گرو نانک ننکانہ صاب ڈسٹرکٹ شیخوپورہ کے پیدائشی اور لہٰذا اسی لہجے میں بولتے تھے جس پر اب سرائیکی کا ٹھپہ لگادیاگیا ہے، اس دور میں لاہور شہر میں بھی سرائیکی ہی بولی جاتی تھی جس کا ایک واضح ثبوت شاہ حسینُ لاہوری کا کلام ہے، قدرتی طورپر بڑے شہروں کے لہجے میں دیہات کے لہجوں سے کافی فرق پڑجاتاہے ، زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ ٹھوکرنیازبیگ لاہور کے علاقے تک جانگلی لہجہ ہی بولاجاتاتھا،
اب آتے ہیں اصل ٹاپک کی طرف کہ بابا گرونانک کا لہجہ اورکلام ماجھی ( پنجابی ) میں نہیں بلکہ سریکی ( جھنگوچی / جانگلی ) لہجے میں ہے، یہی اصول وارث شاہ کے کلامُ پر بھی منطبق ہوتا ہے
وارث شاہ کی ساری حیات جھنگ ، منٹگمری کے جانگلی علاقوں میں گذری ،اسی لہجے میں شاعری کی ،ستم ظریفی یہ کہ سرائیکی قوم پرست گرونانک اور وارث شاہ کو پنجابی کہتے ہیں حالانکہ وارث شاہ اور گرونانک سرائیکی تھے اور ان کا کلام پنجاب کا لافانی کلام ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر وارث شاہ اور گرونانک کے کلام کو ہر پنجابی سمجھتا ہےبلھے شاہ کے کلام کو سمجھتا ہے تو سرائیکی پنجابی سے الگ کیسے ہوگئی کیونکہ پشتو یا سندھی شاعروں کا کلام تو پنجاب کے گھروں ، چوپالوں اور بیٹھکوں میں نہیں پڑھا جاتا۔
یہ حقائق سرائیکی کے غبارے سے ہوا نکال دیتے ہیں، ثابت ہوا کہ جنرل ضیا کے دورمیں لسانیت کو فروغ دینے کی آفیشل پالیسی کے تحت سرائیکی زبان اور کلچر کا شوشا گھڑا گیا۔