Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مری کی بھولی بسری یادیں :
1990 کی بات ہے ، سردیوں کے دن تھے، مجھے کراچی سے اسلام آباد کسی کام سے جانا پڑا ، میں ان دنوں تعلیم سے فارغ التحصیل ہی ہوا تھا، سوچا جب اتنی دور آئے ہی ہیں تو کیوں نہ مری ہوتے جایئں ، پھر کہاں آنا ہوگا۔ کوچ میں مری پہنچا تو وہاں سردی کے باعث بزنس ماٹھا تھا خیر میں نے صرف ایک رات گذارنا تھی اور اگلے دن بائے ٹرین لاہور سے ہوتا ہوا کراچی چلے جانا تھا،
ایک ہوٹل میں قیام کیا اور بہت مناسب دام ، مینجر نوجوان مری کا ریائشی اور مجھ سے چند سال ہی بڑا تھا ، کہنے لگا سیزن میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایسا کمرہ اور یہ ہوٹل مل جائے ۔ رات کو سردی اور نو بجے ایسا لگا کہ رات ٹھہر گئی ، ہم بڑے شہروں کے عادی اور بات بھی پچیس سال پرانی۔ میں کمرہ سے نکلا کہ چلو مال روڈ کا چکر لگا آؤں ، اکا دکا لوگ ، واپس ہوٹل، مینجر گپی تھا اور ہیٹر سینک رہا تھ، ہم دونوں باتیں کرنے لگے تو اس نے اپنے تجربات بیان کرنا شروع کئے۔کہنے لگا یہ جو پنجابی ہیں ناں لھوراور گجرانوالے کے ان کی بدمعاشی میں خوب نکالتا ہوں۔میں نے کہا تو مری کا لوکل ہے اور مجھ سے پنجابی ہی میں بات کررہا ہے۔ اس نے میری بات نظر انداز کر کے پھر کہا کہ گجرانوالے کے دولڑکے ایک لڑکی کے ساتھ آئے ، کہایہ میرا بھائی اور یہ بیوی ہے ، دو کمرے لئے ۔
جب رات ہوئی تو میں جوڑے والے کمرے کی چھت میں سوراخ سے دیکھنے لگا ، مستی کررہے تھے۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ آہستہ سے بجا اور دوسرا لڑکا بھی آکر مستی میں شامل ہوگیا ،میں فوری کمرے پر پہنچا اور زور سے دروازہ پیٹا تو انہوں نے گھبرا کر دروازہ کھولا میں نے شور مچادیا تم لوگ عیاشی کررہے ہو تو اس نے کہا تلاشی لیکر دیکھ لو یہاں کوئی نہیں ۔
اندر جاکر چیک کیا تو دوسرے والا بیڈ کے نیچے چھپا ہواتھا ، میں نے پولیس کال کی دھمکی دی ، ڈر گئے ، اس کے بعد میں نے اپنی پیاس بجھائی ۔
مینجر مجھے بتانے لگا کہ ہم ہوٹل والے اکثر جوڑے کو پکڑ لیتے ہیں اور اپنا پورا مزا لیتے ہیں تو یہ ہے مری کہ صورت حال، اس لیے میں کہتا ہوں کہ Boycott Murree۔
مری کی بھولی بسری یادیں :
1990 کی بات ہے ، سردیوں کے دن تھے، مجھے کراچی سے اسلام آباد کسی کام سے جانا پڑا ، میں ان دنوں تعلیم سے فارغ التحصیل ہی ہوا تھا، سوچا جب اتنی دور آئے ہی ہیں تو کیوں نہ مری ہوتے جایئں ، پھر کہاں آنا ہوگا۔ کوچ میں مری پہنچا تو وہاں سردی کے باعث بزنس ماٹھا تھا خیر میں نے صرف ایک رات گذارنا تھی اور اگلے دن بائے ٹرین لاہور سے ہوتا ہوا کراچی چلے جانا تھا،
ایک ہوٹل میں قیام کیا اور بہت مناسب دام ، مینجر نوجوان مری کا ریائشی اور مجھ سے چند سال ہی بڑا تھا ، کہنے لگا سیزن میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایسا کمرہ اور یہ ہوٹل مل جائے ۔ رات کو سردی اور نو بجے ایسا لگا کہ رات ٹھہر گئی ، ہم بڑے شہروں کے عادی اور بات بھی پچیس سال پرانی۔ میں کمرہ سے نکلا کہ چلو مال روڈ کا چکر لگا آؤں ، اکا دکا لوگ ، واپس ہوٹل، مینجر گپی تھا اور ہیٹر سینک رہا تھ، ہم دونوں باتیں کرنے لگے تو اس نے اپنے تجربات بیان کرنا شروع کئے۔کہنے لگا یہ جو پنجابی ہیں ناں لھوراور گجرانوالے کے ان کی بدمعاشی میں خوب نکالتا ہوں۔میں نے کہا تو مری کا لوکل ہے اور مجھ سے پنجابی ہی میں بات کررہا ہے۔ اس نے میری بات نظر انداز کر کے پھر کہا کہ گجرانوالے کے دولڑکے ایک لڑکی کے ساتھ آئے ، کہایہ میرا بھائی اور یہ بیوی ہے ، دو کمرے لئے ۔
جب رات ہوئی تو میں جوڑے والے کمرے کی چھت میں سوراخ سے دیکھنے لگا ، مستی کررہے تھے۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ آہستہ سے بجا اور دوسرا لڑکا بھی آکر مستی میں شامل ہوگیا ،میں فوری کمرے پر پہنچا اور زور سے دروازہ پیٹا تو انہوں نے گھبرا کر دروازہ کھولا میں نے شور مچادیا تم لوگ عیاشی کررہے ہو تو اس نے کہا تلاشی لیکر دیکھ لو یہاں کوئی نہیں ۔
اندر جاکر چیک کیا تو دوسرے والا بیڈ کے نیچے چھپا ہواتھا ، میں نے پولیس کال کی دھمکی دی ، ڈر گئے ، اس کے بعد میں نے اپنی پیاس بجھائی ۔
مینجر مجھے بتانے لگا کہ ہم ہوٹل والے اکثر جوڑے کو پکڑ لیتے ہیں اور اپنا پورا مزا لیتے ہیں تو یہ ہے مری کہ صورت حال، اس لیے میں کہتا ہوں کہ Boycott Murree۔
مری کی بھولی بسری یادیں :
1990 کی بات ہے ، سردیوں کے دن تھے، مجھے کراچی سے اسلام آباد کسی کام سے جانا پڑا ، میں ان دنوں تعلیم سے فارغ التحصیل ہی ہوا تھا، سوچا جب اتنی دور آئے ہی ہیں تو کیوں نہ مری ہوتے جایئں ، پھر کہاں آنا ہوگا۔ کوچ میں مری پہنچا تو وہاں سردی کے باعث بزنس ماٹھا تھا خیر میں نے صرف ایک رات گذارنا تھی اور اگلے دن بائے ٹرین لاہور سے ہوتا ہوا کراچی چلے جانا تھا،
ایک ہوٹل میں قیام کیا اور بہت مناسب دام ، مینجر نوجوان مری کا ریائشی اور مجھ سے چند سال ہی بڑا تھا ، کہنے لگا سیزن میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایسا کمرہ اور یہ ہوٹل مل جائے ۔ رات کو سردی اور نو بجے ایسا لگا کہ رات ٹھہر گئی ، ہم بڑے شہروں کے عادی اور بات بھی پچیس سال پرانی۔ میں کمرہ سے نکلا کہ چلو مال روڈ کا چکر لگا آؤں ، اکا دکا لوگ ، واپس ہوٹل، مینجر گپی تھا اور ہیٹر سینک رہا تھ، ہم دونوں باتیں کرنے لگے تو اس نے اپنے تجربات بیان کرنا شروع کئے۔کہنے لگا یہ جو پنجابی ہیں ناں لھوراور گجرانوالے کے ان کی بدمعاشی میں خوب نکالتا ہوں۔میں نے کہا تو مری کا لوکل ہے اور مجھ سے پنجابی ہی میں بات کررہا ہے۔ اس نے میری بات نظر انداز کر کے پھر کہا کہ گجرانوالے کے دولڑکے ایک لڑکی کے ساتھ آئے ، کہایہ میرا بھائی اور یہ بیوی ہے ، دو کمرے لئے ۔
جب رات ہوئی تو میں جوڑے والے کمرے کی چھت میں سوراخ سے دیکھنے لگا ، مستی کررہے تھے۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ آہستہ سے بجا اور دوسرا لڑکا بھی آکر مستی میں شامل ہوگیا ،میں فوری کمرے پر پہنچا اور زور سے دروازہ پیٹا تو انہوں نے گھبرا کر دروازہ کھولا میں نے شور مچادیا تم لوگ عیاشی کررہے ہو تو اس نے کہا تلاشی لیکر دیکھ لو یہاں کوئی نہیں ۔
اندر جاکر چیک کیا تو دوسرے والا بیڈ کے نیچے چھپا ہواتھا ، میں نے پولیس کال کی دھمکی دی ، ڈر گئے ، اس کے بعد میں نے اپنی پیاس بجھائی ۔
مینجر مجھے بتانے لگا کہ ہم ہوٹل والے اکثر جوڑے کو پکڑ لیتے ہیں اور اپنا پورا مزا لیتے ہیں تو یہ ہے مری کہ صورت حال، اس لیے میں کہتا ہوں کہ Boycott Murree۔
مری کی بھولی بسری یادیں :
1990 کی بات ہے ، سردیوں کے دن تھے، مجھے کراچی سے اسلام آباد کسی کام سے جانا پڑا ، میں ان دنوں تعلیم سے فارغ التحصیل ہی ہوا تھا، سوچا جب اتنی دور آئے ہی ہیں تو کیوں نہ مری ہوتے جایئں ، پھر کہاں آنا ہوگا۔ کوچ میں مری پہنچا تو وہاں سردی کے باعث بزنس ماٹھا تھا خیر میں نے صرف ایک رات گذارنا تھی اور اگلے دن بائے ٹرین لاہور سے ہوتا ہوا کراچی چلے جانا تھا،
ایک ہوٹل میں قیام کیا اور بہت مناسب دام ، مینجر نوجوان مری کا ریائشی اور مجھ سے چند سال ہی بڑا تھا ، کہنے لگا سیزن میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایسا کمرہ اور یہ ہوٹل مل جائے ۔ رات کو سردی اور نو بجے ایسا لگا کہ رات ٹھہر گئی ، ہم بڑے شہروں کے عادی اور بات بھی پچیس سال پرانی۔ میں کمرہ سے نکلا کہ چلو مال روڈ کا چکر لگا آؤں ، اکا دکا لوگ ، واپس ہوٹل، مینجر گپی تھا اور ہیٹر سینک رہا تھ، ہم دونوں باتیں کرنے لگے تو اس نے اپنے تجربات بیان کرنا شروع کئے۔کہنے لگا یہ جو پنجابی ہیں ناں لھوراور گجرانوالے کے ان کی بدمعاشی میں خوب نکالتا ہوں۔میں نے کہا تو مری کا لوکل ہے اور مجھ سے پنجابی ہی میں بات کررہا ہے۔ اس نے میری بات نظر انداز کر کے پھر کہا کہ گجرانوالے کے دولڑکے ایک لڑکی کے ساتھ آئے ، کہایہ میرا بھائی اور یہ بیوی ہے ، دو کمرے لئے ۔
جب رات ہوئی تو میں جوڑے والے کمرے کی چھت میں سوراخ سے دیکھنے لگا ، مستی کررہے تھے۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ آہستہ سے بجا اور دوسرا لڑکا بھی آکر مستی میں شامل ہوگیا ،میں فوری کمرے پر پہنچا اور زور سے دروازہ پیٹا تو انہوں نے گھبرا کر دروازہ کھولا میں نے شور مچادیا تم لوگ عیاشی کررہے ہو تو اس نے کہا تلاشی لیکر دیکھ لو یہاں کوئی نہیں ۔
اندر جاکر چیک کیا تو دوسرے والا بیڈ کے نیچے چھپا ہواتھا ، میں نے پولیس کال کی دھمکی دی ، ڈر گئے ، اس کے بعد میں نے اپنی پیاس بجھائی ۔
مینجر مجھے بتانے لگا کہ ہم ہوٹل والے اکثر جوڑے کو پکڑ لیتے ہیں اور اپنا پورا مزا لیتے ہیں تو یہ ہے مری کہ صورت حال، اس لیے میں کہتا ہوں کہ Boycott Murree۔