آج ٹرین میں جارہاتھاتوساتھ والی سیٹ پرایک گوری اپنے دس سالہ لڑکےکےساتھ بیٹھی تھی، ماں بیٹاباتیں کررہےتھےجومیرےکانوں میں بھی پڑرہی تھیں۔ بچے نے اپنی ماں سے اسکےمذہب بارے میں سوالات کیے تو اس نے جواب دیا کہ بیٹا! اگرچہ میں کیتھولک فیملی سے تعلق رکھتی ہوں لیکن جب تم بڑےہو جاؤ گے تو تمھیں آزادی ہوگی کہ تم جس مذپب کو چاہو، اپنی مرضی سے اختیار کر لو، چاہے کیتھولک رہو یا پروٹسٹٹنٹ بنو۔ اگر چاہوتوکرسچین کی بجائے ہندو، مسلمان یابدھ مت بھی اختیار کرسکتے ہو یا خدا پر اعتقاد کے بغیر بھی زندگی گذارسکتے ہو تو ضرور گزارو ،میں تمہارے عقیدے کافیصلہ نہیں کرسکتی۔
میں نے دخل در معقولات پر معذرت کرتے ہوئے اس عورت سے بات کرنے کی جزات چاہی اور اسے مخاطب کر کے کہا کہ میم، آپ کا ذہن بہت اعلی ہے۔ میں سوچ رہاتھا کہ ہم اپنے ماحول کو کتنا تنگ نظر اور ناقابل برداشت بنادیتے ہیں کہ دوسروں کو کافر اور خود کو اعلی سمجھتے ہیں۔
ایک روز میں اسی طرح ٹرین سے اتر کرسڑک پر واک کرتا ہوا جارہا تھا کہ ایک پلے گراؤنڈ کے قریب سے گذرا۔ کھیل کے اس میدان میں دس پندرہ ٹین ایجر جوان لڑکے لڑکیاں دو تین گروپوں میں رگبی اور سوکر کھیل رہے تھے۔ اب ہمارے یہاں ہوتا ہے کہ جیسے ہی نوجوان لڑکے لڑکیاں کہیں اکٹھے ہوئے، لوگوں کی جنس کی رگ پھڑک اٹھتی ہے اور ٹھرک بازی شروع ہوجاتی ہے لیکن یہاں میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان نوجوانوں کی پوری توجہ کھیل پر مرکو ز تھی اور ان میں سے کسی میں بھی کوئی ٹھرک یا سیکسویل انداز نہ تھا ، لگتا ہی نہ تھا کہ لڑکی اور لڑکے میں کوئی فرق ہے۔ اس پر خیال آیا ،جب گھٹن نہ ہو اور لڑکی لڑکا برابر کے ماحول میں پروان چڑھیں توپھر جنسی گھٹن اور ٹھرک تو خود ہی ختم ہوجاتا ہے۔ یہ جنسی گھٹن ہی تو ہے کہ ہمارے ملک میں سات بچوں کے باپ بھی راہ چلتی عورتوں کو بھوکی نظروں سے تاکتے رہتے ہیں۔