سکول کے گیٹ پر لوگوں کا کافی رش لگا ہوا تھا. ایک لمبی قطار دور سڑک تک جاپہنچی تھی. پولیس اور آرمی کے جوان لوگوں کو نطم وضبط اپنانے کی ہدایات دے رہے تھے. آرمی کی ایک بڑی گاڑی گلی کے نکڑ پر کھڑی تھی جس میں چار جوان ہاتھوں میں اسلحہ تھامے بڑے محتاط انداز سے بیٹھے تھے……… پولیس کے دو اہلکار منہ پر ماسک چڑھائے عوام کو آپس میں فاصلہ رکھنے کی بار بار تاکید کر رہے تھے…………
موسم میں تبدیلی بھی آج واضح محسوس ہورہی تھی. گرمی نے زور پکڑنا شروع کر دیا تھا، دھوپ میں زیادہ دیر کھڑے رہنے سے جسم تپنے لگا تھا……………
کافی لوگوں کا پسینہ بالوں سے نکل کر، کانوں کے پیچھے سے ہوتا ہواگردن تک جا پہنچا تھا، جس کو وہ بار بار ہاتھ میں پکڑے رومال سے صاف کر رہے تھے…….
کرم داد سرمئی رنگ کی کار سے اترتا، اور سکول کی دیوار کے سائے میں کھڑا ہو جاتا ہے،،، تھوڑی دیر بعد پکی عمر کے دو آدمی سر پر سفید رنگ کا صافہ باندھے سکول کی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں…. اور پھر سرمئی کار پر نظر پڑتے ہی…… ابے یار! گاڑی دیکھ، کیا لشکارے مار رہی ہے….. دوسرا شخص،، ہاں بھئی! نئی لگتی ہے، اور مہنگی بھی، انیس بیس لاکھ کی تو ہوگی کم از کم…. تمہیں کیسے پتا؟؟؟ پہلا شخص مخاطب ہوا…
دوسرا شخص،، لو کل ہی تو خریدی ہے، اپنے گاؤں کے نمبردار نے، ہو بہو ایسی ہی تو ہے بس رنگ سفید ہے اس کا. جیرا، بتا رہا تھا مجھے وہ جو نمبردار کے ہاں ملازم ہے………
… دور سے پولیس والا گاڑی کی طرف آتا ہے، او بھائی جی! یہاں گاڑی کھڑا کرنا منع ہے، آپ کو پتہ نہیں؟ کس کی گاڑی ہے یہ؟؟؟ گاڑی میں بیٹھے شخص سے مخاطب ہوتا ہے،جو پولیس والے کو دیکھتے ہی سہم جاتا ہے اور جلدی سے…….. چودھری صاحب کی گاڑی ہے، صاحب جی! میں تو ڈرائیور ہوں،اور ساتھ ہی ہاتھ کا اشارہ کرم داد کی طرف کرتا ہے جو سرکاری امداد وصول کرنے لائن میں لگ چکا تھا………….