کئی دن سے یہ سن رہا تھا کہ کپاس ( cotton)کاٹن بھی پاکستان سے روٹھ گئی, خیر اب تو ہر اچھی چیز پاکستان سے روٹھ گئی ہے اور ہم نئے پاکستان میں تبدیلی آنے کے منتظر ہیں لیکن کیا کریں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پرانے پاکستان کی یاد بڑھ جاتی ہے یا ہم پرانے لوگ پرانے پاکستان کے عادی ہوگئے تھے کاٹن، روئی یا کپاس سے ہمارا بھی پرانا یارانہ ہے ،تقریبا ایک دہائی تک اللہ پاک نے ہمارا رزق اس سفید سونے( white Gold ) سے وابستہ رکھا اس دوران سندھ و پنجاب کی اکثر جننگ فیکٹریوں، کپاس کے پیداواری علاقوں اور منڈیوں میں مستقل بنیادوں پر جانا ہوتا تھا، کاٹن کے بابوں (Experts ) سے ملاقات ہوتی تھی وہ ہمیں اس سفید سونے کے اسرار و رموز بتایا کرتے تھے اس کے فائبر کی لمبائی اور مضبوطی سے آگاہ کرتے ہاتھ میں کاٹن لیکر کیسے اس کے معیار اس کے فائبر کی لمبائی ناپ سکتے ہیں ہمیں ان ہی بابوں نے سکھایا، کاٹن فیلڈز اس کے پیداواری علاقوں اور ان کاٹن کے ماہر بابوں کے ساتھ سفر یادگار لمحات ہوتے تھے،
جب میں نے یہ پڑھا کہ پاکستان سے کپاس ختم ہورہی ہے تو یہ میرے لئے عجیب حیرانی کی بات تھی کہ کپاس پاکستان سے ختم ہورہی ہے یہ سفید سونا ہم سے روٹھ رہا ہے، ڈاکٹر جیسو مل جو کاٹن جننگ ایسوسی ایشن کے صدر ہیں کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی آدھے سے زیادہ جننگ فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں، ہماری کپاس کی پیداوار 5۔5 ملین گانٹھوں تک گرگئی ہے جبکہ اس سے قبل ہم 11 ملین گانٹھوں کی پیداوار حاصل کرچکے ہیں،
میں نے اپنے اس دکھ و حیرانی جو کپاس اور اس کی پیداوار کے حوالے سے مجھے ہوئی اس کا ذکر اپنے محسن، محبت کرنے والے دوست جو میرے لئے کاٹن کا سب بڑا حوالہ اور اس فیلڈ کے مستند ترین افراد میں سے ہیں جناب محمد طارق، نیلم کاٹن ملتان سے کیا جنہوں نے تمام خدشات کی تصدیق کی اور اس حوالے سے جامع معلومات مہیا کیں، نیلم کاٹن ملتان کے محمد طارق جو گزشتہ 28 سال سے میرے دوست ہیں اور کاٹن کی پاکستان میں پیداوار ،کھپت اور اس کی فروخت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں انہیں میں نے شدید پریشان اور کپاس کی پیداوار کے حوالے سے بہت فکرمند لیکن پرامید پایا۔ آپ نے کپاس کی امپورٹ پر اپنے خدشات کا اظہار کیا لیکن ساتھ ساتھ اپٹما ( APTMA) پر زور دیا کہ وہ کپاس کے تحقیقی اداروں کے کام کی نگرانی کرے، حکومت کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اچھے بیج اور مناسب قیمت پر کھاد اور زرعی استعمال کی دوائوں کی فراہمی کا مناسب انتظام کرے۔
کیا ہم نے ہمارے حکمرانوں نے، اور اس ملک کو چلانے والی قوتوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم اس سفید سونے سے ہاتھ دھولیں گے، تاریخ میں پڑھتے تھے کہ سکندر اعظم کی فوج یہ دیکھ کر حیران ہوگئی تھی کہ اس سرزمین میں روئی پیڑوں پر اگتی ہے کھیتوں میں بوئی جاتی ہے اور آج سکندر اعظم کے گزرنے کے ہزاروں سال بعد ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی دھرتی کو برباد کررہے ہیں کپاس کو تباہ کررہے ہیں، گزرے وقتوں میں کہ جب سرمایہ دار بھی رکھ رکھائو والے ہوتے تھے اسپننگ ملز کے مالکان ریسرچ اور تحقیقی کاموں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اس وقت میں بھی کراچی کاٹن کمیٹی میں مختلف کورسز میں شریک ہوا تھا لیکن آج پتہ چلتا ہے کہ مل مالکان بھی صرف منافع کے چکر میں ہیں اور ان کی نظر میں ریسرچ اور تحقیق کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مل مالکان نے کاٹن سیس کے اربوں روپے ادا کرنے ہیں کہ جو وہ ادا نہی کرتے جس کی وجہ سے کاٹن کے مختلف تحقیقی اداروں کے ملازمین کئی ماہ سے تنخواہوں سے بھی محروم ہیں،
زمینیں صرف گنے کے لئے رہ گئی ہیں ملک کی ضرورت سے دگنی زیادہ شوگر ملیں پاکستان میں کام کررہی ہیں اور شوگر مافیا ان کو کنٹرول کررہا ہے اور ہماری صدیوں پرانی کپاس کی فصل دم توڑرہی ہے اس کی کاشت کا رقبہ دن بدن کم ہورہا ہے جننگ فیکٹریاں بند ہورہی ہیں مزدور بےروزگار ہورہے ہیں اور ہم اس بات پر خوش ہیں کہ روئی Cotton توامپورٹ کرکے اپنی اسپننگ ملز چلالیں گے وائے ناکامی ہم کس راستے پر چل پڑے ہیں،
اپٹما کہ اس ملک کی بڑی تجارتی تنظیم ہے اس کے ممبران نہایت قابل، معاملہ فہم، اور زیرک افراد ہیں جنہوں نے ہمیشہ وطن عزیز کے فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے کام کیا ہے، اپٹما اور اس کے ذمہ داران اگر کپاس کے تحقیقی اداروں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھیں ساتھ ساتھ ان کو دی جانے والی سہولتوں اور انکی کارکردگی کو ایک دوسرے سے مشروط کردیں تو تحقیقی اداروں کے کام میں بہتری آسکتی ہے، اگر کپاس کی ریسرچ کے یہ ادارے کوئی بہتر بیج، کوئی زیادہ لمبے فائبر والی کپاس یا فی ایکڑ زیادہ پیداوار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اسپننگ ملز کے مالکان کو بھی سستی اور اچھی روئی مل سکتی ہے اور کاٹن کی امپورٹ میں جو زرمبادلہ ضائع ہوتا ہے اس سے بچا جاسکتا ہے بلکہ سوتی مصنوعات کی ایکسپورٹ سے قیمتی زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔