”دھواں“ شاکرانورکاپہلاناول ہے۔شاہ شاکراحمدنے سوشیالوجی میں ماسٹرزاورروسی زبان کاڈپلومہ کیاہے۔ 1982ء میں پہلاافسانہ لکھا۔قلمی نام شاکرانوراختیارکیا۔ان کے افسانے پاکستان اوربھارت کے اہم ادبی جرائدمیں مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں۔ افسانوں کاپہلا مجموعہ ”خواب،خوشبو اور خاموشی“کے نام سے اشاعت پذیرہوا۔جس کے بعدشاکرانورکی توجہ ناول لکھنے کی جانب ہوئی اورانہوں نے ”دھواں“تحریر کیا۔ شاکر انور کادوسراناول”بلندی“ اورافسانوں کامجموعہ”ستمبرکاچاند“بھی جلدشائع ہونے والے ہیں۔دوناول ”رسوائیوں کی تیسری گلی“ اور”لولو اور مرجان“ بھی زیرطبع ہیں۔
معروف افسانہ وناول نگاراے خیام نے ”اظہارِخیال“ میں شاکرانورکے ناول دھواں اورناول نگاری کے فن کاجائزہ لیاہے۔انہوں نے اردوکے معروف نقادکلیم الدین احمدکے حوالے سے ناول کی وسیع کائنات یااس کے امکانات کی بات اس طرح کی ہے۔”ناول انسانی تجربوں کے امکانات کاپتہ لگاتاہے،شعورکے نہاں خانوں کوٹٹولتاہے،جذبات،خیالات کی پیچیدہ تاریک اوردشوارگزارراہوں کو منور کرتا ہے،فردسماج کے تعلقات کی نازک گتھیوں کو سلجھاتاہے،حیات وکائنات کی آمادہ گہرائیوں میں غوطہ لگاتاہے۔وارث علی کاکہناہے۔ ”شاعری توآدھی زمین سے اوپرہوتی ہے اورآدھی نیچے۔ناول خالص زمین کی چیزہوتاہے۔“ یعنی ناول محض خیالی پلاؤنہیں ہوتا،محض دلچسپ واقعات،گڑھے ہوئے قصے اورتصوراتی کرداروں سے ناول کاپیٹ نہیں بھراجاسکتا۔وارث علی کے مطابق۔ ناول کاسب سے بڑاکام دریافت ہے،انکشاف ہے، صداقت کی تلاش ہے،حقیقت کی اتھاہ پانے کی کوشش ہے۔پھریہ بھی دیکھیں کہ انگلش ناول نگارڈی ایچ لارنس ناول نگار اورناول کوکیاسمجھتے ہیں۔”میں ایک ناول نگارہوں اورایک ناول نگارکے بطورمیں خود کوکسی بھی اولیاء سے،کسی بھی سائنس داں سے،کسی بھی فلسفی سے اورکسی بھی شاعرسے بالاترسمجھتاہوں۔یہ سب انسان کے مختلف اجزاء کے عظیم ماہرہیں مگران اجزاء کی سالم صورت کاادراک نہیں رکھتے ناول ہی ایک روشن کتاب زندگی ہے۔کتابیں زندگی نہیں ہوتیں،محض خلائے اثیرمیں تھرتھراہٹیں ہوتی ہیں۔مگرناول بطورایک تھرتھراہٹ کے سالم زندہ بشرکولرزش میں لاسکتاہے جوشاعری،فلسفہ،سائنس یاکسی اورکتابی تھرتھراہٹ سے بڑھ کر ہے۔“
اے خیام کاکہناہے۔”کیاہرافسانہ نگارناول بھی لکھ سکتاہے یاصرف وہ لکھ سکتاہے جس کامشاہدہ،تجربہ بہت وسیع ہو،وہ بہت عاقل وداناہو، افسانہ نگاراگرناول نگاری کی طرف رجوع کرتاہے تواتنی بات توطے ہے کہ وہ لکھنے کی صلاحیت رکھتاہے۔افسانے لکھتے ہوئے اس نے یہ ضرور محسوس کیاہوتاہے کہ تمام چیزیں افسانے میں نہیں سماسکتیں اوراس کے لیے بڑے کینوس کی ضرورت ہے۔دھواں شاکرانورکاپہلا ناول ہے،وہ طویل عرصے سے افسانے لکھ رہے ہیں افسانوی ریاضت انہیں زیادہ پھیلنے سے روکتی ہے جبکہ ناول میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ بہت وسیع میدان ہوتاہے۔وسعت کی جتنی گنجائش ناول میں ہے افسانوں میں نہیں۔میرے خیال میں شاکرانورکی پہلی کاوش کوسراہاجانا چاہیے۔“
افسانہ وناول نگارنسیم انجم نے دھواں کومنفردناول قراردیتے ہوئے لکھاہے۔”شاکرانورکانام قارئین اورناقدین کے لیے تعارف کامحتاج نہیں۔وہ بیس برس سے افسانے لکھ رہے ہیں۔اب وہ تخلیقیت کے سفرمیں مزیدآگے بڑھے ہیں،اوراپنی محنت اورلگن کے نتیجے میں ”دھواں“کے عنوان سے دلچسپ اورمنفردناول کے تخلیق کاربن کرسامنے آئے ہیں۔بقول محمدحسن عسکری ’ناول لکھناہرکسی کے بس کی بات نہیں،اس کے لیے دوسری بہت سی خوبیوں کے علاوہ ایک عمرکاتجربہ درکارہے۔‘ جبکہ شہزادمنظرکاکہناہے۔’اچھا اوربڑاناول وہی لکھ سکتاہے جوافسانہ لکھناجانتاہو۔‘ ایک قلمکاراپنے مشاہدات،تجربات اورتخلیقی صلاحیت کی بناء پرقلم اٹھاتاہے اورجوں جوں آگے بڑھتاہے۔کائنات کے رنگ اس کی وجدانی کیفیت پرغالب آجاتے ہیں۔کردارنگاری اسے بے شمارمسائل اورمختلف پیچ وخم سے گزارتی ہے۔گویاکردارتخلیق کار پراپنی گرفت مضبوط کرلیتے ہیں اسی طرزِ درد سے کہانی مختلف مناظرسے قارئین کوروشناس کراتی ہے۔اسلوب بیان کی دلکشی اورماحول کی سحرانگیزی نے ناول ”دھواں“کوقابلِ مطالعہ بنادیاہے۔شاکرانورکاناول پڑھنے کے بعد مجھے حیرانی بھی ہوئی اورخوشی بھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے منفردموضوع کوقلم کی زینت بنایا،اورناول کے تمام کردارمضبوط ہیں۔ناول کی کہانی اپنی ابتداء سے لے کرانتہاتک تجسس کی فضاکوپروان چڑھاتی ہے۔“
شاکرانوردیباچہ میں لکھتے ہیں۔”اس ناول کولکھنے سے پہلے میرے ذہن میں تین سوالات ابھرے۔کیامیری کہانی قاری کے ذہن پردیرپا تاثرقائم رکھ سکے گی؟ کیایہ کہانی مجھے لکھنی چاہیے؟اورکیامیں اسے منطقی انجام تک کامیابی سے پہنچاسکتاہوں؟ یہ سارے سوالات میرے لیے بے حداہم تھے۔میں ہمیشہ مایوسی سے امیدکی طرف دیکھتاہوں۔اس امیدنے مہمیزلگاکرمجھے ناول لکھنے کی ترغیب دی۔آج سے کئی سال قبل میں نے ہرمن ہیسے کاناول’سدھارتھ‘ پڑھاتھا۔اورمیرے ذہن میں چنگاری سی جلی تھی۔پھرلگاتاربہت سارے ناول پڑھے اور قابلِ ذکرایمل زولاکا’تھریسا‘ جے ایم کٹ سیاکاDisgrace اورقیصرسلیم مرحوم کاترجمہ کیاہوا’بغدادبے رحم نہیں ہے‘ جسے یاسمین خدرا نے تحریرکیاتھا۔ان ناولوں نے میری راہ متعین کردی اورمیں نے’دھواں‘ لکھنے کافیصلہ کیا۔پہلے اس کانام ’دھند‘ سوچاتھا۔ میراایک عزیز دوست ہم سے بچھڑگیا۔اس کی موت اس کہانی’دھواں‘کوشروع کرنے کی وجہ بنی۔میرادوست جوہنستامسکراتاتھا،اپنی خوبصورت بیوی کے ساتھ خوشگوارزندگی گزاررہاتھا۔کہ اچانک اس کی بیوی ذہنی مریضہ بن گئی۔یہ بات اچانک تونہیں ہوئی ہوگی۔کبھی وہ بالکل ٹھیک ہوجاتی اور کبھی بالکل خبط الحواس۔انہی دنوں ایک بچی اسی حالت میں پیداہوئی۔بیوی کے دکھ نے اسے بیٹی کی شکل میں ایک مدھم سی خوشی دی مگرکچھ دنوں کے بعد وہ خوشی بھی جاتی رہی،جب اسے پتہ چلاکہ بیٹی بھی ذہنی مریضہ ہے۔دونوں کی دیکھ بھال کرتے کرتے وہ خود بھی ذہنی مریض ہو گیااورآخرکارایک رات دونوں کوگولی مارکرخود بھی مرگیا۔دوست کی موت نے مجھے بھی صدمے سے دوچارکردیا۔اچانک میرے ذہن نے اس کی موت کاسوگ منانے کے بجائے اس کی زندگی کی کہانیوں کوایک رنگ اورشکل دینے پراکسایا اورمیں نے ’دھواں‘کی کہانی ترتیب دی۔میری کہانی کے سارے کردارمیرے اردگرد منڈلاتے رہتے۔تیمورکاکرب جوشایدمیراتھااورمجھ جیسے سینکڑوں پاکستانیوں کاتھا وہ ہمیں ستاتارہتا۔ساشاکی معصومیت،قربانی کاجذبہ اورپیارکے ایک انوکھے جذبے کی ترجمانی اورساتھ ہی میڈم عذراکی خاموش چاہت،ماں کی دلدوزچیخیں میرے حواس پرچھائی رہتیں۔مگرساتھ ہی ابراربھائی اوربلال بھنڈی کے کردارسے کچھ دیرکے لیے ٹھنڈی چھاؤں جیسی آسودگی بھی ملتی۔آخرکارمیں اپنے مقصدمیں ایک طویل اورصبرآزماکوشش کے بعدکامیاب ہوگیا۔“
ایک دوست کی المناک موت سے متاثرناول کابنیادی موضوع بچپن میں زندہ ماں باپ کی شفقت سے محروم بچہ اورشوہرکے سامنے بیوی کا ریپ ہے۔ایک سوساٹھ صفحات کاناول چونتیس مختصرابواب میں تقسیم ہے،اوراس میں غیرضروری تفصیلات دینے سے گریزکیاگیاہے۔ ”دھواں“ میں بہت کم لیکن مضبوط کردارہیں۔ناول کامرکزی کردارتیمورہے۔جس کی انتہائی حسین والدہ ذہنی بیماری کاشکارہو جا تی ہے۔باپ مختلف عاملوں سے اس کاعلاج کراتاہے۔ایساہی ایک عامل گیارہ سالہ تیمورکے سامنے جن نکالنے کیلیے اس کی والدہ پرتشدد کرتاہے،جواس سے برداشت نہیں ہوتا اوروہ عامل پرچاقوسے کئی وارکردیتاہے۔ والداپنی بیوی کے دیوانے تھے۔بیوی کے لاپتہ ہونے پروہ بھی اس کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اورکم عمرتیموربچپن ہی سے لاولدپھوپھی کے ساتھ رہنے لگتاہے۔جن کے شوہرسابق فوجی اورڈسپلن کے پابندہیں۔ عبداللہ، تیمورکابچپن کادوست ہے۔اس کردارکی واپسی ناول کے اختتام پرہوتی ہے۔تاہم اس کی کوئی تفصیلات مصنف نے دینے سے گریز کیا ہے۔عندلیب کاکردارمختصرلیکن یادگارہے جوقاری بھلانہیں پائے گا۔ایک اورغیراہم کردارعذراکاہے، جس کی خاموشی، اس کی محرومی گہرا تاثرقائم کرتی ہے اورقاری کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ساشاناول کادوسرااہم کردارہے،جوقدرے تاخیرسے کہانی میں آتاہے۔
تیمورکی شخصیت کی تشکیل بچپن ہی سے ہوتی ہے۔وہ اپنے دوست عبداللہ کے ساتھ بچوں کافٹبال میچ دیکھ رہاہوتاہے۔اچانک موذن کابیٹا شمسوتیزی سے فٹ بال لے کرمخالف سمت بھاگتاہے اورایک زوردارکک لگاتاہے۔فٹ بال عبداللہ کی کنپٹی پرلگتاہے۔تیمورغصے میں بھرا شمسوکی طرف لپکتاہے اوراسے دبوچ کرزمین پرگرادیتاہے۔اسے مکے مارتاہے۔چندبڑے لڑکے انہیں چھڑاتے ہیں توتیمورکہتاہے کہ’اگر آئندہ عبداللہ کوکوئی نقصان پہنچایاتومجھ سے براکوئی نہ ہوگا۔‘گھرمیں والد سے مکالمہ ہوتاہے کہ ’تم نے موذن کے بیٹے کوماراتھا۔’جی اس نے عبداللہ کوماراتھا۔‘،’عبداللہ تمہاراکیالگتاہے؟‘،’دوست!‘،’آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔‘،’جی!‘لیکن دل میں فیصلہ کرلیاآئندہ ضرورکروں
گا۔اگراس نے ماراتو۔“
تیمورکی کردارسازی کی جھلک اس اقتباس سے واضح ہے۔اقتباس دیکھیں۔”لوگ کہتے ہیں،میری ماں بے حدخوبصورت تھی۔اتنی حسین کہ شایدچاندبھی شرما جائے۔وہ دلہن بن کرمیرے باپ کی حویلی میں جب اتری تھی توآس پاس کے گاؤں کی عورتیں اپنے سارے کام کاج چھوڑکرمیری ماں کو دیکھنے آجاتی تھیں،اورپھردیکھتی ہی رہ جاتیں۔میری ماں درازسیاہ بالوں والی ایک ایسی عورت تھی جومیرے باپ کے لیے ایک بیش بہا نعمت سے کم نہ تھی۔میری والدکسی پروانے کی طرح میری ماں کے گردگھومتے رہتے۔حویلی سے باہرجاناانہیں گراں گزرتاتھا۔ان کی آنکھوں میں ایک غیرشعوری پرستش ہوتی۔ایک ایسے سرورکالمحہ جس کی بلندی پرجاکروہ خودفراموشی کے سمندرمیں ڈوب جاتے۔میری پیدائش نے اس حویلی کوایک لمبی مدت کے بعد وارث دیا۔ورنہ میرے والد کے تین بھائیوں اورایک بہن کی لاولدی کاغم سمیٹے ہوئے تھے۔ میرے دونوں چچاملک سے باہر اورپھوپھی کراچی میں مقیم تھے۔ اس حویلی کے درودیوارنے میرے جنم کاجشن منایا۔ پوری حویلی میں چراغاں کیاگیا،اسے دلہن کی طرح سجایاگیا۔غریبوں میں کپڑے اورصدقے تقسیم کیے گئے۔تین راتوں سے پورے علاقے کے لوگوں کے لیے لنگرعام تھا۔ایک رات وہ سوتے میں اچانک چیخنے لگیں۔پھرڈرکراٹھ بیٹھیں۔دوسری رات بھی وہی ہوا۔وہ دیر تک چیختی رہیں۔والدصاحب بے حدگھبرائے ہوئے تھے۔کئی راتوں سے وہ سونہیں سکے تھے۔ایک عامل نے آکران پردم کیا۔اس کاکہنا تھاکہ شام کے وقت والدہ اپنے بال کھول کرچھت پرتھیں کہ جنوں کاایک قافلہ ادھرسے گزرا۔ایک جن انھیں دیکھ کرفریفتہ ہوگیا۔عامل کے تعویذسے وہ کچھ بہترنظرآنے لگیں۔لیکن ان کے چہرے کی شادابی کم ہوتی جارہی تھی۔“
پروفیسرتیمورکی شاگرد رابعہ اس کاتعارف اپنی کزن ساشاسے کراتی ہے۔جسے اس کے والدین نے لندن سے اپنے لیے خود رشتہ تلاش کرنے کے لیے پاکستان بھیجاہے۔رابعہ کی امی نے اپنی چھوٹی بہن صبوحی(ساشاکی والدہ) کوبتایا۔”آپا!میں اپنی بیٹی کی شادی پاکستان میں کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔اس نے ہمیشہ ایک ایسے ماحول کودیکھاہے جہاں کی فضامیں آزادی رچی بسی ہے۔ حالانکہ یہ آزادیہم جیسے گھرانوں کے لیے کبھی باعثِ رسوائی بھی ہوجاتاہے۔لیکن ہم نے ساشاکی تربیت میں ان باتوں کومدنظررکھاہے جوپاکستانی معاشرے کی اصل روح ہے۔ساشاکے ڈیڈی فرازساشاکوپاکستان میں بساکراپناکاروباربھی وہیں شروع کرناچاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اپنے ملک کی دووقت کی روٹی غیرملک کے کیک سے اچھی ہوتی ہے۔رابعہ کی امی نے کہا۔کبھی ایسی غلطی نہ کرناتم لوگ۔ان کے چہرے پرگھبراہٹ تھی۔کراچی اب وہ شہرنہیں رہا جب ہم لوگ رات دوبجے تک گھروالوں کے ساتھ گھومتے رہتے تھے۔یہ شہراب انسانوں کاشہرنہیں رہا، صبوحی! ایک طرح سے درندوں کاشہرہوگیاہے۔بیس پچیس لاشیں گرناروزکامعمول ہے۔کوئی پوچھنے والانہیں۔کوئی قانون نہیں۔دورِ وحشت کاعالم ہے یہاں۔“
اس باب میں کراچی کاالمیہ کمال اختصارسے مصنف نے بیان کیاہے۔لیکن اس کے باوجودتیموراورساشاایک دوسرے کوپسندکرلیتے ہیں۔ تیمور،ساشاکواپنے بارے میں بتاتاہے۔”ساشامیں ہمیشہ ترتیب اورسلیقگی کواہم سمجھا۔میں گیارہ سال کی عمرسے اپنی پھوپھی کے زیرتربیت رہا۔ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔وہ ڈسپلن کوسب سے بڑھ کراہمیت دیتی تھیں۔میرے پھوپھافوج میں تھے۔ان لوگوں سے میں نے جینے کاڈھنگ سیکھا۔میری ذہنی کلفتیں یہاں آکربتدریج کم ہوتی گئیں۔مجھے علم کاشوق اوراس کی جانکاری اسی ماحول سے ملی۔میں نا آسودہ حالات میں کتابوں کواپناساتھی بنالیا۔میراتعلیمی کیریئرہمیشہ شانداررہا۔میں نے صرف انگریزی ادب کوہی نہیں پڑھابلکہ روسی، فرانسیسی،جرمن ادب اورپاکستانی ادب کابھرپورمطالعہ کیا اورہرباب کے ساتھ میرے علم اورشوق میں اضافہ ہوتاگیا۔ساشا!میری شخصیت ادھوری اورنامکمل ہے۔میری ماں ذہنی مریض تھی۔وہ ایک رات اچانک گھرسے غائب ہوگئی۔میرے والداس کی تلاش میں نکل گئے۔ان کابھی کچھ پتہ نہیں چلا۔پھرمیرے ساتھ عامل کے قتل کاحادثہ ہوااورمیں اپناگاؤں اورحویلی چھوڑکرکراچی چلاآیا۔“
ان سب حقائق کوجانتے ہوئے ساشا،تیمورسے شادی پراصرارکرتی ہے۔والد کوہارٹ اٹیک ہونے کے باعث اس کے والدین شادی میں شریک نہیں ہوپاتے۔
پروفیسرتیموریونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھانے کے ساتھ کالم نگاری بھی کرتاہے۔اس کے کالموں کوبہت پسندکیاجاتاہے۔لیکن اس کی بیباکی پردھمکیاں بھی ملتی ہیں۔جنہیں وہ خاطرمیں نہیں لاتا۔ڈین آف فیکلٹی پروفیسرڈاکٹرشاہ عبادالرحمٰن کالمزکے بارے میں اس سے کہتا ہے۔”میں تمہارے کالم بہت شوق سے پڑھتاہوں۔مجھے بے حدخوشی ہے کہ تم ہمارے معاشرے کے مسائل کولوگوں تک پہنچارہے ہو۔ لیکن تیمور،اگرتم اپنے اندرایک بے حدطاقت وردشمن کاسامناکرنے کی کی ہمت اورجرأت رکھتے ہوتوضرورلکھو۔مجھے اندیشہ ہے کہ تم اپنے دشمنوں کواپنے قریب کررہے ہو۔یہ سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے جیساہے۔ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔وہ نہایت تیزی سے تباہی کی جانب بڑھ رہاہے۔ہمارے اندراب صرف بے یقینی،خوف اورمایوسی ہے۔ہمیں حکمرانوں اوراشرافیہ نے ایک ایسے موڑ پرلاکرکھڑاکردیاہے۔جہاں آگے آگ اورپیچھے کھائی ہے۔تمہیں معلوم ہے تیمور،اب جنگ وجدل کازمانہ نہیں رہا۔کسی ملک کوتباہ کرنے کے بجائے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کے بہترین اداروں کوبدترین لوگوں کے ہاتھ میں دے دیاجائے۔وہاں کی معیشت اسی طرح تباہ ہوجاتی ہے۔“
اس مختصرگفتگو میں شاکرانورنے پاکستان کے مسائل کانچوڑپیش کردیاہے۔اسی طرح انہوں نے طویل لیکچردینے کے بجائے اسی طرح چند لفظوں میں کراچی کی صورتحال اوردیگرامورکوپیش کیاہے۔جوان کے اسلوب کی اہم خوبی ہے۔مختصراورپراثرناول میں بنیادی موضوع کے ساتھ ساتھ شاکرانورکئی مسائل اورمعاملات کوپیش کیاہے۔کالم نگاری پردھمکانے والے یاڈاکوایک روزتیمور کے گھرآدھمکتے ہیں اوران کی تمام متاعِ زندگی لوٹ کرچلے جاتے ہیں۔ساشاکاعزت ہی نہیں لوٹتے وہ ہونے والے بچے اورہمیشہ کے لیے بچہ پیداکرنے سے محروم ہو جاتی ہے۔اس صورتحال سے تیموراورساشاپرکیاگزرتی ہے اوروہ اس سے کیسے نکلتے ہیں۔یہ سب انتہائی دلچسپ اورپراثرہے۔شاکرانور نے اپنے پہلے ناول کے ذریعے قارئین کے وسیع حلقے کومتاثرکیاہے اوران کی اگلی تحریروں کایقینا انتظارکیاجائے گا۔