وہ جنگ نہیں تھی مگر پھر بھی بمباری بہت شدید تھی۔تھی بھی دو شہروں کی آبادیوں پر۔مرد و زن ضعیف و جوان اور بچے بلا تخصیص نشانہ بن رہے تھے۔
دس اپریل انیس سو اٹھاسی کا وہ دن قیامت صغری تھا۔
صبح کے لگ بھگ پونے دس بجے تھے ننھا طالبعلم بھائی کے ہمراہ کلاس میں بیٹھا تھا۔ یک لخت زمین و آسمان دہل گئے۔لگا قیامت آگئی۔ایسا جگرپاش دھماکا اسکول کے بچوں تو کیا بڑوں نے بھی نہ سنا تھا۔سب سراسیما ہوکر اسکول گراؤنڈ میں جمع ہوگئے۔پرنسپل نے تشویش زدہ لہجے بچوں کو کمروں میں جانے کی ہدایت دی۔عین اس وقت ریاضی کے استاد محترم نے لمحہ موجود کو ریاضی کا سوال سمجھ کر یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ اسرائیل نے حملہ کردیا ہے۔خیال کو الفاظ کا جامہ ملا تو انہوں نے چلا کر اسی بات کا واشگاف اظہار بھی کردیا۔پھر اپنی تشویش ہیڈ ماسٹر صاحب کو منتقل کرتے ہوئے سراسیمہ انداز میں بولے “وہ بچوں کو خاص طور پہ نشانہ بنائیں گے چھٹی کا اعلان کردیں۔”پرنسپل صاحب اسی مخمصے میں تھے کہ قریب زور دار دھماکا ہوا.فضا غبار سے بھر گئی گرد زرا بیٹھی تو طالبعلم نے پھپھڑوں کی پوری قوت سے کچھ دور کھڑے اپنے بھائی کو آواز دی ۔ننھی سی آواز دھماکوں کے مہیب شور میں دب کر رہ گئی اور ساتھ چھوٹ گیا۔زمین پہ گرتے بموں کی دھمک اور فضا میں اڑتے میزائلوں کے شور میں خواہش تھی تو صرف اتنی کہ کسی طرح گھر پہنچ جائیں مگر سڑکوں پہ رقصاں موت کو دیکھ کر ایسا ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ بڑے بڑے میزائل فضا میں باہم ٹکرا رہے تھے اور جلتا دہکتا فولاد پرہجوم سڑکوں پہ قہر ڈھا رہا تھا۔بھاگتے دوڑتے سڑکوں پر اپنی بقا کی جنگ لڑتے ننھے طالبعلم نے زندگی میں پہلی بار آسمان کی طرف منہ اٹھا کر اسرائیل کو بے شمار گالیاں دیں۔ وہ اب تک فضا میں شارکوں کی طرح تیرتے میزائلوں اور آکٹوپس جیسے بموں کو دیکھ کر یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ سب اسرائیل ہی برسا رہا ہے۔اچانک ننھے طالبعلم کو پیچھے دلدوز چیخ سنائی دی۔کوئی آتش و آہن کی برسات کا براہ راست نشانہ بنا تھا مگر رک کر دیکھنے کی مہلت کہاں تھی۔اسی بھاگ دوڑ میں کچھ لڑکے ہولی فیملی اسپتال کی پچھلی سمت جانکلے جہاں سفید کوٹ پہنے نوجوان ڈاکٹر نظر آئے ساتھ میں ایک دو نرسیں بھی تھیں۔انہوں نے سب کو دیوار کے ساتھ کھڑا کیا۔سب ٹھیک ہوجائے گا کہہ کر تسلی دی ۔چند منٹ ہی گزرے تھے کہ یہ جگہ بھی گولوں کی زد میں آئی۔ دیوار اس بری طرح لرزی کہ اس کا بوجھ طالبعلم نے اپنی پیٹھ پر محسوس کیا۔گرد وباد کے بادل چھٹے تو ارد گرد نہ کوئی ڈاکٹر دکھائی دیا اور نہ کوئی نرس۔طالبعلم بھاگ کر کچھ دورایک اور دیوار کے سایہ پناہ میں آگیا۔وہاں عجب دلگیر مناظر تھے ۔بیقرار مائیں ہائے میرا لعل ہائے میرا پتر کہہ کہہ کر سینہ پیٹتیں اور جگر گوشوں کی تلاش میں بھاگتی پھرتیں ۔اچانک دوست اور پڑوسی لڑکا امجد مشتاق بھی سرپٹ بھاگتا نظرآیا ۔ننھا طالبعلم پریشان تو تھا مگر بدحواس نہیں ۔چیخ کر نام پکارا۔اشارے سے سمجھایا کہ کھلی سڑک پہ بموں کی بارش میں میراتھن کے بجائے کنارے گلی میں دیوار کیساتھ لگ کر کھڑا ہونا زیادہ بہتر ہے۔ امجد کسی سدھائے ہوئے گھوڑے کی طرح پلٹا اور ساتھ آکر کھڑا ہوگیا۔
بمباری کی شدت کم ہوئی تو دونوں دوستوں نے محتاط انداز میں گھر واپسی کی راہ لی کوئی بم یا میزائل آسمان پہ اڑتا نظر آتا یا دھماکا سنائی دیتاتو ٹھہر کر کسی عمارت کی اوٹ لے لیتے اور پھر چوکس ہوکر سفر شروع کرتے۔راستے کی گلیاں بارود سے جھلسی ہوئی تھیں کواڑوں سے سسکیاں اور بین سنائی دے رہے تھے سڑکوں پہ کہیں لہو تھا تو کہیں لہو کے چھینٹے۔کہیں بموں کے ٹکڑے پڑے تھے تو کہیں ثابت و سالم بم جو پھٹ نہ سکے تھے۔
یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ پتا نہیں گھر اور محلہ بچا بھی ہوگا کہ نہیں۔اسی ادھیڑ بن میں اپنے محلے پہنچے تو پتہ چلا کہ گلی کے نکڑ پہ رہنے والی پروفیسر صاحبہ کی کار میزائل یا بم کا نشانہ بنی اور وہ طالبات سمیت شہید ہوگئیں۔محلے کے دوسرے کونے میں آخری سے پہلا گھر شاید فاسفورس بم کا نشانہ بنا تھا۔نقصان اگرچہ جزوی تھا مگر بند صندوقوں کا سامان بھی جل چکا تھا۔گھر آکر علم ہوا کہ والد صاحب بموں کی بارش میں بھائی کو باحفاظت ڈھونڈ لائے تھے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اس سانحے میں خاقان عباسی سمیت ایک سو تین لوگ لقمہ اجل بنے اور تیرہ سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔غیرسرکاری اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ تھے۔یوں بھی اعداو شمار کے اس کھیل میں جمع و تفریق کا تعلق بسا اوقات حاکم وقت کی منشا سے ہوتا ہے۔بتیس برس بعد اب ماضی کے وہ دلخراش مناظر یاد آئیں تو فراز کی نظم کہ یہ اشعار لبوں پہ آتے ہیں
وہ عجیب صبح ِ بہار تھی
کہ سحر سے نوحہ گری رہی
مری بستیاں تھی دُھواں دُھواں
مرے گھر میں آگ بھری رہی
مرے راستے تھے لہو لہو
مرا قریہ قریہ فگار تھا
یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی
وہ فلک کہ مشتِ غبار تھا
کئی آبشار سے جسم تھے
کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے
کئی خوش جمال طلسم تھے
جنہیں گرد باد نگل گئے
کہیں نغمگی میں وہ بین تھے
کے سماعتوں نے سنے نہیں
کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے
کہ انیس نے بھی کہے نہیں۔
اس خونی دن نے چھوٹے سے لڑکے کو دو بڑے سبق دیے۔ایک یہ کہ مصائب کا مقابلہ برداشت تحمل بربادی اور حوصلے سے کرنا چاہیے۔برا وقت گزر جاتا ہے۔دوم جو لوگ حالات و واقعات کو اپنے خود ساختہ مفروضوں کی عینک سے دیکھتے ہیں وہ خود کے ساتھ اوروں کے لیے بھی بڑے نقصان کا سبب بنتے ہیں ۔ انسان خواہ مخواہ مقام عافیت سے نکل کر آلام کی کڑی دھوپ تلے آکر کھڑا ہوجاتاہے۔
وقت کیساتھ یہ سبق سیکھ کر وہ ننھا لڑکا بڑا ہوگیا۔اک دن خواہش ہوئی کہ جانیں کہ اس دن پیش آنے والے سانحے سے حکام نے کیا سبق سیکھا تھا۔پتہ چلا کہ سبق کہیں درج ہی نہیں تو سیکھا کیسے جاتا۔
سانحہ اوجڑی کیمپ پہ اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نےکمیشن بنایا تھا۔اس کمیشن نےسانحے کے بارہ روز بعد بائیس اپریل کو اپنی رپورٹ حکومت وقت کو پیش کی تھی مگر وہ اب بھی عوام کےلیے سربستہ راز ہی ہے۔واقفان حال کہتے ہیں رپورٹ میں اس وقت کے جرنیل صدر ضیا الحق کے عسکری ساتھیوں کیخلاف کارروائی کی سفارش تھی مگر جنرل صاحب نے جونیجو صاحب کو ہی چلتا کردیا۔
۔تاریخ سے ہم نے ویسے بھی ایک ہی سبق سیکھا ہے اور وہ یہ کہ کچھ نہیں سیکھا۔جبھی تو ہربرس اپریل کی دس تاریخ اسی طرح چپ چاپ گزر جاتی ہے