Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ابھی ابھی محمود وارہ کا فون آیاتھا۔ بات کرتارورہاتھا ، کرب آوازمیں تھا ،دکھ سینےکوچیرتا ہوا ، محمود وارہ افغانی تاجک ہے ، کابل سے تعلق، تاجک کی زبان دری ہے جو فارسی ہے لیکن افغانستان اورتاجکستان میں دری کہلاتی ہے جیسے پنجابی سے سرایکی کولہجے کی بنیادپرالگ کیاگیاہے ویسے ہی کابل اور تاجکستان کی فارسی کو لہجے کی بنا پردری کا الگ سے بے ڈھب نام دے دیاگیا لیکن ہرتاجک اورکابل کا دری مانتا ہے کہ اصل زبان فارسی ہی ہے دری محض لوکل نام رکھ دیاگیا ہے۔
محمود وارہ کو افغانستان سے نکلے پچاس سال ہوچکے ، واپس کابل کبھی نہیں جاسکا ،ہوچھا تو بولا کوئی فیملی ممبرنہیں رہا ،مارے جاچکے ، پاکستان اور پھر یورپ امریکا شفٹ ہوچکے ، کابل اجنبی ہوچکا گو میری محبت ہے ، میں وارہ کا نوسٹیلجیا سمجھ رہا تھا، اس کے گہرے دکھ کو دل سے قریب محسوس کررہا تھا ۔ وہ بندہ جو کابل میں پیدا ہوا، بچپن گزارا ، سکول میں پڑھا پھراسے افغانستان چھوڑنا پڑا اور وہ ماں دھرتی اس کے لئے اجنبی ہوچکی ، اب وہ کھبی وہاں واپس نہیں جائے گا۔
محمود وارہ سے بات چیت تب ہوئی جب نیویارک کی سڑک پر بانسری بجاتے دیکھا ،وہ میوزک میں کھوچکا تھا ، اس پاس کھڑے بنگالی اور پاکستانی اسے دیکھ رہے تھے ، پھر اسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا جہاں میں بھی موجودتھا، تعارف ہوا ، لنک نکل آئے ۔ پتہ چلا محمود وارہ کراچی میں بھی رہاہے ، افغانستان سے اس کا باپ سیدھا کراچی ایا تھا ، الکرم سکوئر میں رہائش ، سارا علاقہ دیکھا بھالا۔ وارہ خوش ہوا ، بولا میری شادی اورمیرا پہلا بچہ کراچی میں پیدا ہوا تھا ۔ وہ افغانستان کے پہلےکمیونسٹ صدرنورمحمد ترہ کی کو بھی جانتا تھا ، یاددلایا وارہ ،ترہ کی بھی کراچی کی اسی سبزی منڈی میں مزدور کے طورپر کام کرتارہا تو اس نے ہاں میں سرہلایا۔ محمود وارہ پھر امریکا اگیا ، ریگن کا دور تھا ، سوویت یونین کے صدر بریزنیف سے براہ راست جنگ چل رہی تھی، افغانیوں کو فراخدلی سے امیرکن ویزے اورامیگریشن ملی ۔ محمود وارہ نیویارک سٹی میں کولمبیا یونیورسٹی کے ایریا میں ایک فلیٹ میں رہتا تھا ۔اور اس کا ہمسایہ کون تھا ؟ نجیب ۔ محمود وارہ اور افغانستان کے لاسٹ صدر نجیب کی کئی ملاقائیں ، یادیں ،وہ آج بھی صدر نجیب کو یاد کرتا ہے ، لیکن نجیب کٹر کمیونسٹ تھا ۔ وہ افغانستان امریکا سے واپس چلا گیا اور آخری جنگ لڑتا ہوا مارا گیا ، نجیب کے بعد افغانستان پر طالبانی دہشت گردوں کا تسلط مکمل ہوگیا ۔
وارہ سے دریافت کیا کبھی کابل واپس جاؤ گے ، بولا چھوٹے ہوتے چھوڑ چکا ، جنم بھومی ہے ، یادیں ہیں لیکن اپنے شہرمیں اجنبی ہوچکا ، بچے امیرکا پیدا ہوئے وہ کچھ نہیں جانتے ، اب میں نیویارک میں مرکھپ جاؤں گا ۔ ایک اور انکشاف کرکے محمود وارہ نے حیران کردیا کہ طالبان اور داعش کے ساتھ جو فائٹر ہیں ان کو اسلام کا کچھ نہیں پتہ ، پہلا کلمہ بھی مشکل سے آتا ہے ، نبی محمد ﷽ کو بھی اتنا نہیں جانتے ، وہ صرف اپنے کمانڈر یا مولوی کوجانتے ہیں جو کہہ دے اس پر عمل کرتے ہیں جبکہ کمانڈر اور ملا کو رقم کہیں اور سے ملتی ہے ، محمود وارہ رورہا تھا کہ افغانی اپنی جہالت کی وجہ سے لڑرہے ہیں مذہب کی وجہ سے نہیں ، افغان مجاہدین ،طالبان یا داعش کو اسلام کا زیادہ پتہ نہیں ، ان کے کمانڈرز غیر ملکی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور پیسہ لےکر غیر ملکی طاقتوں کے عزائم ایسے پورے کرتے ہیں کہ ان پڑھ اموشنل نوجوانوں کو مزہب کے نام پر بھرتی کرکے لڑواتے ہیں جبکہ وہ نوجوان سادگی میں اپنی طرف سے اسلام کے لئے جانیں قربان کررہے ہوتے ہیں ۔ یعنی ان کو اسلام کا بھی نہں پتہ بس جو گاؤں کے ملا نے کسی کے اشارے پر بتادیا تو ان کا اسلام وہیں تک محدود ہے ، یاد ایا کہ میراں شاہ فاٹا اور پنجاب سے بھی ہزاروں لوگ جہاد کے لئے شام گئے تھے جو دراصل کئی ملکوں کی پراکسی وار تھی تو وہ اموشنل اور ان پڑھ لوگ بے چارے جنت کے چکر میں کتے کی موت مارے گئے ََ؟
محمود وارہ کا دکھ جانتا ہوں ، اسے ایرانی بارڈر کراس کرنے والے سترہ افغانیوں کی ہلاکت پر بھی دکھ تھا ، دس ہزار میل دور بیٹھا ہے اور چالیس سال افغانستان بھی نہیں گیا اور شاید زندگی میں کبھی جائے بھی نہیں لیکن اس کا دل اپنی ماں دھرتی کے لئے آج بھی روتا ہے ۔
ابھی ابھی محمود وارہ کا فون آیاتھا۔ بات کرتارورہاتھا ، کرب آوازمیں تھا ،دکھ سینےکوچیرتا ہوا ، محمود وارہ افغانی تاجک ہے ، کابل سے تعلق، تاجک کی زبان دری ہے جو فارسی ہے لیکن افغانستان اورتاجکستان میں دری کہلاتی ہے جیسے پنجابی سے سرایکی کولہجے کی بنیادپرالگ کیاگیاہے ویسے ہی کابل اور تاجکستان کی فارسی کو لہجے کی بنا پردری کا الگ سے بے ڈھب نام دے دیاگیا لیکن ہرتاجک اورکابل کا دری مانتا ہے کہ اصل زبان فارسی ہی ہے دری محض لوکل نام رکھ دیاگیا ہے۔
محمود وارہ کو افغانستان سے نکلے پچاس سال ہوچکے ، واپس کابل کبھی نہیں جاسکا ،ہوچھا تو بولا کوئی فیملی ممبرنہیں رہا ،مارے جاچکے ، پاکستان اور پھر یورپ امریکا شفٹ ہوچکے ، کابل اجنبی ہوچکا گو میری محبت ہے ، میں وارہ کا نوسٹیلجیا سمجھ رہا تھا، اس کے گہرے دکھ کو دل سے قریب محسوس کررہا تھا ۔ وہ بندہ جو کابل میں پیدا ہوا، بچپن گزارا ، سکول میں پڑھا پھراسے افغانستان چھوڑنا پڑا اور وہ ماں دھرتی اس کے لئے اجنبی ہوچکی ، اب وہ کھبی وہاں واپس نہیں جائے گا۔
محمود وارہ سے بات چیت تب ہوئی جب نیویارک کی سڑک پر بانسری بجاتے دیکھا ،وہ میوزک میں کھوچکا تھا ، اس پاس کھڑے بنگالی اور پاکستانی اسے دیکھ رہے تھے ، پھر اسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا جہاں میں بھی موجودتھا، تعارف ہوا ، لنک نکل آئے ۔ پتہ چلا محمود وارہ کراچی میں بھی رہاہے ، افغانستان سے اس کا باپ سیدھا کراچی ایا تھا ، الکرم سکوئر میں رہائش ، سارا علاقہ دیکھا بھالا۔ وارہ خوش ہوا ، بولا میری شادی اورمیرا پہلا بچہ کراچی میں پیدا ہوا تھا ۔ وہ افغانستان کے پہلےکمیونسٹ صدرنورمحمد ترہ کی کو بھی جانتا تھا ، یاددلایا وارہ ،ترہ کی بھی کراچی کی اسی سبزی منڈی میں مزدور کے طورپر کام کرتارہا تو اس نے ہاں میں سرہلایا۔ محمود وارہ پھر امریکا اگیا ، ریگن کا دور تھا ، سوویت یونین کے صدر بریزنیف سے براہ راست جنگ چل رہی تھی، افغانیوں کو فراخدلی سے امیرکن ویزے اورامیگریشن ملی ۔ محمود وارہ نیویارک سٹی میں کولمبیا یونیورسٹی کے ایریا میں ایک فلیٹ میں رہتا تھا ۔اور اس کا ہمسایہ کون تھا ؟ نجیب ۔ محمود وارہ اور افغانستان کے لاسٹ صدر نجیب کی کئی ملاقائیں ، یادیں ،وہ آج بھی صدر نجیب کو یاد کرتا ہے ، لیکن نجیب کٹر کمیونسٹ تھا ۔ وہ افغانستان امریکا سے واپس چلا گیا اور آخری جنگ لڑتا ہوا مارا گیا ، نجیب کے بعد افغانستان پر طالبانی دہشت گردوں کا تسلط مکمل ہوگیا ۔
وارہ سے دریافت کیا کبھی کابل واپس جاؤ گے ، بولا چھوٹے ہوتے چھوڑ چکا ، جنم بھومی ہے ، یادیں ہیں لیکن اپنے شہرمیں اجنبی ہوچکا ، بچے امیرکا پیدا ہوئے وہ کچھ نہیں جانتے ، اب میں نیویارک میں مرکھپ جاؤں گا ۔ ایک اور انکشاف کرکے محمود وارہ نے حیران کردیا کہ طالبان اور داعش کے ساتھ جو فائٹر ہیں ان کو اسلام کا کچھ نہیں پتہ ، پہلا کلمہ بھی مشکل سے آتا ہے ، نبی محمد ﷽ کو بھی اتنا نہیں جانتے ، وہ صرف اپنے کمانڈر یا مولوی کوجانتے ہیں جو کہہ دے اس پر عمل کرتے ہیں جبکہ کمانڈر اور ملا کو رقم کہیں اور سے ملتی ہے ، محمود وارہ رورہا تھا کہ افغانی اپنی جہالت کی وجہ سے لڑرہے ہیں مذہب کی وجہ سے نہیں ، افغان مجاہدین ،طالبان یا داعش کو اسلام کا زیادہ پتہ نہیں ، ان کے کمانڈرز غیر ملکی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور پیسہ لےکر غیر ملکی طاقتوں کے عزائم ایسے پورے کرتے ہیں کہ ان پڑھ اموشنل نوجوانوں کو مزہب کے نام پر بھرتی کرکے لڑواتے ہیں جبکہ وہ نوجوان سادگی میں اپنی طرف سے اسلام کے لئے جانیں قربان کررہے ہوتے ہیں ۔ یعنی ان کو اسلام کا بھی نہں پتہ بس جو گاؤں کے ملا نے کسی کے اشارے پر بتادیا تو ان کا اسلام وہیں تک محدود ہے ، یاد ایا کہ میراں شاہ فاٹا اور پنجاب سے بھی ہزاروں لوگ جہاد کے لئے شام گئے تھے جو دراصل کئی ملکوں کی پراکسی وار تھی تو وہ اموشنل اور ان پڑھ لوگ بے چارے جنت کے چکر میں کتے کی موت مارے گئے ََ؟
محمود وارہ کا دکھ جانتا ہوں ، اسے ایرانی بارڈر کراس کرنے والے سترہ افغانیوں کی ہلاکت پر بھی دکھ تھا ، دس ہزار میل دور بیٹھا ہے اور چالیس سال افغانستان بھی نہیں گیا اور شاید زندگی میں کبھی جائے بھی نہیں لیکن اس کا دل اپنی ماں دھرتی کے لئے آج بھی روتا ہے ۔
ابھی ابھی محمود وارہ کا فون آیاتھا۔ بات کرتارورہاتھا ، کرب آوازمیں تھا ،دکھ سینےکوچیرتا ہوا ، محمود وارہ افغانی تاجک ہے ، کابل سے تعلق، تاجک کی زبان دری ہے جو فارسی ہے لیکن افغانستان اورتاجکستان میں دری کہلاتی ہے جیسے پنجابی سے سرایکی کولہجے کی بنیادپرالگ کیاگیاہے ویسے ہی کابل اور تاجکستان کی فارسی کو لہجے کی بنا پردری کا الگ سے بے ڈھب نام دے دیاگیا لیکن ہرتاجک اورکابل کا دری مانتا ہے کہ اصل زبان فارسی ہی ہے دری محض لوکل نام رکھ دیاگیا ہے۔
محمود وارہ کو افغانستان سے نکلے پچاس سال ہوچکے ، واپس کابل کبھی نہیں جاسکا ،ہوچھا تو بولا کوئی فیملی ممبرنہیں رہا ،مارے جاچکے ، پاکستان اور پھر یورپ امریکا شفٹ ہوچکے ، کابل اجنبی ہوچکا گو میری محبت ہے ، میں وارہ کا نوسٹیلجیا سمجھ رہا تھا، اس کے گہرے دکھ کو دل سے قریب محسوس کررہا تھا ۔ وہ بندہ جو کابل میں پیدا ہوا، بچپن گزارا ، سکول میں پڑھا پھراسے افغانستان چھوڑنا پڑا اور وہ ماں دھرتی اس کے لئے اجنبی ہوچکی ، اب وہ کھبی وہاں واپس نہیں جائے گا۔
محمود وارہ سے بات چیت تب ہوئی جب نیویارک کی سڑک پر بانسری بجاتے دیکھا ،وہ میوزک میں کھوچکا تھا ، اس پاس کھڑے بنگالی اور پاکستانی اسے دیکھ رہے تھے ، پھر اسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا جہاں میں بھی موجودتھا، تعارف ہوا ، لنک نکل آئے ۔ پتہ چلا محمود وارہ کراچی میں بھی رہاہے ، افغانستان سے اس کا باپ سیدھا کراچی ایا تھا ، الکرم سکوئر میں رہائش ، سارا علاقہ دیکھا بھالا۔ وارہ خوش ہوا ، بولا میری شادی اورمیرا پہلا بچہ کراچی میں پیدا ہوا تھا ۔ وہ افغانستان کے پہلےکمیونسٹ صدرنورمحمد ترہ کی کو بھی جانتا تھا ، یاددلایا وارہ ،ترہ کی بھی کراچی کی اسی سبزی منڈی میں مزدور کے طورپر کام کرتارہا تو اس نے ہاں میں سرہلایا۔ محمود وارہ پھر امریکا اگیا ، ریگن کا دور تھا ، سوویت یونین کے صدر بریزنیف سے براہ راست جنگ چل رہی تھی، افغانیوں کو فراخدلی سے امیرکن ویزے اورامیگریشن ملی ۔ محمود وارہ نیویارک سٹی میں کولمبیا یونیورسٹی کے ایریا میں ایک فلیٹ میں رہتا تھا ۔اور اس کا ہمسایہ کون تھا ؟ نجیب ۔ محمود وارہ اور افغانستان کے لاسٹ صدر نجیب کی کئی ملاقائیں ، یادیں ،وہ آج بھی صدر نجیب کو یاد کرتا ہے ، لیکن نجیب کٹر کمیونسٹ تھا ۔ وہ افغانستان امریکا سے واپس چلا گیا اور آخری جنگ لڑتا ہوا مارا گیا ، نجیب کے بعد افغانستان پر طالبانی دہشت گردوں کا تسلط مکمل ہوگیا ۔
وارہ سے دریافت کیا کبھی کابل واپس جاؤ گے ، بولا چھوٹے ہوتے چھوڑ چکا ، جنم بھومی ہے ، یادیں ہیں لیکن اپنے شہرمیں اجنبی ہوچکا ، بچے امیرکا پیدا ہوئے وہ کچھ نہیں جانتے ، اب میں نیویارک میں مرکھپ جاؤں گا ۔ ایک اور انکشاف کرکے محمود وارہ نے حیران کردیا کہ طالبان اور داعش کے ساتھ جو فائٹر ہیں ان کو اسلام کا کچھ نہیں پتہ ، پہلا کلمہ بھی مشکل سے آتا ہے ، نبی محمد ﷽ کو بھی اتنا نہیں جانتے ، وہ صرف اپنے کمانڈر یا مولوی کوجانتے ہیں جو کہہ دے اس پر عمل کرتے ہیں جبکہ کمانڈر اور ملا کو رقم کہیں اور سے ملتی ہے ، محمود وارہ رورہا تھا کہ افغانی اپنی جہالت کی وجہ سے لڑرہے ہیں مذہب کی وجہ سے نہیں ، افغان مجاہدین ،طالبان یا داعش کو اسلام کا زیادہ پتہ نہیں ، ان کے کمانڈرز غیر ملکی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور پیسہ لےکر غیر ملکی طاقتوں کے عزائم ایسے پورے کرتے ہیں کہ ان پڑھ اموشنل نوجوانوں کو مزہب کے نام پر بھرتی کرکے لڑواتے ہیں جبکہ وہ نوجوان سادگی میں اپنی طرف سے اسلام کے لئے جانیں قربان کررہے ہوتے ہیں ۔ یعنی ان کو اسلام کا بھی نہں پتہ بس جو گاؤں کے ملا نے کسی کے اشارے پر بتادیا تو ان کا اسلام وہیں تک محدود ہے ، یاد ایا کہ میراں شاہ فاٹا اور پنجاب سے بھی ہزاروں لوگ جہاد کے لئے شام گئے تھے جو دراصل کئی ملکوں کی پراکسی وار تھی تو وہ اموشنل اور ان پڑھ لوگ بے چارے جنت کے چکر میں کتے کی موت مارے گئے ََ؟
محمود وارہ کا دکھ جانتا ہوں ، اسے ایرانی بارڈر کراس کرنے والے سترہ افغانیوں کی ہلاکت پر بھی دکھ تھا ، دس ہزار میل دور بیٹھا ہے اور چالیس سال افغانستان بھی نہیں گیا اور شاید زندگی میں کبھی جائے بھی نہیں لیکن اس کا دل اپنی ماں دھرتی کے لئے آج بھی روتا ہے ۔
ابھی ابھی محمود وارہ کا فون آیاتھا۔ بات کرتارورہاتھا ، کرب آوازمیں تھا ،دکھ سینےکوچیرتا ہوا ، محمود وارہ افغانی تاجک ہے ، کابل سے تعلق، تاجک کی زبان دری ہے جو فارسی ہے لیکن افغانستان اورتاجکستان میں دری کہلاتی ہے جیسے پنجابی سے سرایکی کولہجے کی بنیادپرالگ کیاگیاہے ویسے ہی کابل اور تاجکستان کی فارسی کو لہجے کی بنا پردری کا الگ سے بے ڈھب نام دے دیاگیا لیکن ہرتاجک اورکابل کا دری مانتا ہے کہ اصل زبان فارسی ہی ہے دری محض لوکل نام رکھ دیاگیا ہے۔
محمود وارہ کو افغانستان سے نکلے پچاس سال ہوچکے ، واپس کابل کبھی نہیں جاسکا ،ہوچھا تو بولا کوئی فیملی ممبرنہیں رہا ،مارے جاچکے ، پاکستان اور پھر یورپ امریکا شفٹ ہوچکے ، کابل اجنبی ہوچکا گو میری محبت ہے ، میں وارہ کا نوسٹیلجیا سمجھ رہا تھا، اس کے گہرے دکھ کو دل سے قریب محسوس کررہا تھا ۔ وہ بندہ جو کابل میں پیدا ہوا، بچپن گزارا ، سکول میں پڑھا پھراسے افغانستان چھوڑنا پڑا اور وہ ماں دھرتی اس کے لئے اجنبی ہوچکی ، اب وہ کھبی وہاں واپس نہیں جائے گا۔
محمود وارہ سے بات چیت تب ہوئی جب نیویارک کی سڑک پر بانسری بجاتے دیکھا ،وہ میوزک میں کھوچکا تھا ، اس پاس کھڑے بنگالی اور پاکستانی اسے دیکھ رہے تھے ، پھر اسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا جہاں میں بھی موجودتھا، تعارف ہوا ، لنک نکل آئے ۔ پتہ چلا محمود وارہ کراچی میں بھی رہاہے ، افغانستان سے اس کا باپ سیدھا کراچی ایا تھا ، الکرم سکوئر میں رہائش ، سارا علاقہ دیکھا بھالا۔ وارہ خوش ہوا ، بولا میری شادی اورمیرا پہلا بچہ کراچی میں پیدا ہوا تھا ۔ وہ افغانستان کے پہلےکمیونسٹ صدرنورمحمد ترہ کی کو بھی جانتا تھا ، یاددلایا وارہ ،ترہ کی بھی کراچی کی اسی سبزی منڈی میں مزدور کے طورپر کام کرتارہا تو اس نے ہاں میں سرہلایا۔ محمود وارہ پھر امریکا اگیا ، ریگن کا دور تھا ، سوویت یونین کے صدر بریزنیف سے براہ راست جنگ چل رہی تھی، افغانیوں کو فراخدلی سے امیرکن ویزے اورامیگریشن ملی ۔ محمود وارہ نیویارک سٹی میں کولمبیا یونیورسٹی کے ایریا میں ایک فلیٹ میں رہتا تھا ۔اور اس کا ہمسایہ کون تھا ؟ نجیب ۔ محمود وارہ اور افغانستان کے لاسٹ صدر نجیب کی کئی ملاقائیں ، یادیں ،وہ آج بھی صدر نجیب کو یاد کرتا ہے ، لیکن نجیب کٹر کمیونسٹ تھا ۔ وہ افغانستان امریکا سے واپس چلا گیا اور آخری جنگ لڑتا ہوا مارا گیا ، نجیب کے بعد افغانستان پر طالبانی دہشت گردوں کا تسلط مکمل ہوگیا ۔
وارہ سے دریافت کیا کبھی کابل واپس جاؤ گے ، بولا چھوٹے ہوتے چھوڑ چکا ، جنم بھومی ہے ، یادیں ہیں لیکن اپنے شہرمیں اجنبی ہوچکا ، بچے امیرکا پیدا ہوئے وہ کچھ نہیں جانتے ، اب میں نیویارک میں مرکھپ جاؤں گا ۔ ایک اور انکشاف کرکے محمود وارہ نے حیران کردیا کہ طالبان اور داعش کے ساتھ جو فائٹر ہیں ان کو اسلام کا کچھ نہیں پتہ ، پہلا کلمہ بھی مشکل سے آتا ہے ، نبی محمد ﷽ کو بھی اتنا نہیں جانتے ، وہ صرف اپنے کمانڈر یا مولوی کوجانتے ہیں جو کہہ دے اس پر عمل کرتے ہیں جبکہ کمانڈر اور ملا کو رقم کہیں اور سے ملتی ہے ، محمود وارہ رورہا تھا کہ افغانی اپنی جہالت کی وجہ سے لڑرہے ہیں مذہب کی وجہ سے نہیں ، افغان مجاہدین ،طالبان یا داعش کو اسلام کا زیادہ پتہ نہیں ، ان کے کمانڈرز غیر ملکی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور پیسہ لےکر غیر ملکی طاقتوں کے عزائم ایسے پورے کرتے ہیں کہ ان پڑھ اموشنل نوجوانوں کو مزہب کے نام پر بھرتی کرکے لڑواتے ہیں جبکہ وہ نوجوان سادگی میں اپنی طرف سے اسلام کے لئے جانیں قربان کررہے ہوتے ہیں ۔ یعنی ان کو اسلام کا بھی نہں پتہ بس جو گاؤں کے ملا نے کسی کے اشارے پر بتادیا تو ان کا اسلام وہیں تک محدود ہے ، یاد ایا کہ میراں شاہ فاٹا اور پنجاب سے بھی ہزاروں لوگ جہاد کے لئے شام گئے تھے جو دراصل کئی ملکوں کی پراکسی وار تھی تو وہ اموشنل اور ان پڑھ لوگ بے چارے جنت کے چکر میں کتے کی موت مارے گئے ََ؟
محمود وارہ کا دکھ جانتا ہوں ، اسے ایرانی بارڈر کراس کرنے والے سترہ افغانیوں کی ہلاکت پر بھی دکھ تھا ، دس ہزار میل دور بیٹھا ہے اور چالیس سال افغانستان بھی نہیں گیا اور شاید زندگی میں کبھی جائے بھی نہیں لیکن اس کا دل اپنی ماں دھرتی کے لئے آج بھی روتا ہے ۔