“بابا وہ شخص ہوتا ہے جو دوسرے انسان کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے، آپ کے ذھن میں ہوگا کہ بابا ایک فقیر ہے، اس نے سبز رنگ کا کرتہ پہنا ہوا ہے، گلے میں منکوں کی مالا ہے، ہاتھ میں اس کے لوگوں کو سزا دینے کا تازیانہ پکڑا ہوا ہے اور آنکھوں میں سرخ رنگ کا سرمہ ڈالا ہے۔
لیکن تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے سرخ ٹائی لگائے، بیچ میں سونے کا پن لگائے ہوئے ایک بہت اعلیٰ درجے کا بابا بھی ہوتا ہے۔ اس میں جنس کی قید نہیں ہے۔ مرد، عورت، بچہ، بوڑھا، ادھیڑ، نوجوان یہ سب لوگ کبھی نہ کبھی اپنے وقت میں بابے ہوتے ہیں اور ہو گزرتے ہیں۔
لمحاتی طور پر ایک دفعہ کچھ آسانی عطا کرنے کا کام کرتے یا کچھ مستقلاً اختیار کرلیتے ہیں اس شیوے کو۔ اور ہم ان کا بڑا احترام کرتے ہیں”۔
اشفاق احمد بابوں کی تعریف کچھ ان الفاظ میں کرتے تھے. ہم اپنی زندگی میں اگر مشاہدہ کریں اور اردگرد نگاہ دڑائیں تو ہمیں ایسے لوگ بآسانی مل جائیں گے، جو دوسروں کی انگلی پکڑ کر انہیں راستہ دکھاتے اور زندگی کے اتار چڑھاؤ سے نکلنے کی بڑی سادہ تراکیب بتاتے.
بچپن میں نانا جی کچھ ایسی باتیں بتاتے کیونکہ تقسیم کے پہلے کا دور گزار چکے تھے اس لیے ان کے قصوں میں ہندو اور سکھوں کا تذکرہ بھی ہوتا، جنہوں نے ناصرف حکمت کے راز کھولے اور انسانی وسائل کو باہمی تعاون کیلئے استعمال کیا۔ وہ لوگ کسی قسم کے نفاق سے بالاتر تھے، اختلاف ضرور ہوتا تھا مگر مذہب، رنگ نسل اور فرقے کی تمیز ایک دوسرے کے قریب آنے یا کبھی حائل نہ ہونے پاتی۔
نانا کہتے زندگی کو ہمیشہ دوسروں کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے، ذات سے باہر دکھ اور تکلیف کو جانچنے میں آسانی ہوتی ہے، تمھیں مدد کرکے خوشی ملے گی، وہ اپنے لیے کچھ کرنے سے کہیں زیادہ ہوگی۔
ایک بار کسی بزرگ سے اپنی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے بڑا مسکرائے، کہنے لگے۔ میں نے اپنے انداز گفتار میں انہیں کہا اوہ! بزرگو، میری بات سنو، جواب میں انہوں نے کہا، تمھیں بات کرنے کی تمیز نہیں، میں نے پھر کہا،اوہ بزرگو،کیا ہوگیا۔ وہ دوبارہ غصے میں بولے،اوہ کا کیا مطلب، پھر مجھے احساس ہوا، احترام کی نیت تھی،الفاظ کا چناؤ غلط ہوگیا۔
سیاسی آوارگی کے دوران زندگی کے بے شمار راز بتانے والوں سے نشستیں رکھیں۔
میڈیا میں کئی درویش ملے، کچھ ادھیڑ عمر اور بعض جواں سال بابوں سے بھی واسطہ پڑا۔
وہ دور کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کی بات بھلی نہیں لگتی، لیکن کچھ ہاتھ پکڑنے والے بڑے غیرمحسوس انداز سے اپنا کام کرجاتے ہیں۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ انسان سے محبت کرنے والا دل ہو، اس کا تعلق کسی مذہب، سوچ یا گروہ سے ہو، آپ کے لیے آسانیاں تلاش کرنے میں مصروف ہوگا۔ اسے رب نے اسی مشن پر بھیجا ہوتا ہے۔ وہ کوئی بچہ، عورت، جوان یا بزرگ بھی ہوسکتا ہے۔ امیر کبیر، تنخواہ دار، دکاندار، ملازم، ریڑھی بان، مزدور بھی ہوسکتا ہے۔
انسانی رابطے اب کہیں اور (انٹرنیٹ، سوشل میڈیا پر) ہونے لگے۔ آمنے سامنے کون ملتا ہے، فون، ٹی وی یا انٹرنیٹ پر دوسرے کے احساسات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔
آپس میں ملنے والے دکھ سکھ کو بھی محسوس کرلیتے ہیں۔ دوسرے کی مدد کرتے ہیں، آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ ان کی ٹینشن اور پریشانی بھی اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں۔
آج غلطی اور عیب نکالنے والے بہت ملیں گے، لیکن اسے درست کرانے اور خامیاں نظرانداز کرنے والوں سے بھی واسطہ پڑے گا۔
یہ کوئی غائبانہ امداد نہیں ہوتی بلکہ ہمارے اردگرد ہی موجود ہوتے ہیں، صرف بات بتاتے، عمل کرتے اور کام ہوجاتا ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے یہ سب کیسے ہوا۔
اگرچہ ہمارا معاشرہ پیروں، فقیروں، گدی نشینوں، پہنچے بزرگوں اور دیہات میں لٹھ پکڑے بابوں سے بھرا پڑا ہے جن میں بابا رحمتے بھی ہوتے ہیں، لیکن یہ بابے وہ نہیں، محبت کرنے والے بے غرض، اندر سے صاف انسان ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی ذات نہیں محض دوسروں کی فکر ہوتی ہے۔
قدرت نے انہیں سماج کو سہارا دینے کی ذمہ داری سونپی ہوتی ہے، وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں ڈیوٹی سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہ کہیں کھو نہیں جاتے، انہیں ڈھونڈنا بھی نہیں پڑتا، یہ آپ کو کسی موڑ پر کہیں بھی مل سکتے ہیں، صرف اپنے اندر ایک نیت ہونی چاہیے کہ ہمیں بھی اچھا کرنا ہے، کسی کو نقصان نہیں پہنچانا بس اور کوئی مدد کیلئے حاضر۔
سماج میں بہتری کے اسباب بھی تلاش کرنے میں تعاون کرتے ہیں۔ دوسروں کو تکلیف دور کرنا کا طریقہ بتاتے ہیں۔ درحقیقت یہ بابے بنی نوع انسان کی فلاح کیلئے دنیا میں آتے ہیں، وہ عبدالستار ایدھی ہو، جسٹس کارنیلس ہو، عاصمہ جہانگیر ہو، نثار عثمانی،آئی اے رحمان یا حسین نقی ہو، ہمیں ان کی تقلید کرکے ہی سماج کی سوچ کو بند راستوں پر چلنے سے روکنا ہوگا۔ آگے کا سفر بھی یہی بابے بتاتے رہیں گے۔