Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

اردوکے ایک بڑے شاعرعبیداللہ علیم کی چند دن پہلے برسی تھی تواس حوالےسے میرے ذہن پریادوں کے کچھ نقوش ابھرآئے ۔عبیداللہ علیم سے میرےوالدکی دوستی تھی،اس زمانےمیں میرےوالدکراچی میں مختلف ڈایجسٹوں سے بحیثیت مدیروابستہ رہے جن میں زاہد حناکاعالمی ڈائجسٹ، ایچ اقبال کا الف لیلہ وغیرہ شامل تھے ۔ اس زمانےمیں عبیداللہ علیم ،ذکاالرحمان (ناول نگار،ڈراما نگار) ایک ادبی اورآرٹ میگزین نکالتے تھے جوسرورسکھیراکے دھنک لاہورجیسا ہوتا تھا۔
میں سکول میں زیرتعلیم تھا لیکن علمی ادبی ناول ، شاعری اوراخبارات پڑھنےکاشوق تواس حوالے سےسب کو جانتا توتھا لیکن والد کی وجہ سے کئی شاعروں اورادیبوں سے اب بالمشافہ ملاقات بھی ہوجاتی۔ یادآیا عبیداللہ علیم الہلال سوسائیٹی کراچی میں رہائش پذیرتھے اوراگلی گلی میں ذکاالرحمان کا گھرتھا ، مشہورصحافی انورسن رائےاسی میگزین میں ہوتے تھے ، انورسن رائے بعدازاں جنگ ، نوائے وقت میں سئینرصحافی رہےاور پبلک اخبارکے ایگزیکٹوایڈیٹربھی بعدازاں بی بی سی لندن چلے گئے، ریٹایرمنٹ بعدکراچی واپس چلے گئے ۔ پچھلی پاکستان وزٹ میں ڈی ایچ اے کراچی ان کے بنگلے پرملاقات ہوئی ، کافی کمزورلگ رہے تھے ۔مجھے یادہے کہ انورسن رائے ہمارے گھرآتے تونیلی جینزاورسفیدکرتا پہناہوتا، ایک ہاتھ میں سگریٹ اوردوسرے ہاتھ میں لینن کی سرخ کتاب ہوتی ، بڑے انقلابی خٰیالات اور خوبصورت جوان تھے ۔مجھ سے ہمیشہ پنجابی میں بات کرتے ۔
ذکرہورہا تھا عبیداللہ علیم کاتوایک دن والد نے ضروری کام سے ان کے پاس بھیجا۔ جس نفاست اور محبت سے ملے ذہن پر اس کے نقش اج بھی گہرے ہیں ۔آٹھویں جماعت کا سٹوڈنٹ تھا لیکن انھوں نے بڑی تمیزاوراخلاق سے میرانام لیا۔ ہربات پر آداب اور شکریہ کہتے ،حیرت سے ان کا چہرہ دیکھتا، گھربھی آرٹسٹک ذوق کی منہ بولتی تصویر، ان کی بیگم نگارکراچی یونیورسٹی میں لیکچراراور خود پی ٹٰی وی میں پروڈیوسر، اس وقت پی ٹی وی پروڈیوسر بہت اہم شخصیت شمارہوتاتھا ، بڑے بڑے فنکارسلام کرتے رہتے ، عبیدعلیم گہرے اثرورسوخ کےمالک تھے ، سوسائیٹی میں بڑی عزت ،گورا رنگ اورلمبی زلفیں ، مذہبی رجحانات تھے دیگرشعرا کی طرح دہریت کی طرف جھکاؤ نہ تھا ، ان کے بک شیلف میں مولانا شبلی نعمانی کی مشہورزمانہ تصنیف سیرت النبی کی چھ جلدیں ترتیب سے رکھی تھیں ۔ مجھے انہوں نے اپنا شعری مجموعہ چاندچہرہ ستارہ آنکھیں بھی دیا، میں ان کی شخصیت سے بہت متاثرہوا، دل نہیں کررہا تھا کہ ان کے پاس سے اٹھوں لیکن انھیں اسی رات ایک مشاعرہ میں جاناتھا چنانچہ مجھے اپنی کارمیں راستے میں ڈراپ کیا ۔گھرآکرمیں نے والدسے عبیداللہ علیم کی بہت تعریف کی توتائید کرتے ہوئے کہا علیم صاحب بہت وضعدار، رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں ۔میں نے والد سے ضدکی کہ مجھے بھی شبلی نعمانی کی سیرت النبی کی چھ جلدیں چاہیئں جو ایک ماہ بعد انھوں نے اردوبازارسے خرید کردیں ۔
ذکر چونکہ ذکاالرحمان کاآہی گیاہے توان کاایک مشہورناول تھا جواب یاد نہیں آرہا، اتنا خشک اوربور ناول تھا کہ مجھ جیسا کتابی کیڑا بھی کوشش کے باوجود چند صفحات سے زیادہ نہ پڑھ سکا، بیس سال تک وہ ناول میرے بک شیلف میں پڑا رہا لیکن پڑھنے کاحوصلہ نہ ہوا، تیس سال پہلے پی ٹی وی پران کا ایک ڈراما چلاتھا جس میں خالدہ ریاست اورطلعت حسین نےمرکزی کرداراداکیا تھا، وہ ڈراما ایک ریلوے سٹیشن کے ویٹنگ روم میں فلمایاگیااوروہیں ختم ہوگیا،پورے ڈرامے میں طویل طویل خاموش سین اور گھڑی کی ٹک ٹک ۔
چالیس سال بعد:
سرورسکھیرا، دھنک لاہور سے فیس بک فرینڈشپ ہوگئی ، وہ کینیڈا اپنے بیٹے کےپاس ہوتے تھے ، چونکہ فارغ تھے تواکثرمجھ سے اکثرچیٹ کرتے ، ( اب دوست نہیں کیونکہ میرے سیاسی اور پنجابی نیشنلزم کے نظریات سے کچھ خائف لگتے تھے اس لئے پاکستان واپسی پر مجھے ان فرینڈ کرگئے ) ،
ایک دن سرورسکھیرا جی سے چیٹ میں ذکاالرحمان کا ذکرنکلاتووہ بولے لاہور ہی ہوتاہےاورمیراجگرہے، زمانے بھرکے کرایم کرنے کےبعدوہ میری چارپائی کے نیچے چھپ جاتاہے تویوں معلوم ہواکہ زکاالرحمان کراچی سے لاہورشفٹ ہوچکے ، ویسے بھی ان کا آبائی تعلق ہارون آباد ضلع بہاولنگرسے تھا ،میری بھی زکاالرحمان سے فیس بک فرینڈشپ ہوگئی ، کبھی کبھی والدکے حوالے سے بات بھی ہوتی، ایک دن سرورسکھیرا صاحب نے اطلاع دی کہ زکاالرحمان میرایاراس دنیا میں مجھے اکیلا چھوڑکررخصت ہوگیا ۔

اردوکے ایک بڑے شاعرعبیداللہ علیم کی چند دن پہلے برسی تھی تواس حوالےسے میرے ذہن پریادوں کے کچھ نقوش ابھرآئے ۔عبیداللہ علیم سے میرےوالدکی دوستی تھی،اس زمانےمیں میرےوالدکراچی میں مختلف ڈایجسٹوں سے بحیثیت مدیروابستہ رہے جن میں زاہد حناکاعالمی ڈائجسٹ، ایچ اقبال کا الف لیلہ وغیرہ شامل تھے ۔ اس زمانےمیں عبیداللہ علیم ،ذکاالرحمان (ناول نگار،ڈراما نگار) ایک ادبی اورآرٹ میگزین نکالتے تھے جوسرورسکھیراکے دھنک لاہورجیسا ہوتا تھا۔
میں سکول میں زیرتعلیم تھا لیکن علمی ادبی ناول ، شاعری اوراخبارات پڑھنےکاشوق تواس حوالے سےسب کو جانتا توتھا لیکن والد کی وجہ سے کئی شاعروں اورادیبوں سے اب بالمشافہ ملاقات بھی ہوجاتی۔ یادآیا عبیداللہ علیم الہلال سوسائیٹی کراچی میں رہائش پذیرتھے اوراگلی گلی میں ذکاالرحمان کا گھرتھا ، مشہورصحافی انورسن رائےاسی میگزین میں ہوتے تھے ، انورسن رائے بعدازاں جنگ ، نوائے وقت میں سئینرصحافی رہےاور پبلک اخبارکے ایگزیکٹوایڈیٹربھی بعدازاں بی بی سی لندن چلے گئے، ریٹایرمنٹ بعدکراچی واپس چلے گئے ۔ پچھلی پاکستان وزٹ میں ڈی ایچ اے کراچی ان کے بنگلے پرملاقات ہوئی ، کافی کمزورلگ رہے تھے ۔مجھے یادہے کہ انورسن رائے ہمارے گھرآتے تونیلی جینزاورسفیدکرتا پہناہوتا، ایک ہاتھ میں سگریٹ اوردوسرے ہاتھ میں لینن کی سرخ کتاب ہوتی ، بڑے انقلابی خٰیالات اور خوبصورت جوان تھے ۔مجھ سے ہمیشہ پنجابی میں بات کرتے ۔
ذکرہورہا تھا عبیداللہ علیم کاتوایک دن والد نے ضروری کام سے ان کے پاس بھیجا۔ جس نفاست اور محبت سے ملے ذہن پر اس کے نقش اج بھی گہرے ہیں ۔آٹھویں جماعت کا سٹوڈنٹ تھا لیکن انھوں نے بڑی تمیزاوراخلاق سے میرانام لیا۔ ہربات پر آداب اور شکریہ کہتے ،حیرت سے ان کا چہرہ دیکھتا، گھربھی آرٹسٹک ذوق کی منہ بولتی تصویر، ان کی بیگم نگارکراچی یونیورسٹی میں لیکچراراور خود پی ٹٰی وی میں پروڈیوسر، اس وقت پی ٹی وی پروڈیوسر بہت اہم شخصیت شمارہوتاتھا ، بڑے بڑے فنکارسلام کرتے رہتے ، عبیدعلیم گہرے اثرورسوخ کےمالک تھے ، سوسائیٹی میں بڑی عزت ،گورا رنگ اورلمبی زلفیں ، مذہبی رجحانات تھے دیگرشعرا کی طرح دہریت کی طرف جھکاؤ نہ تھا ، ان کے بک شیلف میں مولانا شبلی نعمانی کی مشہورزمانہ تصنیف سیرت النبی کی چھ جلدیں ترتیب سے رکھی تھیں ۔ مجھے انہوں نے اپنا شعری مجموعہ چاندچہرہ ستارہ آنکھیں بھی دیا، میں ان کی شخصیت سے بہت متاثرہوا، دل نہیں کررہا تھا کہ ان کے پاس سے اٹھوں لیکن انھیں اسی رات ایک مشاعرہ میں جاناتھا چنانچہ مجھے اپنی کارمیں راستے میں ڈراپ کیا ۔گھرآکرمیں نے والدسے عبیداللہ علیم کی بہت تعریف کی توتائید کرتے ہوئے کہا علیم صاحب بہت وضعدار، رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں ۔میں نے والد سے ضدکی کہ مجھے بھی شبلی نعمانی کی سیرت النبی کی چھ جلدیں چاہیئں جو ایک ماہ بعد انھوں نے اردوبازارسے خرید کردیں ۔
ذکر چونکہ ذکاالرحمان کاآہی گیاہے توان کاایک مشہورناول تھا جواب یاد نہیں آرہا، اتنا خشک اوربور ناول تھا کہ مجھ جیسا کتابی کیڑا بھی کوشش کے باوجود چند صفحات سے زیادہ نہ پڑھ سکا، بیس سال تک وہ ناول میرے بک شیلف میں پڑا رہا لیکن پڑھنے کاحوصلہ نہ ہوا، تیس سال پہلے پی ٹی وی پران کا ایک ڈراما چلاتھا جس میں خالدہ ریاست اورطلعت حسین نےمرکزی کرداراداکیا تھا، وہ ڈراما ایک ریلوے سٹیشن کے ویٹنگ روم میں فلمایاگیااوروہیں ختم ہوگیا،پورے ڈرامے میں طویل طویل خاموش سین اور گھڑی کی ٹک ٹک ۔
چالیس سال بعد:
سرورسکھیرا، دھنک لاہور سے فیس بک فرینڈشپ ہوگئی ، وہ کینیڈا اپنے بیٹے کےپاس ہوتے تھے ، چونکہ فارغ تھے تواکثرمجھ سے اکثرچیٹ کرتے ، ( اب دوست نہیں کیونکہ میرے سیاسی اور پنجابی نیشنلزم کے نظریات سے کچھ خائف لگتے تھے اس لئے پاکستان واپسی پر مجھے ان فرینڈ کرگئے ) ،
ایک دن سرورسکھیرا جی سے چیٹ میں ذکاالرحمان کا ذکرنکلاتووہ بولے لاہور ہی ہوتاہےاورمیراجگرہے، زمانے بھرکے کرایم کرنے کےبعدوہ میری چارپائی کے نیچے چھپ جاتاہے تویوں معلوم ہواکہ زکاالرحمان کراچی سے لاہورشفٹ ہوچکے ، ویسے بھی ان کا آبائی تعلق ہارون آباد ضلع بہاولنگرسے تھا ،میری بھی زکاالرحمان سے فیس بک فرینڈشپ ہوگئی ، کبھی کبھی والدکے حوالے سے بات بھی ہوتی، ایک دن سرورسکھیرا صاحب نے اطلاع دی کہ زکاالرحمان میرایاراس دنیا میں مجھے اکیلا چھوڑکررخصت ہوگیا ۔

اردوکے ایک بڑے شاعرعبیداللہ علیم کی چند دن پہلے برسی تھی تواس حوالےسے میرے ذہن پریادوں کے کچھ نقوش ابھرآئے ۔عبیداللہ علیم سے میرےوالدکی دوستی تھی،اس زمانےمیں میرےوالدکراچی میں مختلف ڈایجسٹوں سے بحیثیت مدیروابستہ رہے جن میں زاہد حناکاعالمی ڈائجسٹ، ایچ اقبال کا الف لیلہ وغیرہ شامل تھے ۔ اس زمانےمیں عبیداللہ علیم ،ذکاالرحمان (ناول نگار،ڈراما نگار) ایک ادبی اورآرٹ میگزین نکالتے تھے جوسرورسکھیراکے دھنک لاہورجیسا ہوتا تھا۔
میں سکول میں زیرتعلیم تھا لیکن علمی ادبی ناول ، شاعری اوراخبارات پڑھنےکاشوق تواس حوالے سےسب کو جانتا توتھا لیکن والد کی وجہ سے کئی شاعروں اورادیبوں سے اب بالمشافہ ملاقات بھی ہوجاتی۔ یادآیا عبیداللہ علیم الہلال سوسائیٹی کراچی میں رہائش پذیرتھے اوراگلی گلی میں ذکاالرحمان کا گھرتھا ، مشہورصحافی انورسن رائےاسی میگزین میں ہوتے تھے ، انورسن رائے بعدازاں جنگ ، نوائے وقت میں سئینرصحافی رہےاور پبلک اخبارکے ایگزیکٹوایڈیٹربھی بعدازاں بی بی سی لندن چلے گئے، ریٹایرمنٹ بعدکراچی واپس چلے گئے ۔ پچھلی پاکستان وزٹ میں ڈی ایچ اے کراچی ان کے بنگلے پرملاقات ہوئی ، کافی کمزورلگ رہے تھے ۔مجھے یادہے کہ انورسن رائے ہمارے گھرآتے تونیلی جینزاورسفیدکرتا پہناہوتا، ایک ہاتھ میں سگریٹ اوردوسرے ہاتھ میں لینن کی سرخ کتاب ہوتی ، بڑے انقلابی خٰیالات اور خوبصورت جوان تھے ۔مجھ سے ہمیشہ پنجابی میں بات کرتے ۔
ذکرہورہا تھا عبیداللہ علیم کاتوایک دن والد نے ضروری کام سے ان کے پاس بھیجا۔ جس نفاست اور محبت سے ملے ذہن پر اس کے نقش اج بھی گہرے ہیں ۔آٹھویں جماعت کا سٹوڈنٹ تھا لیکن انھوں نے بڑی تمیزاوراخلاق سے میرانام لیا۔ ہربات پر آداب اور شکریہ کہتے ،حیرت سے ان کا چہرہ دیکھتا، گھربھی آرٹسٹک ذوق کی منہ بولتی تصویر، ان کی بیگم نگارکراچی یونیورسٹی میں لیکچراراور خود پی ٹٰی وی میں پروڈیوسر، اس وقت پی ٹی وی پروڈیوسر بہت اہم شخصیت شمارہوتاتھا ، بڑے بڑے فنکارسلام کرتے رہتے ، عبیدعلیم گہرے اثرورسوخ کےمالک تھے ، سوسائیٹی میں بڑی عزت ،گورا رنگ اورلمبی زلفیں ، مذہبی رجحانات تھے دیگرشعرا کی طرح دہریت کی طرف جھکاؤ نہ تھا ، ان کے بک شیلف میں مولانا شبلی نعمانی کی مشہورزمانہ تصنیف سیرت النبی کی چھ جلدیں ترتیب سے رکھی تھیں ۔ مجھے انہوں نے اپنا شعری مجموعہ چاندچہرہ ستارہ آنکھیں بھی دیا، میں ان کی شخصیت سے بہت متاثرہوا، دل نہیں کررہا تھا کہ ان کے پاس سے اٹھوں لیکن انھیں اسی رات ایک مشاعرہ میں جاناتھا چنانچہ مجھے اپنی کارمیں راستے میں ڈراپ کیا ۔گھرآکرمیں نے والدسے عبیداللہ علیم کی بہت تعریف کی توتائید کرتے ہوئے کہا علیم صاحب بہت وضعدار، رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں ۔میں نے والد سے ضدکی کہ مجھے بھی شبلی نعمانی کی سیرت النبی کی چھ جلدیں چاہیئں جو ایک ماہ بعد انھوں نے اردوبازارسے خرید کردیں ۔
ذکر چونکہ ذکاالرحمان کاآہی گیاہے توان کاایک مشہورناول تھا جواب یاد نہیں آرہا، اتنا خشک اوربور ناول تھا کہ مجھ جیسا کتابی کیڑا بھی کوشش کے باوجود چند صفحات سے زیادہ نہ پڑھ سکا، بیس سال تک وہ ناول میرے بک شیلف میں پڑا رہا لیکن پڑھنے کاحوصلہ نہ ہوا، تیس سال پہلے پی ٹی وی پران کا ایک ڈراما چلاتھا جس میں خالدہ ریاست اورطلعت حسین نےمرکزی کرداراداکیا تھا، وہ ڈراما ایک ریلوے سٹیشن کے ویٹنگ روم میں فلمایاگیااوروہیں ختم ہوگیا،پورے ڈرامے میں طویل طویل خاموش سین اور گھڑی کی ٹک ٹک ۔
چالیس سال بعد:
سرورسکھیرا، دھنک لاہور سے فیس بک فرینڈشپ ہوگئی ، وہ کینیڈا اپنے بیٹے کےپاس ہوتے تھے ، چونکہ فارغ تھے تواکثرمجھ سے اکثرچیٹ کرتے ، ( اب دوست نہیں کیونکہ میرے سیاسی اور پنجابی نیشنلزم کے نظریات سے کچھ خائف لگتے تھے اس لئے پاکستان واپسی پر مجھے ان فرینڈ کرگئے ) ،
ایک دن سرورسکھیرا جی سے چیٹ میں ذکاالرحمان کا ذکرنکلاتووہ بولے لاہور ہی ہوتاہےاورمیراجگرہے، زمانے بھرکے کرایم کرنے کےبعدوہ میری چارپائی کے نیچے چھپ جاتاہے تویوں معلوم ہواکہ زکاالرحمان کراچی سے لاہورشفٹ ہوچکے ، ویسے بھی ان کا آبائی تعلق ہارون آباد ضلع بہاولنگرسے تھا ،میری بھی زکاالرحمان سے فیس بک فرینڈشپ ہوگئی ، کبھی کبھی والدکے حوالے سے بات بھی ہوتی، ایک دن سرورسکھیرا صاحب نے اطلاع دی کہ زکاالرحمان میرایاراس دنیا میں مجھے اکیلا چھوڑکررخصت ہوگیا ۔

اردوکے ایک بڑے شاعرعبیداللہ علیم کی چند دن پہلے برسی تھی تواس حوالےسے میرے ذہن پریادوں کے کچھ نقوش ابھرآئے ۔عبیداللہ علیم سے میرےوالدکی دوستی تھی،اس زمانےمیں میرےوالدکراچی میں مختلف ڈایجسٹوں سے بحیثیت مدیروابستہ رہے جن میں زاہد حناکاعالمی ڈائجسٹ، ایچ اقبال کا الف لیلہ وغیرہ شامل تھے ۔ اس زمانےمیں عبیداللہ علیم ،ذکاالرحمان (ناول نگار،ڈراما نگار) ایک ادبی اورآرٹ میگزین نکالتے تھے جوسرورسکھیراکے دھنک لاہورجیسا ہوتا تھا۔
میں سکول میں زیرتعلیم تھا لیکن علمی ادبی ناول ، شاعری اوراخبارات پڑھنےکاشوق تواس حوالے سےسب کو جانتا توتھا لیکن والد کی وجہ سے کئی شاعروں اورادیبوں سے اب بالمشافہ ملاقات بھی ہوجاتی۔ یادآیا عبیداللہ علیم الہلال سوسائیٹی کراچی میں رہائش پذیرتھے اوراگلی گلی میں ذکاالرحمان کا گھرتھا ، مشہورصحافی انورسن رائےاسی میگزین میں ہوتے تھے ، انورسن رائے بعدازاں جنگ ، نوائے وقت میں سئینرصحافی رہےاور پبلک اخبارکے ایگزیکٹوایڈیٹربھی بعدازاں بی بی سی لندن چلے گئے، ریٹایرمنٹ بعدکراچی واپس چلے گئے ۔ پچھلی پاکستان وزٹ میں ڈی ایچ اے کراچی ان کے بنگلے پرملاقات ہوئی ، کافی کمزورلگ رہے تھے ۔مجھے یادہے کہ انورسن رائے ہمارے گھرآتے تونیلی جینزاورسفیدکرتا پہناہوتا، ایک ہاتھ میں سگریٹ اوردوسرے ہاتھ میں لینن کی سرخ کتاب ہوتی ، بڑے انقلابی خٰیالات اور خوبصورت جوان تھے ۔مجھ سے ہمیشہ پنجابی میں بات کرتے ۔
ذکرہورہا تھا عبیداللہ علیم کاتوایک دن والد نے ضروری کام سے ان کے پاس بھیجا۔ جس نفاست اور محبت سے ملے ذہن پر اس کے نقش اج بھی گہرے ہیں ۔آٹھویں جماعت کا سٹوڈنٹ تھا لیکن انھوں نے بڑی تمیزاوراخلاق سے میرانام لیا۔ ہربات پر آداب اور شکریہ کہتے ،حیرت سے ان کا چہرہ دیکھتا، گھربھی آرٹسٹک ذوق کی منہ بولتی تصویر، ان کی بیگم نگارکراچی یونیورسٹی میں لیکچراراور خود پی ٹٰی وی میں پروڈیوسر، اس وقت پی ٹی وی پروڈیوسر بہت اہم شخصیت شمارہوتاتھا ، بڑے بڑے فنکارسلام کرتے رہتے ، عبیدعلیم گہرے اثرورسوخ کےمالک تھے ، سوسائیٹی میں بڑی عزت ،گورا رنگ اورلمبی زلفیں ، مذہبی رجحانات تھے دیگرشعرا کی طرح دہریت کی طرف جھکاؤ نہ تھا ، ان کے بک شیلف میں مولانا شبلی نعمانی کی مشہورزمانہ تصنیف سیرت النبی کی چھ جلدیں ترتیب سے رکھی تھیں ۔ مجھے انہوں نے اپنا شعری مجموعہ چاندچہرہ ستارہ آنکھیں بھی دیا، میں ان کی شخصیت سے بہت متاثرہوا، دل نہیں کررہا تھا کہ ان کے پاس سے اٹھوں لیکن انھیں اسی رات ایک مشاعرہ میں جاناتھا چنانچہ مجھے اپنی کارمیں راستے میں ڈراپ کیا ۔گھرآکرمیں نے والدسے عبیداللہ علیم کی بہت تعریف کی توتائید کرتے ہوئے کہا علیم صاحب بہت وضعدار، رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں ۔میں نے والد سے ضدکی کہ مجھے بھی شبلی نعمانی کی سیرت النبی کی چھ جلدیں چاہیئں جو ایک ماہ بعد انھوں نے اردوبازارسے خرید کردیں ۔
ذکر چونکہ ذکاالرحمان کاآہی گیاہے توان کاایک مشہورناول تھا جواب یاد نہیں آرہا، اتنا خشک اوربور ناول تھا کہ مجھ جیسا کتابی کیڑا بھی کوشش کے باوجود چند صفحات سے زیادہ نہ پڑھ سکا، بیس سال تک وہ ناول میرے بک شیلف میں پڑا رہا لیکن پڑھنے کاحوصلہ نہ ہوا، تیس سال پہلے پی ٹی وی پران کا ایک ڈراما چلاتھا جس میں خالدہ ریاست اورطلعت حسین نےمرکزی کرداراداکیا تھا، وہ ڈراما ایک ریلوے سٹیشن کے ویٹنگ روم میں فلمایاگیااوروہیں ختم ہوگیا،پورے ڈرامے میں طویل طویل خاموش سین اور گھڑی کی ٹک ٹک ۔
چالیس سال بعد:
سرورسکھیرا، دھنک لاہور سے فیس بک فرینڈشپ ہوگئی ، وہ کینیڈا اپنے بیٹے کےپاس ہوتے تھے ، چونکہ فارغ تھے تواکثرمجھ سے اکثرچیٹ کرتے ، ( اب دوست نہیں کیونکہ میرے سیاسی اور پنجابی نیشنلزم کے نظریات سے کچھ خائف لگتے تھے اس لئے پاکستان واپسی پر مجھے ان فرینڈ کرگئے ) ،
ایک دن سرورسکھیرا جی سے چیٹ میں ذکاالرحمان کا ذکرنکلاتووہ بولے لاہور ہی ہوتاہےاورمیراجگرہے، زمانے بھرکے کرایم کرنے کےبعدوہ میری چارپائی کے نیچے چھپ جاتاہے تویوں معلوم ہواکہ زکاالرحمان کراچی سے لاہورشفٹ ہوچکے ، ویسے بھی ان کا آبائی تعلق ہارون آباد ضلع بہاولنگرسے تھا ،میری بھی زکاالرحمان سے فیس بک فرینڈشپ ہوگئی ، کبھی کبھی والدکے حوالے سے بات بھی ہوتی، ایک دن سرورسکھیرا صاحب نے اطلاع دی کہ زکاالرحمان میرایاراس دنیا میں مجھے اکیلا چھوڑکررخصت ہوگیا ۔