Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج جب کہ پشاور سیشن کورٹ میں زیر حراست قادیانی کو ایک مسلم نوجوان نے گولی مار کر ہلاک کردیا ھے تو ملک بھر میں اس قتل کے جواز اور عدم جواز کی بحث چل نکلی ھے۔ اس موقع پر بہت سے سوالات ذہن میں آتے ھیں۔ پہلا تو یہ کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کے دعویٰ کیساتھ 1889ء میں جماعت احمدیہ قائم کی اور ہندوستان بھر میں عمومی طور پر لیکن پنجاب۔ یوپی اور سندھ میں خاص طور پر تقریباً بیس بائیس سالہ تبلیغ کے بعد چار لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قادیانی بنا کر 1908ء میں وفات پائی تو اکابرین اہل اسلام حضرات علامہ محمد اقبال۔ مولانا ابوالکلام آزاد۔ علی برادران۔ پیر مہر علی شاہ۔ مولانا حسین احمد مدنی۔ مولانا قاسم نانوتوی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی و سیکڑوں دیگر علماء و صوفیان عظام ہندوستان میں موجود تھے۔ یہ سب مرزا غلام احمد سے علمی مناظرے و مباحثے تو کرتے رہے۔ کسی نے بھی آگے بڑھ کر اس کو قتل کیوں نہیں کیا؟
دوسرا سوال یہ ھے کہ مرزا غلام احمد کے بعد متحدہ ہندوستان میں اور پھر لا الہ الا للہ والے پاکستان میں حکیم نورالدین۔ مرزا مسرور احمد۔ مرزا بشیرالدین۔ مرزا طاہر احمد۔ اور کئی دوسرے (لعنتی) خلفاء و ذمہ داران جماعت احمدیہ نے علی الاعلان اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیاں جاری رکھیں تو بھی کسی عالم دین۔ کسی مفتی۔ کسی پیر یا شیخ نے ان خلفاء احمدیہ کو نہ تو قتل کیا اور نہ ہی کسی کو خواب میں نبی مکرم حضرت محمدﷺ نے ایسے قتل کا حکم دیا۔
تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ھے کہ جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں 1974ء میں فتنہ قادیانیت زیر بحث آیا اور جماعت احمدیہ کا سربراہ مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں کئی روز تک اپنے مذہب کا دفاع کرتا رہا تو ملک میں سید ابوالاعلی مودودی۔ مولانا شاہ احمد نورانی۔ مولانا مفتی محمود۔مولانا عبدالستار نیازی اور بیسیؤں دیگر علماء و پیران عظام موجود تھے۔ کسی نے بھی نہ تو خود آگے بڑھ کر اسے قتل کیا اور نہ ہی اسکے قتل کا کوئی فتویٰ جاری کیا۔
سوال تو یہ بھی ذہن میں ابھرتا ھے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے “مسلہ قادیانیت” نامی کتاب لکھنے پر خود فوجی عدالت سے سزائے موت قبول کر لی ( جسے بعد میں رحم کی اپیل نہ کرنے اور عالمی مسلم راہنماؤں کے دباؤ پر منسوخ کرنا پڑا) لیکن نہ خود کسی قادیانی کو قتل کیا اور نہ قتل کا فتوی ہی جاری کیا۔ پھر آج اس پر اتنا غلغلہ کیوں ؟
آج جب کہ پشاور سیشن کورٹ میں زیر حراست قادیانی کو ایک مسلم نوجوان نے گولی مار کر ہلاک کردیا ھے تو ملک بھر میں اس قتل کے جواز اور عدم جواز کی بحث چل نکلی ھے۔ اس موقع پر بہت سے سوالات ذہن میں آتے ھیں۔ پہلا تو یہ کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کے دعویٰ کیساتھ 1889ء میں جماعت احمدیہ قائم کی اور ہندوستان بھر میں عمومی طور پر لیکن پنجاب۔ یوپی اور سندھ میں خاص طور پر تقریباً بیس بائیس سالہ تبلیغ کے بعد چار لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قادیانی بنا کر 1908ء میں وفات پائی تو اکابرین اہل اسلام حضرات علامہ محمد اقبال۔ مولانا ابوالکلام آزاد۔ علی برادران۔ پیر مہر علی شاہ۔ مولانا حسین احمد مدنی۔ مولانا قاسم نانوتوی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی و سیکڑوں دیگر علماء و صوفیان عظام ہندوستان میں موجود تھے۔ یہ سب مرزا غلام احمد سے علمی مناظرے و مباحثے تو کرتے رہے۔ کسی نے بھی آگے بڑھ کر اس کو قتل کیوں نہیں کیا؟
دوسرا سوال یہ ھے کہ مرزا غلام احمد کے بعد متحدہ ہندوستان میں اور پھر لا الہ الا للہ والے پاکستان میں حکیم نورالدین۔ مرزا مسرور احمد۔ مرزا بشیرالدین۔ مرزا طاہر احمد۔ اور کئی دوسرے (لعنتی) خلفاء و ذمہ داران جماعت احمدیہ نے علی الاعلان اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیاں جاری رکھیں تو بھی کسی عالم دین۔ کسی مفتی۔ کسی پیر یا شیخ نے ان خلفاء احمدیہ کو نہ تو قتل کیا اور نہ ہی کسی کو خواب میں نبی مکرم حضرت محمدﷺ نے ایسے قتل کا حکم دیا۔
تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ھے کہ جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں 1974ء میں فتنہ قادیانیت زیر بحث آیا اور جماعت احمدیہ کا سربراہ مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں کئی روز تک اپنے مذہب کا دفاع کرتا رہا تو ملک میں سید ابوالاعلی مودودی۔ مولانا شاہ احمد نورانی۔ مولانا مفتی محمود۔مولانا عبدالستار نیازی اور بیسیؤں دیگر علماء و پیران عظام موجود تھے۔ کسی نے بھی نہ تو خود آگے بڑھ کر اسے قتل کیا اور نہ ہی اسکے قتل کا کوئی فتویٰ جاری کیا۔
سوال تو یہ بھی ذہن میں ابھرتا ھے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے “مسلہ قادیانیت” نامی کتاب لکھنے پر خود فوجی عدالت سے سزائے موت قبول کر لی ( جسے بعد میں رحم کی اپیل نہ کرنے اور عالمی مسلم راہنماؤں کے دباؤ پر منسوخ کرنا پڑا) لیکن نہ خود کسی قادیانی کو قتل کیا اور نہ قتل کا فتوی ہی جاری کیا۔ پھر آج اس پر اتنا غلغلہ کیوں ؟
آج جب کہ پشاور سیشن کورٹ میں زیر حراست قادیانی کو ایک مسلم نوجوان نے گولی مار کر ہلاک کردیا ھے تو ملک بھر میں اس قتل کے جواز اور عدم جواز کی بحث چل نکلی ھے۔ اس موقع پر بہت سے سوالات ذہن میں آتے ھیں۔ پہلا تو یہ کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کے دعویٰ کیساتھ 1889ء میں جماعت احمدیہ قائم کی اور ہندوستان بھر میں عمومی طور پر لیکن پنجاب۔ یوپی اور سندھ میں خاص طور پر تقریباً بیس بائیس سالہ تبلیغ کے بعد چار لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قادیانی بنا کر 1908ء میں وفات پائی تو اکابرین اہل اسلام حضرات علامہ محمد اقبال۔ مولانا ابوالکلام آزاد۔ علی برادران۔ پیر مہر علی شاہ۔ مولانا حسین احمد مدنی۔ مولانا قاسم نانوتوی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی و سیکڑوں دیگر علماء و صوفیان عظام ہندوستان میں موجود تھے۔ یہ سب مرزا غلام احمد سے علمی مناظرے و مباحثے تو کرتے رہے۔ کسی نے بھی آگے بڑھ کر اس کو قتل کیوں نہیں کیا؟
دوسرا سوال یہ ھے کہ مرزا غلام احمد کے بعد متحدہ ہندوستان میں اور پھر لا الہ الا للہ والے پاکستان میں حکیم نورالدین۔ مرزا مسرور احمد۔ مرزا بشیرالدین۔ مرزا طاہر احمد۔ اور کئی دوسرے (لعنتی) خلفاء و ذمہ داران جماعت احمدیہ نے علی الاعلان اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیاں جاری رکھیں تو بھی کسی عالم دین۔ کسی مفتی۔ کسی پیر یا شیخ نے ان خلفاء احمدیہ کو نہ تو قتل کیا اور نہ ہی کسی کو خواب میں نبی مکرم حضرت محمدﷺ نے ایسے قتل کا حکم دیا۔
تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ھے کہ جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں 1974ء میں فتنہ قادیانیت زیر بحث آیا اور جماعت احمدیہ کا سربراہ مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں کئی روز تک اپنے مذہب کا دفاع کرتا رہا تو ملک میں سید ابوالاعلی مودودی۔ مولانا شاہ احمد نورانی۔ مولانا مفتی محمود۔مولانا عبدالستار نیازی اور بیسیؤں دیگر علماء و پیران عظام موجود تھے۔ کسی نے بھی نہ تو خود آگے بڑھ کر اسے قتل کیا اور نہ ہی اسکے قتل کا کوئی فتویٰ جاری کیا۔
سوال تو یہ بھی ذہن میں ابھرتا ھے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے “مسلہ قادیانیت” نامی کتاب لکھنے پر خود فوجی عدالت سے سزائے موت قبول کر لی ( جسے بعد میں رحم کی اپیل نہ کرنے اور عالمی مسلم راہنماؤں کے دباؤ پر منسوخ کرنا پڑا) لیکن نہ خود کسی قادیانی کو قتل کیا اور نہ قتل کا فتوی ہی جاری کیا۔ پھر آج اس پر اتنا غلغلہ کیوں ؟
آج جب کہ پشاور سیشن کورٹ میں زیر حراست قادیانی کو ایک مسلم نوجوان نے گولی مار کر ہلاک کردیا ھے تو ملک بھر میں اس قتل کے جواز اور عدم جواز کی بحث چل نکلی ھے۔ اس موقع پر بہت سے سوالات ذہن میں آتے ھیں۔ پہلا تو یہ کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کے دعویٰ کیساتھ 1889ء میں جماعت احمدیہ قائم کی اور ہندوستان بھر میں عمومی طور پر لیکن پنجاب۔ یوپی اور سندھ میں خاص طور پر تقریباً بیس بائیس سالہ تبلیغ کے بعد چار لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قادیانی بنا کر 1908ء میں وفات پائی تو اکابرین اہل اسلام حضرات علامہ محمد اقبال۔ مولانا ابوالکلام آزاد۔ علی برادران۔ پیر مہر علی شاہ۔ مولانا حسین احمد مدنی۔ مولانا قاسم نانوتوی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی و سیکڑوں دیگر علماء و صوفیان عظام ہندوستان میں موجود تھے۔ یہ سب مرزا غلام احمد سے علمی مناظرے و مباحثے تو کرتے رہے۔ کسی نے بھی آگے بڑھ کر اس کو قتل کیوں نہیں کیا؟
دوسرا سوال یہ ھے کہ مرزا غلام احمد کے بعد متحدہ ہندوستان میں اور پھر لا الہ الا للہ والے پاکستان میں حکیم نورالدین۔ مرزا مسرور احمد۔ مرزا بشیرالدین۔ مرزا طاہر احمد۔ اور کئی دوسرے (لعنتی) خلفاء و ذمہ داران جماعت احمدیہ نے علی الاعلان اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیاں جاری رکھیں تو بھی کسی عالم دین۔ کسی مفتی۔ کسی پیر یا شیخ نے ان خلفاء احمدیہ کو نہ تو قتل کیا اور نہ ہی کسی کو خواب میں نبی مکرم حضرت محمدﷺ نے ایسے قتل کا حکم دیا۔
تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ھے کہ جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں 1974ء میں فتنہ قادیانیت زیر بحث آیا اور جماعت احمدیہ کا سربراہ مرزا ناصر احمد قومی اسمبلی میں کئی روز تک اپنے مذہب کا دفاع کرتا رہا تو ملک میں سید ابوالاعلی مودودی۔ مولانا شاہ احمد نورانی۔ مولانا مفتی محمود۔مولانا عبدالستار نیازی اور بیسیؤں دیگر علماء و پیران عظام موجود تھے۔ کسی نے بھی نہ تو خود آگے بڑھ کر اسے قتل کیا اور نہ ہی اسکے قتل کا کوئی فتویٰ جاری کیا۔
سوال تو یہ بھی ذہن میں ابھرتا ھے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے “مسلہ قادیانیت” نامی کتاب لکھنے پر خود فوجی عدالت سے سزائے موت قبول کر لی ( جسے بعد میں رحم کی اپیل نہ کرنے اور عالمی مسلم راہنماؤں کے دباؤ پر منسوخ کرنا پڑا) لیکن نہ خود کسی قادیانی کو قتل کیا اور نہ قتل کا فتوی ہی جاری کیا۔ پھر آج اس پر اتنا غلغلہ کیوں ؟