Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ایک بار میں ماسکو میں کئی سال بیروزگار رہا تو مجھے گھر بیٹھے رہنے کی عادت ہو گئی تھی۔ زیادہ سے زیادہ ساٹھ پینسٹھ گھنٹے ہی گذار پاتا تھا لیکن باہر نکلنا بھی بس مارکیٹ تک جانے یا تھوڑی سی چہل قدمی کرنے تک محدود ہوا کرتا یعنی مجھے تنہائی اچھی لگنے لگی تھی اور اب بھی لگتی ہے۔
مگر ایسا اپنی مرضی سے کیا جائے تو برا نہیں لگتا، اگرچہ ایسا کرنے میں خالصتا اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی جیسے اگر میں بیروزگار نہ ہوتا تو اپنی مرضی سے ان دنوں گھر پر اکیلا نہیں رہ سکتا تھا لیکن اگر گھر میں محبوس رہنا کسی مجبوری کے تحت ہو تو چبھتا ہے۔ میں تو حکومت پنجاب کی طرف سے نافذ کردہ رضاکارانہ گھر بندی سے چند روز پہلے ہی گھر میں بیٹھ چکا تھا لیکن جونہی اس کے بارے میں اعلان ہوا، مجھے لگنے لگا جیسے مجھے بند کر دیا گیا ہو۔
بلاوجہ محسوس ہونے لگا کہ ابھی دل کا دورہ پڑنے کو ہے، معالج میسر نہیں ہوگا۔ ہسپتال جانا ممکن نہ ہوگا ویسے بھی ہسپتالوں میں کون جانے کتنے ہی ایسے لوگ ہوں جن میں مرض کی کوئی علامات نہ ہوں۔ ان کی صحت بظاہر ٹھیک ٹھاک ہو لیکن ان کے پھیھڑوں میں گھر کر چکے لاکھوں کروڑوں کورونا وائرس چھینکنے، کھانسے اور اگر ایسا شخص بہت قریب ہو تو اس کی خارج ہوتی سانس سے کسی کو لگ سکتے ہیں۔
میں ویسے بھی چونکہ مسافر ہوں، اگرچہ عمر بڑھنے کی وجہ سے بیروزگار ہونے کے سبب ہر برس میری مسافت کا دورانیہ پانچ چھ ماہ پہ محیط ہو جاتا ہے۔ البتہ میں پاکستان میں ہوتا ہوں تو نچلا بیٹھنا میرے بس میں نہیں ہوتا۔ یہ بات نہیں کہ مجھے متحرک رہنا بھاتا ہے اصل بات یہ ہے کہ میں یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتا ہوں۔ یوں میں نے گذشتہ برس پاکستان آنے کے بعد روس کو لوٹ جانے تک پاکستان کے اندر چھپن بار سفر کیا تھا، کراچی سے مدینہ، مدینہ سے مکہ۔ مکہ سے جدہ ، جدہ سے کراچی، کراچی سے علی پور، علی پور سے ملتان، ملتان سے لاہور، لاہور سے راولپنڈی، راولپنڈی سے گلگت، گلگت سے ہنزہ، ہنزہ سے گلگت، گلگت سے ہری پور، ہری پور سے پشاور، پشاور سے ہری پور، ہری پور سے اسلام آباد، اسلام آباد سے ہری پور، ہری پور سے ایبٹ آباد، ایبٹ آباد سے ہری پور، ہری پور سے مانسہرہ، مانسہرہ سے ہری پور، ہری پور سے راولپنڈی، راولپنڈی سے ملتان، ملتان سے علی پور، علی پور سے ملتان، ملتان سے ہری پور، ہری پور سے اسلام آباد، اسلام آباد سے ہری پور، ہری پور سے لاہور اور لاہور سے ماسکو۔ ان میں کئی شہروں جیسے اسلام آباد، ایبٹ آباد، نتھیا گلی وغیرہ کے کئی کئی سفر شامل تھے۔
اور اب مجھے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے کہ میں علی پور میں ہوں اور پچھلے تین ہفتوں سے باقاعدہ گھر میں بند بیٹھا ہوں۔ نہ جانے مزید کب تک اسی طرح بیٹھے رہنا پڑے۔ گھر میں رہنے پر مجبور ہو کر توجہ کا بیشتر وقت کرونا سے متعلق جاننے کی خاطر اس کے بارے میں پڑھنے سننے پر صرف ہوا تو جو نتائج اخذ کیے وہ یوں تھے :
1۔ یہ کورونا فیمیلی کے وائرس کی ارتقائی شکل ہے جس کے بارے میں اس کے وارد ہونے سے پہلے کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ اسے جاننے کے بارے میں فی الحال ٹامک ٹوئیاں چل رہی ہیں۔
2۔ اس سے تب تک بچنا ممکن ہے جب تک آپ سب سے کٹ کر علیحدہ رہیں۔ اس اثناء میں باہر سے آئی کوئی شے نہ چھیڑیں یا چھیڑیں تو مختلف چیزوں کو رکھے رہنے دے کر ایک سے تین دنوں بلکہ کچھ چیزوں جیسے پلاسٹک جو متنوع اشیاء کی Wrapping میں استعمال ہوتی ہے کو سات روز کے بعد چھوئیں۔
3۔ عورتیں زیادہ متاثر ہوتی ہیں مگر ہلاکتیں مردوں کی زیادہ ہوتی ہیں۔ 60 سال کی عمر سے زیادہ مردوں کے لیے خطرناک، 70 برس سے زیادہ عمر کے مردوں کے لیے بہت خطرناک اور 80 برس یا زیادہ عمر والے مردوں کے لیے اس وائرس سے ہوئے عارضہ میں مبتلا ہونا انتہائی خطرناک ہے۔
4۔ یہ وائرس اس تیزی سے پھیلتا ہے جیسے شطرنج ایجاد کرنے والے کے بارے میں مشہور ہے کہ بادشاہ نے خوش ہو کر پوچھا تھا، مانگ کیا مانگتا ہے۔ اس نے پہلے حسب دستور جان کی امان ہی مانگی تھی مگر بادشاہ کے اصرار پر کہا تھا کہ ایک خانے میں ایک چاول کا دانہ رکھ دیجیے، اگلے میں دو، اگلے میں چار، اس سے اگلے میں آٹھ اور یوں ہی دوگنا دوگنا۔ آخری خانے تک جو چاول ہونگے وہ دے دیجیے۔ چونسٹھ خانوں میں اس طرح رکھے گئے چاولوں کو آپ گن لیں لیکن میں ڈاکٹر ہوتے ہوئے جانتا ہوں کہ یہ وائرس اس کی جانب سے کی گئی معصوم خواہش سے زیادہ بوجھل ہو سکتا ہے۔
5۔ دنیا میں کوئی بھی ملک اس وائرس سے متاثرہ لوگوں کی کثیر تعداد کے لیے تیار نہیں تھا۔ ہسپتالوں اور کلینکس کے علاوہ بھلا ماسک کہاں استعمال ہوتے ہیں اور مذکورہ مقامات پر بھی اسے مخصوص لوگ ہی برتتے ہیں وہ بھی مخصوص وقت تک۔ جب ملک کی زیادہ نہیں تو ایک چوتھائی آبادی کو ہی اگر ماسک استعمال کرنے پڑیں تو اندازہ لگا لیجیے۔ یہی حال باقی اشیاء، وینٹی لیٹرز، ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی ملبوسات وغیرہ کا تھا۔
6۔ مریضوں کی اس قدر بڑی تعداد اور ہلاکت خیز وائرس سے نمٹنے کی غرض سے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کی کمی تھی۔ وبا کے موقع پر ہمیشہ ہی سب سے پہلے ڈاکٹر اور متعلقہ عملہ زیادہ متاثر ہوتا ہے یوں ایسے پیشہ ور افراد کی اور کمی ہو جاتی ہے۔
7۔ اس مرض کی کوئی دوا نہیں ہے۔ بس ” لگا کے دیکھ لو” یعنی طب کی زبان میں Hit and trial پہ اکتفا کرنا ہوگا تاوقتیکہ دوا بن جائے یا ویکسین تیار کر لی جائے اور ایسا کرنے میں سال دو سال اور دنیا بھر میں متعارف اور مستعمل کروانے میں اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
8۔ بیشتر ملکوں کی بیشتر آبادیاں صحت کے بارے میں زیادہ حساس نہیں ہیں۔ ساتھ ہی ان ملکوں میں جہاں غریب لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور جہاں لوگ تنگ جگہوں پر کثیر تعداد میں رہتے ہوں، انہیں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے یعنی social distancing کرنے، رضاکارانہ طور پر تنہا رہنے یعنی isolation اختیار کرنے اور خود کو دوسروں سے علیحدہ رکھنے یعنی خود کو Quarantine کرنے پر نہ تو قائل کیا جا سکتا ہے نہ ہی پابند اور بہت صورتوں میں تو ان کے لیے یہ سب کرنا ممکن بھی نہیں ہوتا۔
9۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس بظاہر تمام ہونے کے بعد لوٹ بھی سکتا ہے اور امکان ہے کہ پہلے سے زیادہ مہلک یعنی Virulent اور زیادہ متعدی یعنی Contagious ہو۔ ایسی صورت میں لوگ کیسے مسلسل گھروں میں محدود رہ پائیں گے؟ وائرس لوٹ یوں سکتا ہے کہ جو کیریر ہیں یعنی ایسے لوگ جو بیمار نہیں ہوتے مگر سینوں کو وائرس سے بھرے پھرتے ہیں ان میں سے کئیوں میں یہ وائرس خفتہ یعنی Dormant ہو جائے گا پھر کسی بھی وقت دوبارہ بیدار یعنی Reactivate ہو جائے گا، یوں اس وائرس کا دوبارہ پھیلاؤ شروع ہو سکتا ہے۔
10۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ موسمی مرض میں بدل جائے جیسے عام زکام ہے مگر اسی طرح متعدی اور مہلک رہے۔
میں یہ بھی سوچتا رہا ہوں کہ اللہ کرے جون یا جولائی میں اگر مجھے پاکستان میںمحدود رہنے سے چھٹکارہ ملے اور میں ماسکو چلا جاؤں، وہاں تو ستمبر سے ہی سردی شروع ہو جاتی ہے، کہیں پھر سے وہاں گھر بند نہ ہونا پڑ جائے۔ یہاں علی پور پاکستان میں تو شکر ہے بہت بڑا، کھلا اور درخت پودوں والا گھر ہے جبکہ ماسکو میں ایک کمرے کا سٹوڈیو، وہ بھی کرائے کا جس میں تین بچوں سمیت ہم پانچ لوگ ہونگے۔ ایسے میں یا تو وہ مجھے قتل کر دے گی یا میں اسے۔ خیر یہ تو کہنے کی بات ہے اور انتہائی سوچ پر مبنی خیال مگر اچھا بہر طور نہیں رہے گا، اس پر میری سیانی بھتیجی کا مشورہ ہے کہ جب تک یہ وائرس تمام نہ ہو جائے یا اس کی ویکسین تیار ہو کر دستیاب نہ ہو جائے، آپ یہیں علی پور میں رہ کے آرام کریں۔ وہاں روس میں بچوں سے معذرت کر لیں۔
ویسے تو آرام کی بجائے کام کرنے کا سوچنا چاہیے تھا جو میں نے سوچا بھی تھا کہ اگر بہت ضرورت پڑی تو پھر سے مطب کرنے کی جانب رجوع کر لیا جائے کیونکہ نہ اندوختہ ہے اور نہ ہی بچوں کو وہاں کی حکومت کی جانب سے کچھ ملتا ہے مگر اس وائرس کے بعد تو مطب کرنا ویسے بھی خود کو وائرس کے آگے ڈالنے جیسا ہوگا۔ پرنٹ میڈیا میں آپ کیا کما سکتے ہیں اگر آپ معروف بھکوے نہ ہوں تو۔ ڈیجیٹل میڈیا ویسے ہی بھرا ہوا ہے اور جوان افراد سے پر، مجھ جیسوں کی کہاں جگہ ہے۔ پڑھانا بھی مطب کرنے کی طرح ہجوم سے ہمکنار ہونا ہوگا۔ یوں کچھ اور سوچنا پڑے گا یعنی نہ ڈاکٹری کرنا اور نہ ہی صحافت پر تکیہ کرنا۔
( جاری ہے )
ایک بار میں ماسکو میں کئی سال بیروزگار رہا تو مجھے گھر بیٹھے رہنے کی عادت ہو گئی تھی۔ زیادہ سے زیادہ ساٹھ پینسٹھ گھنٹے ہی گذار پاتا تھا لیکن باہر نکلنا بھی بس مارکیٹ تک جانے یا تھوڑی سی چہل قدمی کرنے تک محدود ہوا کرتا یعنی مجھے تنہائی اچھی لگنے لگی تھی اور اب بھی لگتی ہے۔
مگر ایسا اپنی مرضی سے کیا جائے تو برا نہیں لگتا، اگرچہ ایسا کرنے میں خالصتا اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی جیسے اگر میں بیروزگار نہ ہوتا تو اپنی مرضی سے ان دنوں گھر پر اکیلا نہیں رہ سکتا تھا لیکن اگر گھر میں محبوس رہنا کسی مجبوری کے تحت ہو تو چبھتا ہے۔ میں تو حکومت پنجاب کی طرف سے نافذ کردہ رضاکارانہ گھر بندی سے چند روز پہلے ہی گھر میں بیٹھ چکا تھا لیکن جونہی اس کے بارے میں اعلان ہوا، مجھے لگنے لگا جیسے مجھے بند کر دیا گیا ہو۔
بلاوجہ محسوس ہونے لگا کہ ابھی دل کا دورہ پڑنے کو ہے، معالج میسر نہیں ہوگا۔ ہسپتال جانا ممکن نہ ہوگا ویسے بھی ہسپتالوں میں کون جانے کتنے ہی ایسے لوگ ہوں جن میں مرض کی کوئی علامات نہ ہوں۔ ان کی صحت بظاہر ٹھیک ٹھاک ہو لیکن ان کے پھیھڑوں میں گھر کر چکے لاکھوں کروڑوں کورونا وائرس چھینکنے، کھانسے اور اگر ایسا شخص بہت قریب ہو تو اس کی خارج ہوتی سانس سے کسی کو لگ سکتے ہیں۔
میں ویسے بھی چونکہ مسافر ہوں، اگرچہ عمر بڑھنے کی وجہ سے بیروزگار ہونے کے سبب ہر برس میری مسافت کا دورانیہ پانچ چھ ماہ پہ محیط ہو جاتا ہے۔ البتہ میں پاکستان میں ہوتا ہوں تو نچلا بیٹھنا میرے بس میں نہیں ہوتا۔ یہ بات نہیں کہ مجھے متحرک رہنا بھاتا ہے اصل بات یہ ہے کہ میں یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتا ہوں۔ یوں میں نے گذشتہ برس پاکستان آنے کے بعد روس کو لوٹ جانے تک پاکستان کے اندر چھپن بار سفر کیا تھا، کراچی سے مدینہ، مدینہ سے مکہ۔ مکہ سے جدہ ، جدہ سے کراچی، کراچی سے علی پور، علی پور سے ملتان، ملتان سے لاہور، لاہور سے راولپنڈی، راولپنڈی سے گلگت، گلگت سے ہنزہ، ہنزہ سے گلگت، گلگت سے ہری پور، ہری پور سے پشاور، پشاور سے ہری پور، ہری پور سے اسلام آباد، اسلام آباد سے ہری پور، ہری پور سے ایبٹ آباد، ایبٹ آباد سے ہری پور، ہری پور سے مانسہرہ، مانسہرہ سے ہری پور، ہری پور سے راولپنڈی، راولپنڈی سے ملتان، ملتان سے علی پور، علی پور سے ملتان، ملتان سے ہری پور، ہری پور سے اسلام آباد، اسلام آباد سے ہری پور، ہری پور سے لاہور اور لاہور سے ماسکو۔ ان میں کئی شہروں جیسے اسلام آباد، ایبٹ آباد، نتھیا گلی وغیرہ کے کئی کئی سفر شامل تھے۔
اور اب مجھے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے کہ میں علی پور میں ہوں اور پچھلے تین ہفتوں سے باقاعدہ گھر میں بند بیٹھا ہوں۔ نہ جانے مزید کب تک اسی طرح بیٹھے رہنا پڑے۔ گھر میں رہنے پر مجبور ہو کر توجہ کا بیشتر وقت کرونا سے متعلق جاننے کی خاطر اس کے بارے میں پڑھنے سننے پر صرف ہوا تو جو نتائج اخذ کیے وہ یوں تھے :
1۔ یہ کورونا فیمیلی کے وائرس کی ارتقائی شکل ہے جس کے بارے میں اس کے وارد ہونے سے پہلے کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ اسے جاننے کے بارے میں فی الحال ٹامک ٹوئیاں چل رہی ہیں۔
2۔ اس سے تب تک بچنا ممکن ہے جب تک آپ سب سے کٹ کر علیحدہ رہیں۔ اس اثناء میں باہر سے آئی کوئی شے نہ چھیڑیں یا چھیڑیں تو مختلف چیزوں کو رکھے رہنے دے کر ایک سے تین دنوں بلکہ کچھ چیزوں جیسے پلاسٹک جو متنوع اشیاء کی Wrapping میں استعمال ہوتی ہے کو سات روز کے بعد چھوئیں۔
3۔ عورتیں زیادہ متاثر ہوتی ہیں مگر ہلاکتیں مردوں کی زیادہ ہوتی ہیں۔ 60 سال کی عمر سے زیادہ مردوں کے لیے خطرناک، 70 برس سے زیادہ عمر کے مردوں کے لیے بہت خطرناک اور 80 برس یا زیادہ عمر والے مردوں کے لیے اس وائرس سے ہوئے عارضہ میں مبتلا ہونا انتہائی خطرناک ہے۔
4۔ یہ وائرس اس تیزی سے پھیلتا ہے جیسے شطرنج ایجاد کرنے والے کے بارے میں مشہور ہے کہ بادشاہ نے خوش ہو کر پوچھا تھا، مانگ کیا مانگتا ہے۔ اس نے پہلے حسب دستور جان کی امان ہی مانگی تھی مگر بادشاہ کے اصرار پر کہا تھا کہ ایک خانے میں ایک چاول کا دانہ رکھ دیجیے، اگلے میں دو، اگلے میں چار، اس سے اگلے میں آٹھ اور یوں ہی دوگنا دوگنا۔ آخری خانے تک جو چاول ہونگے وہ دے دیجیے۔ چونسٹھ خانوں میں اس طرح رکھے گئے چاولوں کو آپ گن لیں لیکن میں ڈاکٹر ہوتے ہوئے جانتا ہوں کہ یہ وائرس اس کی جانب سے کی گئی معصوم خواہش سے زیادہ بوجھل ہو سکتا ہے۔
5۔ دنیا میں کوئی بھی ملک اس وائرس سے متاثرہ لوگوں کی کثیر تعداد کے لیے تیار نہیں تھا۔ ہسپتالوں اور کلینکس کے علاوہ بھلا ماسک کہاں استعمال ہوتے ہیں اور مذکورہ مقامات پر بھی اسے مخصوص لوگ ہی برتتے ہیں وہ بھی مخصوص وقت تک۔ جب ملک کی زیادہ نہیں تو ایک چوتھائی آبادی کو ہی اگر ماسک استعمال کرنے پڑیں تو اندازہ لگا لیجیے۔ یہی حال باقی اشیاء، وینٹی لیٹرز، ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی ملبوسات وغیرہ کا تھا۔
6۔ مریضوں کی اس قدر بڑی تعداد اور ہلاکت خیز وائرس سے نمٹنے کی غرض سے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کی کمی تھی۔ وبا کے موقع پر ہمیشہ ہی سب سے پہلے ڈاکٹر اور متعلقہ عملہ زیادہ متاثر ہوتا ہے یوں ایسے پیشہ ور افراد کی اور کمی ہو جاتی ہے۔
7۔ اس مرض کی کوئی دوا نہیں ہے۔ بس ” لگا کے دیکھ لو” یعنی طب کی زبان میں Hit and trial پہ اکتفا کرنا ہوگا تاوقتیکہ دوا بن جائے یا ویکسین تیار کر لی جائے اور ایسا کرنے میں سال دو سال اور دنیا بھر میں متعارف اور مستعمل کروانے میں اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
8۔ بیشتر ملکوں کی بیشتر آبادیاں صحت کے بارے میں زیادہ حساس نہیں ہیں۔ ساتھ ہی ان ملکوں میں جہاں غریب لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور جہاں لوگ تنگ جگہوں پر کثیر تعداد میں رہتے ہوں، انہیں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے یعنی social distancing کرنے، رضاکارانہ طور پر تنہا رہنے یعنی isolation اختیار کرنے اور خود کو دوسروں سے علیحدہ رکھنے یعنی خود کو Quarantine کرنے پر نہ تو قائل کیا جا سکتا ہے نہ ہی پابند اور بہت صورتوں میں تو ان کے لیے یہ سب کرنا ممکن بھی نہیں ہوتا۔
9۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس بظاہر تمام ہونے کے بعد لوٹ بھی سکتا ہے اور امکان ہے کہ پہلے سے زیادہ مہلک یعنی Virulent اور زیادہ متعدی یعنی Contagious ہو۔ ایسی صورت میں لوگ کیسے مسلسل گھروں میں محدود رہ پائیں گے؟ وائرس لوٹ یوں سکتا ہے کہ جو کیریر ہیں یعنی ایسے لوگ جو بیمار نہیں ہوتے مگر سینوں کو وائرس سے بھرے پھرتے ہیں ان میں سے کئیوں میں یہ وائرس خفتہ یعنی Dormant ہو جائے گا پھر کسی بھی وقت دوبارہ بیدار یعنی Reactivate ہو جائے گا، یوں اس وائرس کا دوبارہ پھیلاؤ شروع ہو سکتا ہے۔
10۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ موسمی مرض میں بدل جائے جیسے عام زکام ہے مگر اسی طرح متعدی اور مہلک رہے۔
میں یہ بھی سوچتا رہا ہوں کہ اللہ کرے جون یا جولائی میں اگر مجھے پاکستان میںمحدود رہنے سے چھٹکارہ ملے اور میں ماسکو چلا جاؤں، وہاں تو ستمبر سے ہی سردی شروع ہو جاتی ہے، کہیں پھر سے وہاں گھر بند نہ ہونا پڑ جائے۔ یہاں علی پور پاکستان میں تو شکر ہے بہت بڑا، کھلا اور درخت پودوں والا گھر ہے جبکہ ماسکو میں ایک کمرے کا سٹوڈیو، وہ بھی کرائے کا جس میں تین بچوں سمیت ہم پانچ لوگ ہونگے۔ ایسے میں یا تو وہ مجھے قتل کر دے گی یا میں اسے۔ خیر یہ تو کہنے کی بات ہے اور انتہائی سوچ پر مبنی خیال مگر اچھا بہر طور نہیں رہے گا، اس پر میری سیانی بھتیجی کا مشورہ ہے کہ جب تک یہ وائرس تمام نہ ہو جائے یا اس کی ویکسین تیار ہو کر دستیاب نہ ہو جائے، آپ یہیں علی پور میں رہ کے آرام کریں۔ وہاں روس میں بچوں سے معذرت کر لیں۔
ویسے تو آرام کی بجائے کام کرنے کا سوچنا چاہیے تھا جو میں نے سوچا بھی تھا کہ اگر بہت ضرورت پڑی تو پھر سے مطب کرنے کی جانب رجوع کر لیا جائے کیونکہ نہ اندوختہ ہے اور نہ ہی بچوں کو وہاں کی حکومت کی جانب سے کچھ ملتا ہے مگر اس وائرس کے بعد تو مطب کرنا ویسے بھی خود کو وائرس کے آگے ڈالنے جیسا ہوگا۔ پرنٹ میڈیا میں آپ کیا کما سکتے ہیں اگر آپ معروف بھکوے نہ ہوں تو۔ ڈیجیٹل میڈیا ویسے ہی بھرا ہوا ہے اور جوان افراد سے پر، مجھ جیسوں کی کہاں جگہ ہے۔ پڑھانا بھی مطب کرنے کی طرح ہجوم سے ہمکنار ہونا ہوگا۔ یوں کچھ اور سوچنا پڑے گا یعنی نہ ڈاکٹری کرنا اور نہ ہی صحافت پر تکیہ کرنا۔
( جاری ہے )