Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
شہزاد ناصر: نیو یارک
جج ارشد ملک کو برطرف کرنے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے ایک بارپھر نوازشریف کےخلاف کئے گئے فیصلے پر بڑا سوالیہ نشان بنادیا ہے کہ کیا وہ فیصلہ واقعی انصاف کے اصولوں کے مطابق تھا یا پھرسیاسی بنیادوں پر تیارکردہ تھا کہ کسی بھی طرح نوازشریف کو سزا سناکر سیاست سے آؤٹ کردیاجائے ،کون نہیں جانتاکہ اتنا بڑا فیصلہ کروانے والا ہاتھ کس کا ہوسکتاہے جبکہ اس وقت پاکستان مسلم لیگن ہی اقتدار کے ایوانوں میں تھی تو اس پس منظر میں یہ سوال اٹھاتا ہوں کہ حکمران جماعت کے خلاف فیصلے کون لے سکتا ہے۔
حال ہی میں ممتاز جرنلسٹ سہیل وڑائچ نے سپریم کورٹ کے سابق جج اعجازاحمد چوہدری سے انٹرویو لیا تو انھوں نے اعتراف کیاکہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو پانامہ کیس میں ملنے والی سزا بھٹو کو قتل کیس سزا سے ملتی جلتی ہے ، ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی سزا کو بھی جس کو عوام نے نہیں مانا تھا ،اسی طرح اس سزا کو بھی تسلیم نہیں کیا۔
جج ارشد ملک کے خلاف ایکشن کی وجہ وہ وڈیو بیان کی گئی ہے جس میں وہ نوازشریف کے خلاف فیصلے کو دباؤ کے تحت دئیے جانے کا اعتراف کرتے ہیں، وہ وڈیو وائرل ہوئی اور خود مریم نواز نے بھی پریس کانفرنس میں حوالہ دے کر اس ججمنٹ بارے سنجیدہ سوالات اٹھائے۔
اب جبکہ خود لاہور ہایئکورٹ نے جج ارشد ملک کی ملازمت ختم کردی ہے تو ایسے جج کے فیصلوں کی کوئی قانونی اور اخلاقی بنیاد بھی نہیں رہی اور وقت نے نوازشریف کو بے گناہ ثابت کردیا کہ ان کے خلاف منظم سیاسی مہم چلاکر جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور ان پر من مانے فیصلے لئے گئے، انصاف کا تقاضا ہے کہ نوازشریف کی سزاختم کردی جائے اور ملک میں نئے الیکشن کرواکے حکومت اصل عوامی نمائندوں کے حوالے کردی جائے ۔