Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
باوجود اس کے کہ کرونا وائرس اپنی تمام ہلاکتوں کے ساتھ موجود ہے لیکن حکومت سندھ مویشی منڈی نہیں بند کراسکی، ویسے تو وطن عزیز میں ہر چیز ” لمبر ون” ہوتی ہے اسی طرح کراچی میں لگائی جانے والی مویشی منڈی بھی ” لمبر ون ” مویشی منڈی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ لگائی بھی “لمبر ون” والوں نے ہے اور اس منڈی کی ساری آمدنی بھی” لمبرون” کے پاس جاتی ہے تو کراچی واسیو! تمہارے مرنے جینے سے تو ویسے بھی کسی کو دلچسپی نہیں ہے اس لئے کرونا وائرس 19 پھیلے یا کرونا وائرس 18 کے جس کےآنے سے پاکستانی معیشت8۔5 گروتھ سے گرکر منفی 5- تک پہنچادی گئی ہے لیکن آج کوئی ” لمبر ون ” یہ نہیں کہتا کہ معیشت کی حالت خراب ہے جیسے کہ پچھلی منتخب حکومت میں کہا جاتا تھا ۔ویسے توکسی کو اس کراچی سےکوئی دلچسپی نہی ہے باوجود اس کے کہ یہ شہر مر رہا ہے آج بھی دولت سب سے زیادہ یہیں ہے اس لئے جتنا اس کو لوٹ سکتے ہو لوٹ لو، کراچی والوں تم مرو یا جیو مویشی منڈی تو لگے گی۔ اور اب تو عجیب نظارہ ہے ہر چوراہے پر بکرے بک رہے ہیں اور لاہورئیے حیرت سے تک رہے ہیں ۔
کل شام آفس سے واپس پر سارا راستہ ٹریفک جام ملا گوکہ ٹریفک پولیس کے سپاہی پوری ہمت کے ساتھ اسے کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کررہے تھے لیکن نیکی و تقویٰ کے جذبے سے سرشار مسلمانوں نے ہر سڑک کے کنارے بکرے خریدنے کے لئے گاڑیاں کھڑی کی ہوئی تھیں حسن اسکوائر سے لیکر 10 نمبر لیاقت آباد تک اڑدھام کا وہ عالم تھا کہ اللہ دے اور بندہ لے، سڑک پر رکاوٹیں لگا کر بکرے فروخت کئے جارہے تھے۔ جملہ مومنین قربانی کے لئے مول تول کررہے تھے اور اب کل سڑکوں کے کنارے پارکوں اور میدانوں میں سنت ابراہیمی کا فریضہ ادا کیا جائے گا گوشت اپنے گھروں کے ڈیپ فریزر میں جمع کردیا جائے گا ہڈیاں اور چھچھڑے غریب رشتہ داروں کو مل جائیں گے اور عید الاضحیٰ کی شام سے تکہ پارٹیوں کا آغاز ہوجائے گا۔ قربانی جو نیکی تقوی اور اللہ کی راہ میں دینے کی عبادت ہے صرف ایک دکھاوا یا فوڈ فیسٹیول بن کر رھگیا ہے، لاتعداد فلاحی تنظیمیں، مساجد، امام بارگاہیں اجتماعی قربانی کرتی ہیں اور کھالیں جمع ہوتی ہیں کیا وہ اپنے اپنے حامیوں اور کارکنان کے ذریعے ان آلائشوں اور خون کی صفائی کا بھی انتظام کرتی ہیں یا صفائی کو نصف ایمان کہنے والے یہ ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں ۔
بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ جانوروں کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لیکن دولت کی فراوانی کے مظاہرے گلی گلی نظر آتے ہیں، جہاں چند نو دولتئے سرمایہ دار اپنی دولت کی نمائش ان قربانی کے جانوروں کے نام پر کرتے ہیں اور نچلے متوسط طبقہ کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی جائز یا ناجائز طریقہ سے دولت حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اپنے بچوں کے سامنے سرخرو ہوسکے، دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں میں کیا عید الاضحی میں اسی گندگی، دولت کی بیجا نمائش اور جانوروں کی اس دوڑ کا یہی نظارہ ہوتا ہے جو ہمارے یہاں پایا جاتا ہے یا اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی یہ قوم گندگی اور طوفان بدتمیزی میں بھی ” لمبر ون ” ہے۔
باوجود اس کے کہ کرونا وائرس اپنی تمام ہلاکتوں کے ساتھ موجود ہے لیکن حکومت سندھ مویشی منڈی نہیں بند کراسکی، ویسے تو وطن عزیز میں ہر چیز ” لمبر ون” ہوتی ہے اسی طرح کراچی میں لگائی جانے والی مویشی منڈی بھی ” لمبر ون ” مویشی منڈی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ لگائی بھی “لمبر ون” والوں نے ہے اور اس منڈی کی ساری آمدنی بھی” لمبرون” کے پاس جاتی ہے تو کراچی واسیو! تمہارے مرنے جینے سے تو ویسے بھی کسی کو دلچسپی نہیں ہے اس لئے کرونا وائرس 19 پھیلے یا کرونا وائرس 18 کے جس کےآنے سے پاکستانی معیشت8۔5 گروتھ سے گرکر منفی 5- تک پہنچادی گئی ہے لیکن آج کوئی ” لمبر ون ” یہ نہیں کہتا کہ معیشت کی حالت خراب ہے جیسے کہ پچھلی منتخب حکومت میں کہا جاتا تھا ۔ویسے توکسی کو اس کراچی سےکوئی دلچسپی نہی ہے باوجود اس کے کہ یہ شہر مر رہا ہے آج بھی دولت سب سے زیادہ یہیں ہے اس لئے جتنا اس کو لوٹ سکتے ہو لوٹ لو، کراچی والوں تم مرو یا جیو مویشی منڈی تو لگے گی۔ اور اب تو عجیب نظارہ ہے ہر چوراہے پر بکرے بک رہے ہیں اور لاہورئیے حیرت سے تک رہے ہیں ۔
کل شام آفس سے واپس پر سارا راستہ ٹریفک جام ملا گوکہ ٹریفک پولیس کے سپاہی پوری ہمت کے ساتھ اسے کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کررہے تھے لیکن نیکی و تقویٰ کے جذبے سے سرشار مسلمانوں نے ہر سڑک کے کنارے بکرے خریدنے کے لئے گاڑیاں کھڑی کی ہوئی تھیں حسن اسکوائر سے لیکر 10 نمبر لیاقت آباد تک اڑدھام کا وہ عالم تھا کہ اللہ دے اور بندہ لے، سڑک پر رکاوٹیں لگا کر بکرے فروخت کئے جارہے تھے۔ جملہ مومنین قربانی کے لئے مول تول کررہے تھے اور اب کل سڑکوں کے کنارے پارکوں اور میدانوں میں سنت ابراہیمی کا فریضہ ادا کیا جائے گا گوشت اپنے گھروں کے ڈیپ فریزر میں جمع کردیا جائے گا ہڈیاں اور چھچھڑے غریب رشتہ داروں کو مل جائیں گے اور عید الاضحیٰ کی شام سے تکہ پارٹیوں کا آغاز ہوجائے گا۔ قربانی جو نیکی تقوی اور اللہ کی راہ میں دینے کی عبادت ہے صرف ایک دکھاوا یا فوڈ فیسٹیول بن کر رھگیا ہے، لاتعداد فلاحی تنظیمیں، مساجد، امام بارگاہیں اجتماعی قربانی کرتی ہیں اور کھالیں جمع ہوتی ہیں کیا وہ اپنے اپنے حامیوں اور کارکنان کے ذریعے ان آلائشوں اور خون کی صفائی کا بھی انتظام کرتی ہیں یا صفائی کو نصف ایمان کہنے والے یہ ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں ۔
بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ جانوروں کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لیکن دولت کی فراوانی کے مظاہرے گلی گلی نظر آتے ہیں، جہاں چند نو دولتئے سرمایہ دار اپنی دولت کی نمائش ان قربانی کے جانوروں کے نام پر کرتے ہیں اور نچلے متوسط طبقہ کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی جائز یا ناجائز طریقہ سے دولت حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اپنے بچوں کے سامنے سرخرو ہوسکے، دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں میں کیا عید الاضحی میں اسی گندگی، دولت کی بیجا نمائش اور جانوروں کی اس دوڑ کا یہی نظارہ ہوتا ہے جو ہمارے یہاں پایا جاتا ہے یا اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی یہ قوم گندگی اور طوفان بدتمیزی میں بھی ” لمبر ون ” ہے۔
باوجود اس کے کہ کرونا وائرس اپنی تمام ہلاکتوں کے ساتھ موجود ہے لیکن حکومت سندھ مویشی منڈی نہیں بند کراسکی، ویسے تو وطن عزیز میں ہر چیز ” لمبر ون” ہوتی ہے اسی طرح کراچی میں لگائی جانے والی مویشی منڈی بھی ” لمبر ون ” مویشی منڈی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ لگائی بھی “لمبر ون” والوں نے ہے اور اس منڈی کی ساری آمدنی بھی” لمبرون” کے پاس جاتی ہے تو کراچی واسیو! تمہارے مرنے جینے سے تو ویسے بھی کسی کو دلچسپی نہیں ہے اس لئے کرونا وائرس 19 پھیلے یا کرونا وائرس 18 کے جس کےآنے سے پاکستانی معیشت8۔5 گروتھ سے گرکر منفی 5- تک پہنچادی گئی ہے لیکن آج کوئی ” لمبر ون ” یہ نہیں کہتا کہ معیشت کی حالت خراب ہے جیسے کہ پچھلی منتخب حکومت میں کہا جاتا تھا ۔ویسے توکسی کو اس کراچی سےکوئی دلچسپی نہی ہے باوجود اس کے کہ یہ شہر مر رہا ہے آج بھی دولت سب سے زیادہ یہیں ہے اس لئے جتنا اس کو لوٹ سکتے ہو لوٹ لو، کراچی والوں تم مرو یا جیو مویشی منڈی تو لگے گی۔ اور اب تو عجیب نظارہ ہے ہر چوراہے پر بکرے بک رہے ہیں اور لاہورئیے حیرت سے تک رہے ہیں ۔
کل شام آفس سے واپس پر سارا راستہ ٹریفک جام ملا گوکہ ٹریفک پولیس کے سپاہی پوری ہمت کے ساتھ اسے کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کررہے تھے لیکن نیکی و تقویٰ کے جذبے سے سرشار مسلمانوں نے ہر سڑک کے کنارے بکرے خریدنے کے لئے گاڑیاں کھڑی کی ہوئی تھیں حسن اسکوائر سے لیکر 10 نمبر لیاقت آباد تک اڑدھام کا وہ عالم تھا کہ اللہ دے اور بندہ لے، سڑک پر رکاوٹیں لگا کر بکرے فروخت کئے جارہے تھے۔ جملہ مومنین قربانی کے لئے مول تول کررہے تھے اور اب کل سڑکوں کے کنارے پارکوں اور میدانوں میں سنت ابراہیمی کا فریضہ ادا کیا جائے گا گوشت اپنے گھروں کے ڈیپ فریزر میں جمع کردیا جائے گا ہڈیاں اور چھچھڑے غریب رشتہ داروں کو مل جائیں گے اور عید الاضحیٰ کی شام سے تکہ پارٹیوں کا آغاز ہوجائے گا۔ قربانی جو نیکی تقوی اور اللہ کی راہ میں دینے کی عبادت ہے صرف ایک دکھاوا یا فوڈ فیسٹیول بن کر رھگیا ہے، لاتعداد فلاحی تنظیمیں، مساجد، امام بارگاہیں اجتماعی قربانی کرتی ہیں اور کھالیں جمع ہوتی ہیں کیا وہ اپنے اپنے حامیوں اور کارکنان کے ذریعے ان آلائشوں اور خون کی صفائی کا بھی انتظام کرتی ہیں یا صفائی کو نصف ایمان کہنے والے یہ ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں ۔
بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ جانوروں کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لیکن دولت کی فراوانی کے مظاہرے گلی گلی نظر آتے ہیں، جہاں چند نو دولتئے سرمایہ دار اپنی دولت کی نمائش ان قربانی کے جانوروں کے نام پر کرتے ہیں اور نچلے متوسط طبقہ کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی جائز یا ناجائز طریقہ سے دولت حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اپنے بچوں کے سامنے سرخرو ہوسکے، دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں میں کیا عید الاضحی میں اسی گندگی، دولت کی بیجا نمائش اور جانوروں کی اس دوڑ کا یہی نظارہ ہوتا ہے جو ہمارے یہاں پایا جاتا ہے یا اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی یہ قوم گندگی اور طوفان بدتمیزی میں بھی ” لمبر ون ” ہے۔
باوجود اس کے کہ کرونا وائرس اپنی تمام ہلاکتوں کے ساتھ موجود ہے لیکن حکومت سندھ مویشی منڈی نہیں بند کراسکی، ویسے تو وطن عزیز میں ہر چیز ” لمبر ون” ہوتی ہے اسی طرح کراچی میں لگائی جانے والی مویشی منڈی بھی ” لمبر ون ” مویشی منڈی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ لگائی بھی “لمبر ون” والوں نے ہے اور اس منڈی کی ساری آمدنی بھی” لمبرون” کے پاس جاتی ہے تو کراچی واسیو! تمہارے مرنے جینے سے تو ویسے بھی کسی کو دلچسپی نہیں ہے اس لئے کرونا وائرس 19 پھیلے یا کرونا وائرس 18 کے جس کےآنے سے پاکستانی معیشت8۔5 گروتھ سے گرکر منفی 5- تک پہنچادی گئی ہے لیکن آج کوئی ” لمبر ون ” یہ نہیں کہتا کہ معیشت کی حالت خراب ہے جیسے کہ پچھلی منتخب حکومت میں کہا جاتا تھا ۔ویسے توکسی کو اس کراچی سےکوئی دلچسپی نہی ہے باوجود اس کے کہ یہ شہر مر رہا ہے آج بھی دولت سب سے زیادہ یہیں ہے اس لئے جتنا اس کو لوٹ سکتے ہو لوٹ لو، کراچی والوں تم مرو یا جیو مویشی منڈی تو لگے گی۔ اور اب تو عجیب نظارہ ہے ہر چوراہے پر بکرے بک رہے ہیں اور لاہورئیے حیرت سے تک رہے ہیں ۔
کل شام آفس سے واپس پر سارا راستہ ٹریفک جام ملا گوکہ ٹریفک پولیس کے سپاہی پوری ہمت کے ساتھ اسے کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کررہے تھے لیکن نیکی و تقویٰ کے جذبے سے سرشار مسلمانوں نے ہر سڑک کے کنارے بکرے خریدنے کے لئے گاڑیاں کھڑی کی ہوئی تھیں حسن اسکوائر سے لیکر 10 نمبر لیاقت آباد تک اڑدھام کا وہ عالم تھا کہ اللہ دے اور بندہ لے، سڑک پر رکاوٹیں لگا کر بکرے فروخت کئے جارہے تھے۔ جملہ مومنین قربانی کے لئے مول تول کررہے تھے اور اب کل سڑکوں کے کنارے پارکوں اور میدانوں میں سنت ابراہیمی کا فریضہ ادا کیا جائے گا گوشت اپنے گھروں کے ڈیپ فریزر میں جمع کردیا جائے گا ہڈیاں اور چھچھڑے غریب رشتہ داروں کو مل جائیں گے اور عید الاضحیٰ کی شام سے تکہ پارٹیوں کا آغاز ہوجائے گا۔ قربانی جو نیکی تقوی اور اللہ کی راہ میں دینے کی عبادت ہے صرف ایک دکھاوا یا فوڈ فیسٹیول بن کر رھگیا ہے، لاتعداد فلاحی تنظیمیں، مساجد، امام بارگاہیں اجتماعی قربانی کرتی ہیں اور کھالیں جمع ہوتی ہیں کیا وہ اپنے اپنے حامیوں اور کارکنان کے ذریعے ان آلائشوں اور خون کی صفائی کا بھی انتظام کرتی ہیں یا صفائی کو نصف ایمان کہنے والے یہ ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں ۔
بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ جانوروں کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لیکن دولت کی فراوانی کے مظاہرے گلی گلی نظر آتے ہیں، جہاں چند نو دولتئے سرمایہ دار اپنی دولت کی نمائش ان قربانی کے جانوروں کے نام پر کرتے ہیں اور نچلے متوسط طبقہ کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی جائز یا ناجائز طریقہ سے دولت حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اپنے بچوں کے سامنے سرخرو ہوسکے، دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں میں کیا عید الاضحی میں اسی گندگی، دولت کی بیجا نمائش اور جانوروں کی اس دوڑ کا یہی نظارہ ہوتا ہے جو ہمارے یہاں پایا جاتا ہے یا اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی یہ قوم گندگی اور طوفان بدتمیزی میں بھی ” لمبر ون ” ہے۔