یوں تویوم مئی مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے لیکن ایک طبقہ ایسا ہے جس کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا اوروہ بدترین استحصال کا شکار ہے حتا کہ ان کی امدنی اور پیشے کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھاجاتا ہےاور وہ ہے سیکس ورکر۔ یوں تو شرافت کے ٹھیکیدار فوری اپنا طنبورہ لےکر مخالفت کرنے پہنچ جاتے ہیں لیکن خوبصورت سیکس ورکر کے دیوانے ہزاروں ہوتے ہیں ، بظاہر لیپا پوتی سے کام لیاجاتا ہے۔
سیکس ورکر کبھی ختم نہیں ہوسکتا ، جولوگ ایسا دعوا کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں ، جنرل ضیا نے پابندی لگائی تو ایک بازار سے اٹھ کر یہ کام فیشن ایبل سوسائٹی میں پھیل گیا اور ریٹ بھی اونچے ہوگئے ، فحاشی اور بچوں کے ساتھ جنسی جرائم میں شرمناک حد تک اضافہ ہوا۔ دوسری طرف سیکس ورکر کا بدترین استحصال ہوتا ہے، اغواشدہ لڑکیوں سے پیشہ کروایا جاتا ہے اور آمدنی کا بڑا حصہ دوسرے لوگ کھاجاتے ہیں ، یہ ایک بدترین قسم کی غلامی ہے کہ عزت ہے اور نہ پیسہ پورا مل رہا ہے،بہتر ہے کہ سفاک حقیقت کا سامنا کیا جائے ، سیکس ورکر کو تسلیم کرکے ان کو قانونی حقوق دے دئیے جایئں ، ان کےلئے میڈیکل چیک اپ اور کنڈوم کا استعمال لازمی قرار دیاجائے۔
امریکا میں طوائفیت قانوناً جرم ہے لیکن یہاں اسٹرپ کلب میں لڑکیاں ننگا ڈانس کرتی ہیں ، مجال ہے کوئی انھیں ٹچ بھی کرسکے ، باقاعدہ تنخواہ اور کمیشن ملتا ہے، ایک اسٹرپ کلب میں لڑکی نےمجھے بتایا کہ اس کے باس نے دس ہزار ڈالر نقد رقم دے کر اسے دوسرے کلب سے توڑا، اس کا دراز قد اور لمبی سنہری زکفوں کےساتھ الف ننگا ڈانس جسم کا رواں رواں کھڑا کردیتا ،
بہت سی لڑکیاں تعلیمی اخراجات پورے کرنے کےلئے ویک اینڈ میں ڈانس کرکے سینکڑوں ڈالر کمالیتی ہیں اور جاب پوری کرکے گھر کو چلی جاتی ہیں تو یہ قانون سازی ہے۔
ہمارے ہاں سیکس ورکر اسی کوٹھے پر بیماری سے خون تھوکتی بیماری سے مرجاتی ہے اور اس کی آمدنی کا بڑا حصہ دوسرے لوگ ہڑپ کرجاتے ہیں،
وقت آچکا ہے کہ سیکس ورکر کو بھی ایک مزدور تسلیم کرکے اس کے حقوق کاتعین کیا جائے ۔