Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج ماں پھر شدت سے یاد آئی۔ بچپن کے وہ لمحات ذہن میں مستقل ڈیرہ ڈالے ہیں جن میں ماں ہمیں کبھی پریشان نہیں دیکھ پاتی تھیں۔ ایک ایک خواہش اور ضد اس نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ نہ صرف پوری کی بلکہ یہ احساس تک نہ ہونے دیا کہ اس سب کی خاطر کیا کچھ کرنا پڑا۔
ماں ہستی ہی ایسی ہے جسے اپنی اولاد کی ہر خوشی کسی بھی دوسری شے مقابلے میں یہت زیادہ عزیز یے۔
ماں کا رشتہ رب نے ایسا مضبوط اور ناقابل فراموش بنادیاہے جسے دنیا کی کوئی طاقت کمزور نہیں کرسکتی۔
بچہ کہیں بھی چلا جائے کچھ بھی بن جائے ماں کے لئے اس کی محبت اور حیثیت ویی رہتی یے۔ وہ اس کی خاطرکچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتی اور یہ صرف ماں ہی کا خاصہ ہے۔
آج ہم پریشان ہیں ایسے میں وہی ہمیں تقویت بخش سکتی ہے جن کے سر سے یہ سایہ اٹھ چکا یے انہیں اس کی قدر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہی ہستی دنیا سے چلے جانے کے باوجود کسی نہ کسی روپ میں سہارا بن جاتی ہے۔
یہ نعمت انسان کو اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی یاددہانی کراتی ہے۔ زندگی کے سردگرم حالات میں یہ احساس کہ میرے ساتھ ماں کی دعائیں اور اپنے لئے نیک خواہشات آدمی کو اپنے قدموں پر کھڑے رہنے کی ہمت دیتی ہیں۔
ماں کا رشتہ انسان کی زندگی سے نکال دیں تو پیچھے ایک نہ بھرنے والا خلا رہ جاتا یے۔ انسانی شخصیت کی تکمیل ہی اس ذات کی مرہون ہے۔
ماں لفظ ہی اتنا نرم وگداز اور روح میں اترجانے والا جس کااحساس شاید کسی اور رشتے میں دکھائی نہیں دیتا ۔ بڑھاپے میں بھی ماں کی یاد دل میں ایک بچے کی طرح تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ بات کسی اسی نوے سال کے انسان سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ ماں کی محبت کا کوئی متبادل نہیں۔
اس کی محبت شفقت اور پیار کو یاد کریں اور رب سے اس کے لئے دعا کرتے رہیں کیونکہ اس کا کوئی احسان اتار نہیں سکتے صرف آج کے دن ماں کو خراج پیش کرسکتے ہیں۔
ماں تجھے سلام
آج ماں پھر شدت سے یاد آئی۔ بچپن کے وہ لمحات ذہن میں مستقل ڈیرہ ڈالے ہیں جن میں ماں ہمیں کبھی پریشان نہیں دیکھ پاتی تھیں۔ ایک ایک خواہش اور ضد اس نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ نہ صرف پوری کی بلکہ یہ احساس تک نہ ہونے دیا کہ اس سب کی خاطر کیا کچھ کرنا پڑا۔
ماں ہستی ہی ایسی ہے جسے اپنی اولاد کی ہر خوشی کسی بھی دوسری شے مقابلے میں یہت زیادہ عزیز یے۔
ماں کا رشتہ رب نے ایسا مضبوط اور ناقابل فراموش بنادیاہے جسے دنیا کی کوئی طاقت کمزور نہیں کرسکتی۔
بچہ کہیں بھی چلا جائے کچھ بھی بن جائے ماں کے لئے اس کی محبت اور حیثیت ویی رہتی یے۔ وہ اس کی خاطرکچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتی اور یہ صرف ماں ہی کا خاصہ ہے۔
آج ہم پریشان ہیں ایسے میں وہی ہمیں تقویت بخش سکتی ہے جن کے سر سے یہ سایہ اٹھ چکا یے انہیں اس کی قدر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہی ہستی دنیا سے چلے جانے کے باوجود کسی نہ کسی روپ میں سہارا بن جاتی ہے۔
یہ نعمت انسان کو اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی یاددہانی کراتی ہے۔ زندگی کے سردگرم حالات میں یہ احساس کہ میرے ساتھ ماں کی دعائیں اور اپنے لئے نیک خواہشات آدمی کو اپنے قدموں پر کھڑے رہنے کی ہمت دیتی ہیں۔
ماں کا رشتہ انسان کی زندگی سے نکال دیں تو پیچھے ایک نہ بھرنے والا خلا رہ جاتا یے۔ انسانی شخصیت کی تکمیل ہی اس ذات کی مرہون ہے۔
ماں لفظ ہی اتنا نرم وگداز اور روح میں اترجانے والا جس کااحساس شاید کسی اور رشتے میں دکھائی نہیں دیتا ۔ بڑھاپے میں بھی ماں کی یاد دل میں ایک بچے کی طرح تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ بات کسی اسی نوے سال کے انسان سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ ماں کی محبت کا کوئی متبادل نہیں۔
اس کی محبت شفقت اور پیار کو یاد کریں اور رب سے اس کے لئے دعا کرتے رہیں کیونکہ اس کا کوئی احسان اتار نہیں سکتے صرف آج کے دن ماں کو خراج پیش کرسکتے ہیں۔
ماں تجھے سلام
آج ماں پھر شدت سے یاد آئی۔ بچپن کے وہ لمحات ذہن میں مستقل ڈیرہ ڈالے ہیں جن میں ماں ہمیں کبھی پریشان نہیں دیکھ پاتی تھیں۔ ایک ایک خواہش اور ضد اس نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ نہ صرف پوری کی بلکہ یہ احساس تک نہ ہونے دیا کہ اس سب کی خاطر کیا کچھ کرنا پڑا۔
ماں ہستی ہی ایسی ہے جسے اپنی اولاد کی ہر خوشی کسی بھی دوسری شے مقابلے میں یہت زیادہ عزیز یے۔
ماں کا رشتہ رب نے ایسا مضبوط اور ناقابل فراموش بنادیاہے جسے دنیا کی کوئی طاقت کمزور نہیں کرسکتی۔
بچہ کہیں بھی چلا جائے کچھ بھی بن جائے ماں کے لئے اس کی محبت اور حیثیت ویی رہتی یے۔ وہ اس کی خاطرکچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتی اور یہ صرف ماں ہی کا خاصہ ہے۔
آج ہم پریشان ہیں ایسے میں وہی ہمیں تقویت بخش سکتی ہے جن کے سر سے یہ سایہ اٹھ چکا یے انہیں اس کی قدر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہی ہستی دنیا سے چلے جانے کے باوجود کسی نہ کسی روپ میں سہارا بن جاتی ہے۔
یہ نعمت انسان کو اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی یاددہانی کراتی ہے۔ زندگی کے سردگرم حالات میں یہ احساس کہ میرے ساتھ ماں کی دعائیں اور اپنے لئے نیک خواہشات آدمی کو اپنے قدموں پر کھڑے رہنے کی ہمت دیتی ہیں۔
ماں کا رشتہ انسان کی زندگی سے نکال دیں تو پیچھے ایک نہ بھرنے والا خلا رہ جاتا یے۔ انسانی شخصیت کی تکمیل ہی اس ذات کی مرہون ہے۔
ماں لفظ ہی اتنا نرم وگداز اور روح میں اترجانے والا جس کااحساس شاید کسی اور رشتے میں دکھائی نہیں دیتا ۔ بڑھاپے میں بھی ماں کی یاد دل میں ایک بچے کی طرح تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ بات کسی اسی نوے سال کے انسان سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ ماں کی محبت کا کوئی متبادل نہیں۔
اس کی محبت شفقت اور پیار کو یاد کریں اور رب سے اس کے لئے دعا کرتے رہیں کیونکہ اس کا کوئی احسان اتار نہیں سکتے صرف آج کے دن ماں کو خراج پیش کرسکتے ہیں۔
ماں تجھے سلام
آج ماں پھر شدت سے یاد آئی۔ بچپن کے وہ لمحات ذہن میں مستقل ڈیرہ ڈالے ہیں جن میں ماں ہمیں کبھی پریشان نہیں دیکھ پاتی تھیں۔ ایک ایک خواہش اور ضد اس نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ نہ صرف پوری کی بلکہ یہ احساس تک نہ ہونے دیا کہ اس سب کی خاطر کیا کچھ کرنا پڑا۔
ماں ہستی ہی ایسی ہے جسے اپنی اولاد کی ہر خوشی کسی بھی دوسری شے مقابلے میں یہت زیادہ عزیز یے۔
ماں کا رشتہ رب نے ایسا مضبوط اور ناقابل فراموش بنادیاہے جسے دنیا کی کوئی طاقت کمزور نہیں کرسکتی۔
بچہ کہیں بھی چلا جائے کچھ بھی بن جائے ماں کے لئے اس کی محبت اور حیثیت ویی رہتی یے۔ وہ اس کی خاطرکچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتی اور یہ صرف ماں ہی کا خاصہ ہے۔
آج ہم پریشان ہیں ایسے میں وہی ہمیں تقویت بخش سکتی ہے جن کے سر سے یہ سایہ اٹھ چکا یے انہیں اس کی قدر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہی ہستی دنیا سے چلے جانے کے باوجود کسی نہ کسی روپ میں سہارا بن جاتی ہے۔
یہ نعمت انسان کو اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی یاددہانی کراتی ہے۔ زندگی کے سردگرم حالات میں یہ احساس کہ میرے ساتھ ماں کی دعائیں اور اپنے لئے نیک خواہشات آدمی کو اپنے قدموں پر کھڑے رہنے کی ہمت دیتی ہیں۔
ماں کا رشتہ انسان کی زندگی سے نکال دیں تو پیچھے ایک نہ بھرنے والا خلا رہ جاتا یے۔ انسانی شخصیت کی تکمیل ہی اس ذات کی مرہون ہے۔
ماں لفظ ہی اتنا نرم وگداز اور روح میں اترجانے والا جس کااحساس شاید کسی اور رشتے میں دکھائی نہیں دیتا ۔ بڑھاپے میں بھی ماں کی یاد دل میں ایک بچے کی طرح تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ بات کسی اسی نوے سال کے انسان سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ ماں کی محبت کا کوئی متبادل نہیں۔
اس کی محبت شفقت اور پیار کو یاد کریں اور رب سے اس کے لئے دعا کرتے رہیں کیونکہ اس کا کوئی احسان اتار نہیں سکتے صرف آج کے دن ماں کو خراج پیش کرسکتے ہیں۔
ماں تجھے سلام