Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
#میری ڈائری سے انتخاب!
#میں Seshaprasad کا گھر چھوڑ کر اپنے دوستوں کے ساتھ ایک دو منزلہ مکان میں آ کر رھنے لگا۔۔ گراؤنڈ فلور پر مالک مکان رہتے تھے اور پہلی منزل پر ھم چار دوست رہتے تھے۔ یہ مکان بس اسٹاپ ، اسٹیشن ، ھمارے کالج اور مارکیٹ سے کافی دور تھا۔ اس مکان کی واحد خوبی یہ تھی کہ اس کا کرایہ نسبتاً کم تھا۔ اسی لیے ھم چاروں کو یہ مکان بہت سوٹ کرتا تھا۔
#ھم چاروں کی مالی حالت کم وبیش ایک جیسی تھی۔ سب یہ سوچ کر آۓ تھے کہ job بھی کریں گے اور تعلیم بھی حاصل کریں گے۔ اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے۔
#ھم صبح یونیورسٹی جاتے اور واپسی پر سب انفرادی طور پر ملازمت کی تلاش میں نکل جاتے اور شام کوواپس گھر پہنچ کر اپنی اپنی روداد سناتے۔ #Rockhampton ایک بہت چھوٹا شھر تھا۔اس کی آبادی تقریباً 60ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ایک طرف ھمارے پاس job نہ تھی اور دوسری طرف ھمارے پیسے ختم ھوتے جا رھے تھے۔ میں اس قدر پریشان تھا کہ میں کلاسز مس کر کے بھی Job ڈھونڈنے نکل جاتا۔ پورا شھر چھان مارا لیکن ایک گھنٹہ کی job بھی نہ ملی۔ مالی حالات اتنے خراب ھو گۓ کہ ھم نے کھانا پینا بہت کم کر دیا۔
#میں سب کے لیے روزانہ صبح ناشتے میں آلو کےپراٹھے بناتا اور پھر شام میں ھم چاۓ کے ساتھ روٹی کھاتے۔ کوشش ھوتی کہ جتنا ممکن ھو پیسے بچائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ دن چل سکیں۔ کالج کے کیفے ٹیریا میں اسٹوڈنٹس کو کھانے پینے کی اشیاء خریدتے دیکھتا تو بہت دل للچاتا لیکن پیسے نہ ھونے کی وجہ سے کچھ بھی نہ خرید سکتا تھا۔ اور بہت افسردہ محسوس کرتا۔اس قسم کے حالات کا نہ تو کبھی سامنا کیا تھا اور نہ ہی توقع تھی۔ ھندو فیملی کو اس بات کا اندازہ اس وقت ھوا جب انھیں پتہ چلا کہ میں اپنی کلاسز مس کر کے روزانہ job کی تلاش میں نکل جاتا ھوں۔ جب مالی حالات بہت زیادہ سنگین ھو گۓ تو میں نے Seshprasad کو سب کچھ بتا دیا۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے اپنا ٹرانسفر Sydney کے کسی کالج میں کروا لینا چاھیے۔ اور carrieer Business college میں انہوں نے میرا انرولمنٹ کروا دیا۔ اور مجھے کہا کہ کالج کونسلر کو جا کر کہو کہ آپ کو انگلش میں مسئلہ ھو رہا ھے۔ اس طرح وہ آپ کی آدھی فیس بھی واپس کر دے گی اور آپ کا ویزا بھی کینسل نہیں ھو گا۔
#میں نے ایسا ھی کیا اور کونسلر کو بتایا کہ مجھے انگلش کا ایڈوانس کورس کرنا ھے کیونکہ مجھے لیکچر بالکل بھی سمجھ نہیں آتے۔ اور یوں کونسلر نے آدھی فیس یعنی 2 ہزار ڈالر میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیے۔
#لکشمی نے مجھے بتایا کہ ان کا بھایئ سریش اپنی فیملی کے ساتھ سڈنی میں رہتا ھے اور وہ میری ہر طرح سے مدد کرے گا۔
#باقی دوستوں کی بھی یہی راۓ تھی کہ میں سڈنی جا کر ان لوگوں کے لیے بھی رہائش کا بندوبست کروں۔
لکشمی نے اپنے بھائی کو فون پر ہدایات دے دیں۔ اور میں نے Sydney جانے کی تیاری کر لی۔
#مجھے ان سب حالات کا اندازہ نہیں تھا اور نہ ہی میں ان حالات کے لیے تیار تھا۔بس حالات کے بہاؤ کے ساتھ چلتا جا رہا تھا۔ گھر میں فون کرتا تو اپنے حالات کا بالکل بھی تذکرہ نہ کرتا کیونکہ گھر سے پیسے آنا ناممکن تھا۔ بلکہ مجھے پڑھنا تھا، job کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے تھے اور اس کے ساتھ کچھ پیسے پاکستان بھی بھیجنا تھے۔ اور Rockhampton میں رہتے ھوۓ یہ سب کچھ نا ممکن تھا۔ خیر دوستوں نے مجھے اس وعدے کے ساتھ ٹرین پر سوار کروا دیا کہ میں سڈنی پہنچ کر ان کے لیے بھی رہائش کا بندوبست کروں گا۔Rockhampton اور Sydney کے درمیان 22 گھنٹے کا ٹرین کا سفر تھا۔مجھے سڈنی کے علاقے Kogarah کے اسٹیشن پر اترنا تھا۔ جہاں لکشمی کا بھائ سریش اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پزیر تھا۔
#ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد میں Kogarah اسٹیشن پہنچا۔ٹرین سے اتر کر میں نے ٹیکسی لی۔ ٹیکسی ڈرائیور کو پتہ دکھایا۔ دس منٹ گھمانے کے بعد اس نے ٹیکسی ایک اپارٹمنٹ کے سامنےروک کر بتایا کہ اس بلڈنگ کے دوسرے فلور پر آپ کو جانا ھے۔
#کرایہ دے کر میں اس بلڈنگ کے اندر داخل ھو گیا۔ دوسری منزل پر پہنچ کر گھنٹی بجائ تو فلیٹ کے اندر سے ایک لمبا تڑنگا شخص نکلا، اس نے بہت گرمجوشی سے مجھے خوش آمدید کہااور اندر لے گیا۔ اس نے سامنے کھڑی خاتون سے تعارف کرواتے ھوۓ بتایا کہ وہ اس کی بیوی نرملا ھے۔
#یہاں بھی میرے لیے ایک فرنشڈ کمرے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اسی طرح انھوں نے میرے لیے کھانے کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔ دال، سبزی اور چکن کے سالن تھے۔ ھم نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔ انہوں نے مجھے کہا، آپ طویل سفر سے آۓ ھیں، اب آپ آرام کریں۔کل صبح ھم ملتے ھیں۔ انھوں نے بتا دیا کہ کمرے میں فریج موجود ھے۔ پانی یا جوس چاہیۓ ھو تو لے لیجیے گا۔ یہ کہہ کر وہ دونوں اپنے کمرے میں چلے گۓ۔
#میں بھی بستر پر لیٹ گیا۔ اور کراچی، سنگا پور ، Rockhampton ، کالج اور پھر Sydney تک کے واقعات میرے ذہن میں گھومنے لگے۔ اور میری آنکھ لگ گئی۔
جاری
#میری ڈائری سے انتخاب!
#میں Seshaprasad کا گھر چھوڑ کر اپنے دوستوں کے ساتھ ایک دو منزلہ مکان میں آ کر رھنے لگا۔۔ گراؤنڈ فلور پر مالک مکان رہتے تھے اور پہلی منزل پر ھم چار دوست رہتے تھے۔ یہ مکان بس اسٹاپ ، اسٹیشن ، ھمارے کالج اور مارکیٹ سے کافی دور تھا۔ اس مکان کی واحد خوبی یہ تھی کہ اس کا کرایہ نسبتاً کم تھا۔ اسی لیے ھم چاروں کو یہ مکان بہت سوٹ کرتا تھا۔
#ھم چاروں کی مالی حالت کم وبیش ایک جیسی تھی۔ سب یہ سوچ کر آۓ تھے کہ job بھی کریں گے اور تعلیم بھی حاصل کریں گے۔ اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے۔
#ھم صبح یونیورسٹی جاتے اور واپسی پر سب انفرادی طور پر ملازمت کی تلاش میں نکل جاتے اور شام کوواپس گھر پہنچ کر اپنی اپنی روداد سناتے۔ #Rockhampton ایک بہت چھوٹا شھر تھا۔اس کی آبادی تقریباً 60ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ایک طرف ھمارے پاس job نہ تھی اور دوسری طرف ھمارے پیسے ختم ھوتے جا رھے تھے۔ میں اس قدر پریشان تھا کہ میں کلاسز مس کر کے بھی Job ڈھونڈنے نکل جاتا۔ پورا شھر چھان مارا لیکن ایک گھنٹہ کی job بھی نہ ملی۔ مالی حالات اتنے خراب ھو گۓ کہ ھم نے کھانا پینا بہت کم کر دیا۔
#میں سب کے لیے روزانہ صبح ناشتے میں آلو کےپراٹھے بناتا اور پھر شام میں ھم چاۓ کے ساتھ روٹی کھاتے۔ کوشش ھوتی کہ جتنا ممکن ھو پیسے بچائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ دن چل سکیں۔ کالج کے کیفے ٹیریا میں اسٹوڈنٹس کو کھانے پینے کی اشیاء خریدتے دیکھتا تو بہت دل للچاتا لیکن پیسے نہ ھونے کی وجہ سے کچھ بھی نہ خرید سکتا تھا۔ اور بہت افسردہ محسوس کرتا۔اس قسم کے حالات کا نہ تو کبھی سامنا کیا تھا اور نہ ہی توقع تھی۔ ھندو فیملی کو اس بات کا اندازہ اس وقت ھوا جب انھیں پتہ چلا کہ میں اپنی کلاسز مس کر کے روزانہ job کی تلاش میں نکل جاتا ھوں۔ جب مالی حالات بہت زیادہ سنگین ھو گۓ تو میں نے Seshprasad کو سب کچھ بتا دیا۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے اپنا ٹرانسفر Sydney کے کسی کالج میں کروا لینا چاھیے۔ اور carrieer Business college میں انہوں نے میرا انرولمنٹ کروا دیا۔ اور مجھے کہا کہ کالج کونسلر کو جا کر کہو کہ آپ کو انگلش میں مسئلہ ھو رہا ھے۔ اس طرح وہ آپ کی آدھی فیس بھی واپس کر دے گی اور آپ کا ویزا بھی کینسل نہیں ھو گا۔
#میں نے ایسا ھی کیا اور کونسلر کو بتایا کہ مجھے انگلش کا ایڈوانس کورس کرنا ھے کیونکہ مجھے لیکچر بالکل بھی سمجھ نہیں آتے۔ اور یوں کونسلر نے آدھی فیس یعنی 2 ہزار ڈالر میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیے۔
#لکشمی نے مجھے بتایا کہ ان کا بھایئ سریش اپنی فیملی کے ساتھ سڈنی میں رہتا ھے اور وہ میری ہر طرح سے مدد کرے گا۔
#باقی دوستوں کی بھی یہی راۓ تھی کہ میں سڈنی جا کر ان لوگوں کے لیے بھی رہائش کا بندوبست کروں۔
لکشمی نے اپنے بھائی کو فون پر ہدایات دے دیں۔ اور میں نے Sydney جانے کی تیاری کر لی۔
#مجھے ان سب حالات کا اندازہ نہیں تھا اور نہ ہی میں ان حالات کے لیے تیار تھا۔بس حالات کے بہاؤ کے ساتھ چلتا جا رہا تھا۔ گھر میں فون کرتا تو اپنے حالات کا بالکل بھی تذکرہ نہ کرتا کیونکہ گھر سے پیسے آنا ناممکن تھا۔ بلکہ مجھے پڑھنا تھا، job کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے تھے اور اس کے ساتھ کچھ پیسے پاکستان بھی بھیجنا تھے۔ اور Rockhampton میں رہتے ھوۓ یہ سب کچھ نا ممکن تھا۔ خیر دوستوں نے مجھے اس وعدے کے ساتھ ٹرین پر سوار کروا دیا کہ میں سڈنی پہنچ کر ان کے لیے بھی رہائش کا بندوبست کروں گا۔Rockhampton اور Sydney کے درمیان 22 گھنٹے کا ٹرین کا سفر تھا۔مجھے سڈنی کے علاقے Kogarah کے اسٹیشن پر اترنا تھا۔ جہاں لکشمی کا بھائ سریش اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پزیر تھا۔
#ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد میں Kogarah اسٹیشن پہنچا۔ٹرین سے اتر کر میں نے ٹیکسی لی۔ ٹیکسی ڈرائیور کو پتہ دکھایا۔ دس منٹ گھمانے کے بعد اس نے ٹیکسی ایک اپارٹمنٹ کے سامنےروک کر بتایا کہ اس بلڈنگ کے دوسرے فلور پر آپ کو جانا ھے۔
#کرایہ دے کر میں اس بلڈنگ کے اندر داخل ھو گیا۔ دوسری منزل پر پہنچ کر گھنٹی بجائ تو فلیٹ کے اندر سے ایک لمبا تڑنگا شخص نکلا، اس نے بہت گرمجوشی سے مجھے خوش آمدید کہااور اندر لے گیا۔ اس نے سامنے کھڑی خاتون سے تعارف کرواتے ھوۓ بتایا کہ وہ اس کی بیوی نرملا ھے۔
#یہاں بھی میرے لیے ایک فرنشڈ کمرے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اسی طرح انھوں نے میرے لیے کھانے کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔ دال، سبزی اور چکن کے سالن تھے۔ ھم نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔ انہوں نے مجھے کہا، آپ طویل سفر سے آۓ ھیں، اب آپ آرام کریں۔کل صبح ھم ملتے ھیں۔ انھوں نے بتا دیا کہ کمرے میں فریج موجود ھے۔ پانی یا جوس چاہیۓ ھو تو لے لیجیے گا۔ یہ کہہ کر وہ دونوں اپنے کمرے میں چلے گۓ۔
#میں بھی بستر پر لیٹ گیا۔ اور کراچی، سنگا پور ، Rockhampton ، کالج اور پھر Sydney تک کے واقعات میرے ذہن میں گھومنے لگے۔ اور میری آنکھ لگ گئی۔
جاری