ اس ’غیر متوقع مہمان نوازی‘ نے ہمارے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کردیں۔شوکی غالباً اماں کے مستقبل کے ارادوں کوبھانپ گیا تھا جبھی نو دو گیارہ ہوگیا۔ خالہ پاس کرسی پر بیٹھیں اور ہم تصور میں اپنے آپ کو ’قربانی کا بکرا‘ سمجھنے لگے ۔ ہمارے خیالوں کا یہ تسلسل خالہ کی آواز سے ٹوٹا:
”وہ صوفی بیٹا۔ تم سے ایک کام تھا۔۔“ ”جی جی۔۔ بولیے۔ “ ڈرتے ڈرتے ہم نے صرف اتنا ہی کہا۔
”وہ تمہارے انکل کو ایک کے پیسے دینے ہیں۔ ہو سکے تو ہزار روپے قرضا مل سکتا ہے۔ ان کی تن خواہ پر تم کو دے دوں گی۔“ خالہ آگئیں
اصل مدعے پر۔
”وہ خالہ ہمارے پاس اتنی بڑی رقم کہاں۔“ واقعی یہ اتنی بڑی رقم تھی کیونکہ اس زمانے میں ہم پڑھ ہی تو رہے تھے۔
”پھر کتنے ہیں تمہارے پاس؟“ خالہ ’بار گینی نگ‘ پر اتر آئیں۔
”وہ پانچ سو ہوں گے اس وقت تو۔“ ہم نے بمشکل ہی کہا اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے یہ اکلوتا نوٹ ان کی طرف بڑھا دیا جو ابا نے ہماری جیب خرچی دی تھی۔
خالہ نے ہاتھ آئی یہ ’غیر ملکی امداد‘ دبوچتے ہوئے اگلا بیان داغا ”باقی پانچ سو کب دوں گے؟“
”میں کوشش کروں گا کہ انتظام کر دوں۔۔“ ہمیں اماں کے بٹوے کا خیال آیا۔ جو میز پر ہوتا ہے اور بہت دنوں سے ہمیں منہ چڑا رہا تھا۔
”جلدی کر دینا بیٹا۔“ خالہ نے التجائی انداز میں فرمائش کی۔۔۔
”جی جی میں کوشش کروں گا۔“ ہم نے چائے کے کپ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تبھی خالہ بولیں:”ہاں جلدی۔ ارے لاؤ پیالی میں چینی ڈالنا تو بھول ہی گئی تھی جلدی جلدی میں۔“ یہ کہہ کر رقیہ خالہ پیالی لے کر ایسی گئیں کہ ہم گھنٹوں بیٹھے رہے لیکن پھر دیدار نہ ہوا اس ’عظیم اور نادر کپ‘ کا۔۔ یعنی ہاتھ کو بھی آیا نہ منہ کو لگا
خالہ سے قرض کا ’عہد وفا‘ تو کرلیا ہم نے لیکن یہی ہم پر بھاری پڑگیا۔ جب کھمبا بجاتے خالہ کا دیدار ہوتا جو گیٹ سے ہی چیخ کر پوچھتیں ”ارے بھئی وہ پانچ سو روپے کب دوں گے؟“
آس پاس کے لوگ ہم کو خود ’مقروض‘ سمجھتے اور ہم سر جھکا کر چپ ہی ہوکر عافیت جانتے۔ یہاں تک کہ شوکی سے ملنے کبھی غلطی سے اس کے در پر آجاتے تو خالہ کا تقاضہ یہ ہوتا کہ تم نے وعدہ کیا تھا پانچ سو روپے کا۔ لیکن ابھی تک نہیں دیے۔ کب دو گے کوئی نہ کوئی تاریخ تو بتاؤ۔‘ ایسا لگتا کہ ہم نے ان سے قرض لیا تھا اور اسے ادا کرنے سے قاصر رہے۔ خالہ کا دباؤ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ آتے جاتے کبھی کرکٹ کھیلتے ہوئے ان سے ٹکراؤ ہوجاتا تو وہ دوستوں کے سامنے رسوا کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ یار دوست کی نگاہیں ہماری طرف ہوتیں جو بعد میں یہی کہتے کہ کتنی غلط بات ہے ایک تو قرض لیتے ہو اور وہ دیتے بھی نہیں۔ اب ہم لاکھ پورا واقعہ بیان کرتے بھلا نقار خانے میں ’صوفی‘ کی کون سنتا ہے جناب۔ دس بار سوچا کہ خالہ کا منہ بند کردیں لیکن اماں کے بٹوے پر ڈاکہ ڈالنے کی ہمت نہ جتا پائے۔ ادھر خالہ کی ’ڈیمانڈ‘ بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ شوکی بھی اب یہ کہنے لگا:”یار امی کہہ رہی تھیں کہ تم پانچ سو روپے کب دوں گے؟ کوئی حد ہے وعدہ خلافی کی۔۔“ ہم نے صبر و شکر کے ساتھ یہ بھی سوچ لیا کہ ہمارے پانچ سو روپے کی امداد واقعی ڈوب بھی گئی ہے۔۔۔
دھیرے دھیرے خالہ کے تقاضوں میں کمی آتی گئی۔ اور ہم واقعی بھول بھی گئے کہ کبھی ہم نے پانچ سو روپے کا قرض دیا تھا۔ یہاں تک کہ کئی ساون بیت گئے۔ لیکن آج بھی جب شوکی ملتا ہے تو اپنی اماں کا بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بس یہی کہتا ہے:”یار تم نے اب تک امی کے پانچ سو روپے نہیں دیے۔ اب تو تم کمانے بھی لگے ہو۔ دے دو۔ مقروض کی دعا قبول نہیں ہوتیں۔“ اور ہم مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کرصرف یہی کہتے ہیں:”نہیں نہیں بعض کی ہوجاتی ہیں۔
@suffyyan