لالہ جی سراج الحق صاحب تسی تے چھاگئے ہو، ہر طرف آپ ہی دکھائی دیتے ہو، ہر جگہ آپ ہی نظر آرہے ہو، جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں ہیں۔ لالہ جی میری پنجابی بہت خراب ہے ویسی ہی جیسی آپ کی اردو خراب ہے جیسی آپ اردو بولتے ہو ویسی ہی میں پنجابی بولتا ہوں۔ لیکن لالہ سراج الحق آپ نے اور آپ کی پارٹی نے کمال کردیا ہے وہ پنجابی وچ کہندے نیں ” وخت پادیتا ہے ” لالہ جی آپ ہو کیا آدمی، ہلکے سے رنگوں کے سستے سے کپڑے کے شلوار قمیض میں ملبوس رہتے ہو اوپر سے کم قیمت کوٹ یا واسکٹ اور اس پر بنوں شہر کے اسٹائل کی ترچھی ٹوپی آپ کا ٹریڈ مارک بن گیا ہے۔ یہ پاکستانی سیاست کے جہاں آج بھی سیاست دان عالمی شہرت یافتہ بڑی بڑی برانڈڈ چینز کے کپڑے پہنتے ہیں اور عوام کے خرچے پر پہنتے ہیں ان کے درمیان آپ نچلے متوسط طبقے کے کپڑوں کے ساتھ کیسے چل جاتے ہو؟ کبھی دل نہیں چاہتا کہ ان سیاستدانوں جیسے کپڑے پہنو، ان کے کوٹھیوں جیسے گھر میں رہو، دو مرتبہ تو آپ بھی خیبر پختون خواہ کے وزیر خزانہ رہے ہو پیسے کمانے کے، مال بنانے کے مواقع تو بہت ملے ہونگ،ے کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچا کہ بچوں کے لئے ڈیفنس میں، کوئی بحریہ ٹاؤن میں یا کہیں اور کوئی بنگلہ ہی بنالو، کوئی کوٹھی کھڑی کرلو۔
لالہ جی! ویسے تم ہو کمال لوگ، کیا ایسے بھی انسان ہوتے ہیں، اس وطن عزیز میں، یہ ملک کہ جس کو ہر طبقہ لوٹ رہا ہے، جس کو جہاں موقع مل ریا ہے وہ اس ملک کو لوٹ ریا ہے اس میں ہر آدمی شامل ہے امیر ،غریب سیاستدان، نوکر شاہی کی تخصیص نہی، بس موقع ملنے کی دیر ہے۔ اس میں تم اور تمہاری پارٹی کیسے پارسا رہ گئی۔اس ملک میں تم اور تمہاری پارٹی جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں، ایک یہاں کراچی میں ہے کبھی KE کے ساتھ متھا ٹکرارہا ہے، کبھی واٹر بورڈ کے سامنے بیٹھا ہے، اور تو اور بحریہ ٹاؤن والے “مہادیالو”
ملک ریاض سے ٹکراگیا، جس کی تجوری سب کو خریدنے کے لئے کھلی رہتی ہے، اسی ملک ریاض سے کہ جس کے آفس میں بڑے بڑے طرم خان ریٹائرڈ ہوکر نوکری کرتے ہیں سنا ہے کہ 3 ستاروں اور 4 ستاروں والے بھی وہاں پائے جاتے ہیں اور چائے پیش کرتے ہیں ۔ باقیوں، چھٹ بھیوں، ایروں غیروں کا کیا پوچھنا کہ ملک ریاض بھائی کے کمپیوٹر میں سب محفوظ ہے کہ کس صحافی کو، کس سیاستدان کو کس وقت کیا ادائیگی کی اور کون سے سیکٹر میں کس کو محل بناکردیا۔
اچھا لالہ سراج الحق! آپ تو اس پارٹی کے پاکستان کے امیر ہو اور یہ آپ کا کراچی والا امیر کہ جس کا نام حافظ نعیم الرحمن ہے، کہ جو شکل صورت عادت اطوار سے بھی کراچی والا لگتا ہے اس کے نام کے ساتھ حافظ بھی ہے اور یہ NED کا انجینئر بھی ہے لیکن سنا ہے کہ رہتے یہ بھی کرائے کے مکان میں ہیں۔ ارے بھائی! ملک ریاض صاحب تو لوگوں کو خریدنے کا فن جانتے ہیں وہ تو بڑوں بڑوں کو خرید لیتے ہیں ملک ریاض بھائی کے پاس تو ہر ایک کی قیمت ہے،وہ تو ہر فائل کے ساتھ دولت کا ڈھیر لگا دیتے ہیں، وہ اس غریب کرائے کے مکان میں رہنے والے حافظ انجینئر نعیم الرحمن کو نہیں خرید سکے ان کی قارون کی دولت یہاں ختم ہوگئی وہ حافظ نعیم الرحمن کے قد کے برابر دولت نہیں لاسکے اور وہ لا بھی نہی سکتے تھے، یہ جماعت اسلامی ہے، یہ جماعت اسلامی کے لوگ ہیں ان کو خریدنے والی دولت اس ملک میں بنی ہی نہیں ہے ابھی وہ کرنسی اسٹیٹ بینک میں پرنٹ ہی نہیں ہوتی جو جماعت اسلامی والوں کو خرید سکے ۔
لالہ جی ، سراج الحق اپنا کام کرتے رہو، یہ کام کوئی نہی کرسکتا اس وقت کہ سارا پاکستان مشکلات کا شکار ہے ایسے میں کہ جب عوامی رہنمائوں نے اپنے آپ کو دیواروں کے پیچھے چھبالیا ہے، جب کوئی بھی اس ملک کے غریبوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا نہی ہے، اس وقت کہ جب لوگوں کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہورہا ہے۔
ایسے میں لالہ سراج الحق صرف آپ اور آپ کی پارٹی جماعت اسلامی ہے کہ جو لوگوں کے دکھ کو سمجھ رہی ہے میں آپ کے اس بیان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ اس وقت سیاست کو ” قرنطینہ ” میں رکھ دینا چاہئے اور جماعت اسلامی والوں نے سیاست کو قرنطینہ میں رکھ کر صرف خدمت کی مثال پیش کی ہے، صوبہ سندھ کراچی سے لیکر چترال صوبہ خیبر پختونخواہ، کوئٹہ بلوچستان سے لیکر لاہور پنجاب تک صرف سراج الحق اور اس کی جماعت اسلامی نظر آتی ہے، بغیر کسی لالچ کے صرف آپ ہی یہ کام کرسکتے ہو اور آپ ہی یہ کام کروگے، پاکستانی عوام کو بھی اس مصیبت کے وقت میں یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کون لوگ ہیں کہ جو ان کے جیسے ہیں، ان کے جیسے گھروں میں رہنے والے ہیں، ان کے جیسا لباس پہننے والے ہیں، اور ہر مشکل وقت میں آن کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ پشاور کا ہمارا دوست نورالواحد جدون یاد آتا ہے جس نے مجھے پشتو سکھانے کی کوشش کی تھی، اب مجھے اتنی پشتو تو آ ہی گئی ہے کہ یہ کہہ سکوں کہ” سراج الحق صیب دہ عزت مند شے “۔