‘ڈھاکا!میں آؤں گا’ ایک منفردموضوع پربہترین ناول ہے۔ناول کامرکزی کردارایک محب ِ وطن بنگالی فوجی ہے۔جوسقوطِ ڈھاکہ کے باوجودہتھیارڈالنے اورکسی ایسی سرزمین پررہنے پرتیارنہیں ،جوپاکستان کاحصہ نہ ہو۔ناول کے مصنف سہیل پروازسابق فوجی اوراچھے کالم نگارہیں۔یہ ان کااردوکا پہلاناول ہے۔اشاعت کے ایک ماہ کے اندرہی غیرمعمولی اورمنفردموضوع اورکہانی پرمصنف کی بے مثال گرفت نے اسے اردوکے بہترین ناولزمیں جگہ دلادی ہے۔
سہیل پروازجولائی 1950ء میں لاہورکے ایک ادبی گھرانے میں پیداہوئے۔والد الطاف پروازمرحوم ایک نامورادیب،شاعراورصحافی تھے سوقلم بچپن سے ہی ہاتھ میں پکڑلیا۔کالج کے زمانے میں لکھناشروع کیا۔لیکن فوج میں شمولیت ادبی سرگرمیوںمیں آڑے آئی۔سروس کے آخری سالوں میں ریڈیو،ٹی وی اوراخبارات کے لیے محدودانداز میں لکھناشروع کیا۔اسی دوران آئی ایس پی آرمیں پوسٹنگ ہوئی اور کھل کرلکھناشروع کردیا۔چوبیس سال فوج میں گزارکربطورمیجرریٹائرمنٹ لے لی اورکل وقتی میڈیاسے وابستہ ہوگئے۔ریڈیواورٹی وی کے لیے ڈراموں کے علاوہ بے شمارڈاکیومنٹریزبھی بنائیںاورکئی قومی اردو اورانگریزی روزناموں کے لیے کالم لکھے۔ان کااردوکالم ”پانچواں کالم”کوبہت پذیرائی ملی،جوکئی روزناموں کی زینت بنے۔اردو،انگریزی اورپنجابی میں یکساں مہارت سے لکھتے ہیں۔کبھی کبھار نغمہ نگاری بھی کرتے ہیں اورچندنغموںکوبہت مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔انہوں نے اہلیہ کی وفات پرانتہائی پراثر آپ بیتی ”جوتنہاکر گئی مجھ کو”تحریرکی۔جوانتالیس سالہ ازدواجی رفاقت پرمبنی حسین اوردلگدازیادوں پرمبنی ہے۔جس نے ہرصاحبِ احساس قاری کومتاثر کیا۔ پاکستان کے موجودہ حالات پرانگریزی ناول”The Cornered Rogue” دس سال قبل شائع ہوچکاہے۔زندگی کے بارے میں سہیل پرواز کافلسفہ ہے کہ جب تک آپ زندہ ہیں آپ مقابلے میں ہیں اورجب تک مقابلہ جاری ہے امیدبھی باقی رہنی چاہیے ۔ اردومیں آٹھ سے ساٹھ سال کے بچوں کے لیے دین اوروطن سے محبت پرمبنی سنسنی خیزسائنس فکشن ناول لکھنے کابھی وعدہ ہے۔
”ڈھاکا!میں آؤںگا” کاانتساب سہیل پروازنے ان الفاظ میں کیا۔”1971ء کی جنگ کے ان شہیدوں کے نام جومٹی کی محبت اورحرمت کی خاطرمشرقی پاکستان میں شہیدہوئے اوروہیں خاک بسرہیں” جس کے بعدسہیل پروازکے والدالطاف پروازکاشعردرج ہے۔
ہم اہلِ وفا خاک بسر ہیں، ہمیں دیکھو۔۔۔ہیں شہرمیں اورشہربدرہیں،ہمیں دیکھو
”مٹی اورمحبت” کے عنوان سے سہیل پروازنے پیش لفظ میں لکھاہے۔” یہ کہانی ہے محبت کی۔محبت مٹی سے بھی اورمنش سے بھی۔مقدمہ ہے اس حقیقت کاکہ محبت کسی کی میراث نہیں ہوتی۔ڈھاکہ کے نواح میں دریائے میگھناآج بھی بہہ رہاہے لیکن سن اکہترکے بعدجنم لینے والی ایک نسل جونصف صدی کاسفرطے کرچکی ہے،اس تک میگھناکے پانیوںکی روانی نہیں پہنچ پائی۔انھیں توشایدیہ بھی معلوم نہیں کہ میگھناہے کیا۔انھیں بس چنداسباق ازبرکرائے گئے، اول یہ کہ بنگالی بحیثیت قوم ‘محبِ وطن’ نہیں تھے۔دوئم کہ پاک فوج نے اپنی ‘نالائقی’ سے مشرقی پاکستان میں ہتھیارپھینکے اورسوئم کہ پاکستانیوں کاواحدمسیحاذوالفقارعلی بھٹوتھاجس نے نہ صرف پاکستان ‘بچایا’ بلکہ اسیرانِ جنگ کوواپس بھی لایا۔اس ناول میں نہ توسیاست کی جزئیات کوچھیڑاگیاہے اورنہ ہی فوجی آپریشنزپرپیشہ ورانہ بحث کی گئی ہے۔اس میں صرف اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ایک بنگالی بھی اتناہی محبِ وطن ہوسکتاہے جتناکہ کوئی پنجابی،پشتون،سندھی یابلوچ۔اس کہانی کامحورسن اکہترکے سانحا ت وواقعات ہیں۔ایسے کئی واقعات آن ریکارڈ ہیںجہاں بنگالی افسروں اورجوانوں نے مغربی پاکستان سے شادیاں کیں۔کئی ایسے فوجی ہیں جنھوں نے بنگلہ دیش بننے کے بعدوہاں رہنے کے بجائے قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرنے کوترجیح دی اوربالآخرموجودہ پاکستان آ کرباقی ماندہ زندگی گزاری یاگزاررہے ہیں۔آپ کواس ناول میں کہیں بھی غیرحقیقی واقعات پڑھنے کونہیں ملیں گے۔قدم قدم پروہی کچھ ہو تاہوانظرآئے گاجوہوسکتاہے۔کہانی سوفیصد فکشن لیکن چونکہ عام زندگی کے حالات وواقعات اس کی بنیادہیں،سوقاری کوبندھارکھنے کے لیے بعدازتحقیق کئی مقامات اورشہروں کے ناموں کاسہارالیاگیاہے،خواہ وہ لکشمی پورکے ہوں یالاہورکے،چٹاگانگ کے ہوں یاچراٹ کے۔اس عمل سے قاری کواپنائیت کااحساس ہوگا۔کہانی بنیادی طورتین موضوعات کااحاطہ کرتی ہے۔وطن سے محبت،ذات سے محبت اور ناقابل ِ یقین عزم واستقامت کامظاہرہ۔مجھے یقین ہے کہ المیہ مشرقی پاکستان کے بعدجنم لینے والی دونسلیں جنھیں سقوطِ ڈھاکہ بارے سچ نہیں بتایاگیایاسرے سے اندھیرے میں رکھاگیاہے،یہ ناول پڑھ نہ صرف اہلِ بنگال بارے اپنے ذہنوںمیں پلنے والے شکوک وشبہات اور دلوںمیں جنم لینے والی بدگمانیوںکودورکرلیں گے بلکہ ان کے دلوں میں نرم گوشہ بھی پیداہوگا۔پاک فوج کی بھی سن اکہترکے حوالے سے جس طرح چند مخصوص حلقوں میں تضحیک کی یااب بھی بیڑااٹھارکھاہے،اس کابھی بہت حدتک مداواہوگا۔برصغیرکے موجودہ سنگین حالات میںبھارت جس طریقے سے وقتاً فوقتاً علاقے کے چھوٹے ممالک کے خلاف جارحانہ عزائم کااظہارکرتارہتاہے،ایسے میں بنگلہ دیش سے تعلقات بہتربناناناگزیرہوگیاہے۔نام بھلے مشرقی پاکستان نہ ہولیکن کیاعجب کہ مستقبل قریب میں دنیادیکھے کہ ع،آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک۔”
وائس ایڈمرل (ر) محموداحمدخان نے بیک پیج پرمصنف کاتعارف کچھ اس طرح کرایاہے۔” سہیل پروازبطورلکھاری کسی تعارف کے محتاج نہیں تاہم میران سے تعارف فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے نہایت حساس قومی نوعیت کے منصوبوں کی تکمیل کے دوران ہواجہاں انھوں نے نہ صرف عامیانہ سطح سے ہٹ کربلکہ منفرداوراچھوتے آئیڈیازدیئے اوران کی تکمیل میں میرے دست راست بھی رہے۔میں ان کی سوچ، خیالات اورتخلیقی صلاحیت کاہمیشہ معتقدومعترف رہاہوں۔سہیل کوبیک وقت اردو،انگریزی میں لکھنے پرملکہ حاصل ہے جس کاثبوت ان کاچندبرس قبل شائع ہونے والاانگریزی ناول اورپھرکچھ عرصہ پہلے شائع ہونے والی سرگزشت ہے۔سہیل کوالفاظ سے کھیلنے اورانھیں اپنی گرفت سے نہ نکلنے دینے کافن توآتاہے لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ قلم سے برش کاکام لیتے ہوئے الفاظ سے منظرکشی کرنے میں بھی خاص مہارت رکھتے ہیں چنانچہ قاری خود کوان کی کہانی کاہی ایک کردارسمجھنے پرمجبورہوجاتاہے۔”ڈھاکہ!میں آؤں گا” کی تخلیق سہیل پرواز کے ذاتی تجربے اوراپنی مٹی اورملت سے محبت وعقیدت کااظہارہے۔وہ ایک سپاہی ہیں سواسی ناطے،ایک خوبصورت سپاہیانہ ماحول کی جھلک بھی کہانی میں جابجاملتی ہے جوکہ ان کی اپنی زندگی کانچوڑاوربیانیے کی صداقت کابھرپوراظہارہے۔گوکہ یہ ناول ایک خالصتاً فکشن ہے لیکن اسے کسی طوربھی حقیقت سے بعید نہیں کہاجاسکتاکیونکہ ایسے ہزارہاواقعات اورکردارحیات ہیں جواس کہانی کاحصہ ہیں ۔خود اس ناول کے ہیروکے احساسات،جوکہ ایک سچامحب ِوطن بنگالی گوریلاافسرہے،اس بات کابین ثبوت ہیں کہ وطن سے محبت کسی کی میراث نہیں ہوتی۔محبت کی اس داستان میں کئی خوبصورت اتارچڑھاؤ اورالمناک موڑ آتے ہیں جہاں جذبات سے مغلوب ہوکرنہ صرف قاری کاگلہ رندھ جاتاہے بلکہ وہ دل میں عجیب سی کسک بھی محسوس کرتاہے مجھے یقین ہے کہ جوکوئی بھی اس ناول کوپڑھنے کے لیے اٹھائے گاوہ اسے ایک ہی نشست میں پڑھے بغیر نہیں رہ سکے گا۔”
بلاشبہ ناول انتہائی دلچسپ اورریڈایبل ہے۔جسے ایک ہی نشست میں پڑھاجائے گا۔ناول میں کرداراورجزئیات نگاری اپنے عروج پر ہے ۔ہرکردارکومصنف نے بہت عمدگی سے تراشاہے۔ناول کامرکزی کرداربنگالی فوجی کمانڈومشفق الاسلام ہے۔جس کے والدنذرالاسلام ڈھاکہ میں ایک پریس کے مالک اورشیخ مجیب الرحمٰن کے ذاتی دوست ہونے کے باوجودمسلم لیگ کے سرگرم کارکن ہیں۔ان کے باپ دادا بھی مسلم لیگی رہے ہیں۔ان کی بیوی ناہیدا اورمشفق سے چارسال چھوٹی بیٹی ربابہ بھی پاکستان پردل وجان سے نثارہیں۔بدرالاسلام کی وابستگی کااندازہ اس اقتباس سے کیاجاسکتاہے۔
”بدرصاحب اوران کے خاندان کاتحریکِ پاکستان میں خاصانمایاں کرداررہاتھا۔یہی وجہ تھی کہ شیخ مجیب الرحمٰن سے انتہائی قریبی خاندانی تعلقات ہونے کے باوجود بدرصاحب کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ کے ساتھ تھی۔تاہم اس سے دونوں کی دوستی میں کبھی فرق نہیں آیاتھا۔شیخ مجیب انھیں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھتاتھا۔دونوں کے اہل خانہ کاایک دوسرے کے گھروںمیں آناجانا اورخوشی غمی میں شریک ہونابھی تھا ۔ سیاسی بحث مباحثوں میں اکثرشیخ مجیب کاپارہ چڑھ جایاکرتالیکن کچھ دیربعدحالات بدرالاسلام کی ٹھنڈی طبیعت کی وجہ سے نارمل ہوجایا کرتے تھے۔شیخ کونارمل کرنے کے بعدبدرمیاں اس کے خوب لتے لیاکرتے تھے اورپھرمجیب الرحمٰن بغلیں جھانکتاپھرتاتھا۔شیخ مجیب ہمیشہ بچپن کے دوست کوگھرآنے کی دعوت دیامگروضع داربدرالاسلام صاف انکارنہ کرتے اورکنی بھی کتراجاتے۔ظاہرہے کہ اس کی وجہ ، مجیب کابھارت کی طرف جھکاؤاورریاست مخالف سرگرمیاں تھیں۔جبکہ بدرمیاں پاکستان کے خلاف کوئی بات کرنایاسنناگناہ کبیرہ سمجھتے تھے ۔ ستمبرپینسٹھ کی جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کے افسروں اورجوانوں کی شجاعت کی داستانوںنے مشفق کوبہت متاثرکیاتھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ اٹھتے بیٹھتے خاکی وردی کے خواب دیکھاکرتا۔بدرالاسلام اورناہیدہ بیگم اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔جب مجیب کی باغیانہ سوچ پر اسے گرفتارکیاگیاتوشروع میں بدرصاحب کے ذہن میں بھی یہ خیال آیاکہ شایداس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اورانھوں نے اپنی جما عت مسلم لیگ کے حلقوں میں اس بات پردھیمے دھیمے احتجاج بھی کیا تاہم جب انھیں مجیب کے چھ نکات کے نقصان دہ اثرات سے آگاہی ہوئی توانھیں اپنی ہمدردیاں واپس لیناپڑیں۔باشعوربنگالی جوحالات کی سنگینی کاادراک رکھتے تھے، ایک انجانے خوف میں مبتلاتھے کیونکہ سادہ لوح پسے ہوئے طبقے کی اکثریت روزبروزمجیب الرحمٰن کے دکھائے سہانے سپنوں کاشکارہورہی تھی۔”
یہ تمام صورت حال ناول کے ابتدائی صفحات میں ہی پیش کردی گئی ہے۔ناول میں بنگالی زبان اوراس کے الفاظ کااستعمال کہانی کے اعتبار سے اچھالگتاہے۔جیسے مشفق کابہن کودکچے (بلی)یاباپ کامشفق کوچلے(بیٹا)کہنا۔مشفق کوبالآخر جی ایچ کیوسے آئی ایس ایس بی کی کال آگئی۔اس نے سرکاری چٹھی باپ کودی اورانہوں نے بیٹے کوسینے سے لگاکرپیشانی پربوسہ دیا۔ماں نے بھی دعائیں دیں۔اسے فوج کے مقامی مرکزکرمی ٹولہ میں رپور ٹ کرناتھی۔جہاں ابتدائی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعدمشفق کو27فروری 1967ء کوکاکول اکیڈمی ایبٹ آباد میں رپورٹ کرناتھی۔
”ڈھاکا!میں آؤں گا” ایک دلچسپ ناول توہے ہی،اس میں دھیمادھیمارومان،تاریخ،ثقافت،جنگی واقعات ومنصوبہ بندی،مہم جوئی اور فرار بھی موجود ہیں۔جوناول کی دلچسپی کوفزوں ترکرتے ہیں اورقاری کوکسی مرحلے پربھی بورنہیں ہوتا۔ناول میں کئی جگہ مشہور کتابوں کی جھلک محسوس ہوتی ہے،لیکن طرزِبیان سہیل پروازکااپناہی رہتاہے وہ کسی اورمصنف سے متاثرنہیں ہوتے۔مشفق الاسلام کے کاکول ملٹری اکیڈمی میں ٹریننگ کے واقعات میں کرنل محمدخان کی ”بجنگ آمد” کرنل اشفاق حسین کی”جنٹل مین بسم اللہ ” اور”جنٹل مین الحمداللہ” اور میجرصولت رضاکی ”کاکولیات” کی جھلک ضرور ہے ،لیکن اس سے ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے اندازاورماحول کی تصدیق ہی ہوتی ہے۔ کوئی اورمماثلت نہیں ہے۔جہلم بک کارنرکے روایتی حسن طباعت نے مطالعے کے لطف کودوبالاکردیاہے۔ جس میں دیدہ زیب سرورق،شاندارکتابت وطباعت،بہترین جلدبندی کے ساتھ ساڑھے چارسوصفحات کی کتاب کی نوسوروپے قیمت بہت مناسب ہے۔
مشفق کوکراچی سے پنڈی کابورڈنگ کارڈلیتے ہوئے خیال آیاکہ کسی معتبرشخص سے مدد لی جائے۔تھوڑی دیربعدایک پرکشش ،لمبا تڑنگا نوجوان ہاتھ میں سفربیگ لیے لاؤنج میں داخل ہوتانظرآیا،حلیہ اورتمکنت سپاہیانہ تھی۔مشفق نے اس سے مددلینے کافیصلہ کیا،جس نے عمیر کے نام سے اپناتعارف کرایا۔گفتگومیں بتایا کہ اسے کاکول جاناہے۔لیکن فی الحال پنڈی پہنچناہے۔عمیرنے کہاکہ وہ اسے حویلیاں ڈراپ کردے گا ۔جہاں کاکول اکیڈمی سے کیڈٹس کولینے ٹرانسپورٹ اوراسٹاف آیاہوگا،مشفق کااطمینان ہوگیا۔عمیرنے اسے حویلیاں ریلوے اسٹیشن پراتار دیا۔ ابتدائی مراحل اوردستاویزات جمع کرانے کے بعدجب مشفق اندرداخل ہواتوسامنے کپتان کی وردی میںعمیرمسکرارہا تھا ۔ یہ کاکول سے مشفق الاسلام کاپہلاتعارف تھا۔جس روزڈرل گراؤنڈ میں اس نے پہلی دفعہ رائفل اٹھائی توبے پناہ فخرمحسوس کیا۔وہ بچپن سے اس کا خواب دیکھ رہاتھااورتھری ناٹ تھری اٹھاکراسے یوں محسوس ہواجیسے پورے پاکستان کی حفاظت کاذمہ اسے سونپ دیاگیاہو۔
اکیڈمی میں بابرحمیداس کاروم میٹ تھا۔دونوں باہمت نوجوان اکیڈمی میں ہونے والے استقبال سے خاصے سہمے ہوئے تھے۔اپناخوف دور کرنے کے لیے انھوں نے اپنامفصل تعارف کرانامناسب سمجھا۔بابرنے یہ جان کرکہ اس کاروم میٹ بنگالی ہے اوراردوبولنااس کے لیے دشوارہے توانگریزی کوگفتگوکاذریعہ بنانابہترجانا۔وقت کے ساتھ مشفق اوربابرکی دوستی مضبوط ہونے لگی۔ساتھ ہی وہ کاکول کی سخت زندگی اورتربیت کے عادی ہونے لگے۔تیسرے ہفتے چھٹی کے دن بابرسے اس کے گھروالے ملاقات کے لیے آئے۔بابرکے جانے کے بعد مشفق کوتنہائی اورگھروالوں سے دوری خصوصاً لاڈلی بہن ربانہ کی یادستانے لگی۔بابرکچھ ہی دیر میں واپس آگیا۔اس نے بتایاکہ امی سے ذکر ہونے پرجب میں نے بتایاکہ میراروم میٹ ڈھاکہ سے ہے توانہوں نے تمہیں لانے کاحکم دیا۔یہ پہلا موقع تھاجب مشفق کسی مغربی پاکستانی فیملی سے مل رہاتھا۔بابرکی امی اورابوبہت تپاک سے ملے۔بابرکی امی کی شفقت سے اسے اپنی امی بہت یادآئیں۔بابرکی بہن مائرہ کی شخصیت سے وہ بہت متاثرہوا۔بابرکی امی منزہ،ابوحمید اورمائرہ ناول کے تین مرکزی کردارہیں۔مشفق کوپہلی ہی نظرمیں مائرہ پسند آگئی۔لیکن دوست کے احترام میں وہ گریزکرتارہا۔ٹریننگ کی نصف مدت مکمل ہونے پرکیڈٹس کوپندرہ دن کی مڈٹرم بریک ملی۔ مشفق تھوڑی کشمکش کے بعد دیگربنگالی کیڈٹس کی طرح ڈھاکہ چلاگیا۔جبکہ بابرچھٹیاں گزارنے لاہورروانہ ہوگیا۔ڈھاکہ میں مشفق نے اپنے گھروالوں سے بابر اوراس کے اہل خانہ کابہت اچھے الفاظ میں تعارف کرایا اوربہت چاہ سے منزہ اورمائرہ کے لیے ساڑھی اوربابر اور حمید صاحب کے لیے ڈھاکہ ململ کے کرتے خریدے۔کاکول پہنچ کرجب اس نے بیرک کادروازہ کھولاتوسامنے بابرنہیں اس کی پلاٹون کا ایک اورکیڈٹ جہانزیب کھڑاتھا۔اس سے معلوم ہواکہ لاہور میں بابرٹریفک حادثے میں انتقال کرگیا۔مشفق کی آنکھوں میں اندھیراچھا گیااور وہ پھوٹ پھوٹ کررودیا۔
مشفق نے بابرکاسامان اس کے گھروالوں کے حوالے کرنے اورتعزیت کی غرض سے لاہورجانے کی اجازت طلب کی اوراگلے ویک اینڈ پر گلبرگ بابرکے گھرکانپتے ہاتھوں سے بیل بجائی۔دروازہ کھلاتومائرہ سامنے کھڑی تھی۔اس کی خوبصورت سرمئی آنکھوں میں آنسوامڈتے نظر آرہے تھے۔منزہ نے سامنے مشفق کودیکھاتوچیخ مارکربے اختیاراس کے گلے سے لپٹ کر رونے لگیں۔آج کافی دن بعداس گھرمیں زندگی بھلے پھیکے اندازسے سہی مگرلوٹی ضرورتھی۔منزہ نے روانگی کے وقت اس کی پیشانی پربوسہ دیتے ہوئے کہاکہ ” بیٹامیں بوبی کوہمیشہ اسی طرح رخصت کرتی تھی۔سوتمہیں بھی ایسے ہی کس طرح جانے دوں۔اگرتمہیں اعتراض نہ ہوتوکیاہم تمہیں اکیڈمی میں ملنے آسکتے ہیں؟”
اس طرح مشفق کابابرکے اہل خانہ سے مستقل رابطہ ہوگیا۔جہاں مشفق نے اس گھرانے میں بابرکی کمی کودورکرنے کی ہرممکن کوشش کی وہیں اس کامائرہ کے ساتھ دھیمادھیمارومان پروان چڑھنے لگا۔کیوپڈنے دونوں کوہی شکارکرلیاتھا۔منزہ اورحمیدکوبھی مشفق کی صورت بیٹے کا نعم البدل مل گیاتھا۔پاسنگ آؤٹ پریڈ میں مشفق الاسلام کوکورس میں ٹاپ کرنے پرکمانڈرانچیف کی اعزازی چھڑی کاحقدارقراردیاگیا۔اس کے ماں باپ ڈھاکہ سے نہیں آسکتے تھے۔اس لیے اس نے بابرکے گھروالوں کودعوت نامہ بھجوادیا۔بالآخر وہ دن آگیاجس کااس نے بچپن سے خواب دیکھاتھا۔اسے پنجاب رجمنٹ کی ایک تاریخی بٹالین میں کمیشن مل رہاتھا۔یہ اس کی ذاتی خواہش بھی تھی دوسرایہ پلٹن اس کے پیارے مرحوم دوست بابرحمیدکابھی خواب تھی۔ اس لیے اس نے ایسٹ بنگال رجمنٹ پراسے ترجیح دی ۔
ڈھاکہ سے والدین سے ملاقا ت کے بعد واپسی پرمشفق بہن ربابہ کوبھی لاہورساتھ لے آیا۔منزہ اورحمیدصاحب مشفق کے کردار،سعادت مندی سے بہت متاثرتھے۔مائرہ کی مرضی جاننے کے بعدربابہ نے اس کی امی سے بات کی اورابوکاگرین سنگل ملنے پراپنی امی ناہیدا کو ڈھاکہ سے بلوالیا اورمشفق اورمائرہ کارشتہ پکاکردیاگیا۔اسی دوران ڈھاکہ میں بدرالاسلام کوہارٹ اٹیک ہوگیا۔مشفق ،ناہیدااورربابہ کی اسی روزڈھاکہ کی ٹکٹس بک کردی گئیں۔ان کے پہنچنے کے ایک دو روزبعدبدرالاسلام کاانتقال ہوگیا۔باپ کے انتقال کے بعدمشفق نے ماں اوربہن کی اجازت سے پریس کے منیجرانیس سے ربابہ کاشادی کرکے کاروبارکاتمام انتظام اس کے سپردکردیا۔
مشفق نے سخت ترین کمانڈوٹریننگ حاصل کرکے ایس ایس جی بٹالین میں شامل ہوگیا۔کپتان بننے کے ساتھ مائرہ کے ساتھ اس کی شادی بھی ہوگئی۔ابتدامیں اٹک میں تعیناتی میںہوئی۔مشرقی پاکستان میں سیاسی حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے تھے اوران کااثرمغربی پاکستان پربھی دیکھاجاسکتا تھا ۔ پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے بھی عوامی لیگ کاساتھ دیااوراگرتلہ سازش کیس کی واپسی اورشیخ مجیب کی رہائی کامطالبہ زورپکڑنے لگا ۔ 22فروری 1969ء کوایوب خان نے دونوں مطالبات قبول کرلیے۔اگلے ہی روزڈھاکہ کے ریس کورس گراؤنڈ میں لاکھوں کے مجمع میں اسے بنگلہ بندھوکاخطاب دیاگیا۔اگست کے وسط میں مشفق کی یونٹ کے مشرقی پاکستان جانے کاوقت آگیا۔ڈھاکہ میں اسے گھرجا نے کاوقت بھی نہیں ملتاتھا۔حتیٰ کہ بچے کی پیدائش کے موقع پراس کمانڈرنے کچھ روزچھٹی پرگھربھیجا۔مشفق کابیٹاچودہ اگست کے دن پیدا ہوا۔جس کانام اس نے مائرہ کے بھائی کی یاد میں بابرالاسلام رکھا۔جس سے مائرہ کوبہت خوشی ہوئی۔پانچ دسمبر1969ء کومجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان کوبنگلہ دیش کانام دیدیا۔مجیب بنگالیوں کے لیے دیوتاکی حیثیت اختیارکرتاجارہاتھا۔یہاں سہیل پروازنے خالص فوجی سوچ کے مطابق لکھاہے۔”یحییٰ خان کی حکومت کوذولفقارعلی بھٹوکی پیپلزپارٹی نے اغواکررکھاتھا۔”اگریہ سچ بھی ہے کہ فوج کاسربراہ،چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹراورصدرمملکت تین اہم ترین عہدوں پرفائزیحییٰ خان اغواہوگیاتھاتویہ اس کی نااہلی کاثبوت ہے ۔جبکہ ہمارے ملک میں اسی سوچ کوپروان چڑھایاگیاہے کہ تمام کیادھرابھٹوکاتھا۔”ڈھاکہ!میں آؤں گا” میں بھی سیاست سے گریزکرتے ہوئے بھی مصنف نے کئی جگہ اسی سوچ کے مطابق لکھا ہے۔
مشرقی پاکستان میں مشفق الاسلام نے کئی آپریشن کامیابی سے مکمل کیے۔اورکامیاب چھاپہ مارکارروائیوں میں حصہ لیا۔اگست میں عوامی لیگ نے پاکستان کایوم آزادی منانے سے بھی روک دیا۔تین نومبرانیس سوسترکوخوفناک سمندری طوفان بھولانے مشرقی پاکستان میں تباہی مچادی۔ قومی اسمبلی کی نواورصوبائی کی اٹھارہ نشستوں پرانتخابات سترہ جنوری تک ملتوی کردیے گئے۔بقیہ انتخابات کے مطابق عوامی لیگ نے مشرقی صوبے کی ایک سوانہترمیں سے ایک سوسڑسٹھ اورصوبائی اسمبلی کی تین سودس میں سے دوسواٹھانوے سیٹیں جیت لیں۔مغربی پاکستان سے پیپلزپارٹی نے اسی نشستیں حاصل کیں۔مجیب کوواضح اکثریت مل گئی،یکم مارچ سے اس نے عملی طورپرصوبے کے حکمران کے اختیارات سنبھال لیے۔سات مارچ کواس نے بنگالی عوام کوجنگ آزادی(بغاوت) کاپیغام دے دیا۔جنرل یحییٰ سے چوبیس مارچ تک مذاکرات کے کئی لاحاصل دورہوئے۔جس بعدکوئی چارہ نہ پاکرپچیس مارچ کی نصف شب کوصوبہ فوج کے حوالے کردیاگیا۔چھبیس مارچ کی صبح مجیب الرحمٰن نے بنگلہ دیش کی آزادی کااعلان کردیا۔جس کے تھوڑی دیربعداسے گرفتارکرکے مغربی پاکستان منتقل کردیاگیا۔جس کے بعدتشدد اورقتل وغارت گری کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔
لیکن ملک کے اس حصے میں مغربی پاکستانیوں کے لیے زمین تنگ ہونے پرمشفق نے مائرہ اوربابرکولاہوربھیج دیا۔اس موقع پرمشفق نے جذباتی اندازمیںمائرہ سے کہا۔”تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ساراجھگڑاہی قومیت اورلسانیت کاہے ،جسے وجہ بناکرخودغرض مجیب میرے پیارے وطن پاکستان کی سالمیت کوداؤ پرلگابیٹھاہے۔تم نے بنگالیوں کے قتل کی کوئی خبرسنی؟جب بھی سنی ہوگی کسی مغربی پاکستانی کے قتل کی خبرہوگی۔ہوسکتا ہے ہم بہت جلدملیں،ہوسکتاہے دیرہواوریہ بھی ممکن کہ ہم آج کے بعدکبھی نہ مل سکیں۔تمھیں یہ ہروقت ذہن میں رکھناہوگاکہ تم ایک سپاہی کی بیوی ہوجسے کسی بھی وقت کوئی بھی خبرمل سکتی ہے۔اگرکبھی تمھیں یہ خبرملے کہ میں نہیں رہاتوتم نے سوگ نہیں منانا۔تمھیں ایک جیون ساتھی کی ضرورت ہوگی سوآج میں بخوشی اجازت دیتاہوںکہ تم اپناہمسفرضرور چن لیناکیونکہ اکیلے زندگی گزارنابے حدمشکل ہے۔اگرخدا نخواستہ مجیب کامیاب ہوگیاتومیں مرجاؤں گالیکن نہ توہتھیارڈالوں گااورنہ ہی اس دھرتی پررہناپسندکروں گا۔جہاں بھی جیسے بھی ممکن ہوا تم سے رابطہ ضرورکروں گا۔”
مائرہ کوروانہ کرنے کے بعدمشفق اپنے قومی مشن میں دل وجان سے مصروف ہوگیا۔ماہ اکتوبرمیں پاک فوج اورمکتی باہنی میں کھلی جنگ شروع ہوگئی۔مکتی باہنی نے مون سون شروع ہونے سے پہلے گوریلاجنگ شروع کردی تھی ،یوں ایس ایس جی کے آپریشنزمیں اضافہ ہوگیا۔کیپٹن مشفق بھی آرام کیسے مل سکتاتھا؟ بھارت کی کھلم کھلامددکے باعث پاکستانی افواج پردباؤبڑھتاجارہاتھا۔اکتوبرمیں جنرل یحییٰ نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کودورے کی دعوت بھی دی تھی تاکہ دوطرفہ فوجی انخلاء پربات کی جاسکے۔لیکن بھارت نے اسے مستردکردیا۔چھ دسمبرانیس سواکہترکوبھارت نے پاکستان کے وفاق کومستردکرتے ہوئے بنگلہ دیش کوآزادمملکت تسلیم کرلیا۔ہرچندگھنٹے بعدنئی صورتحال پیش آرہی تھی۔بارہ دسمبرکوڈھاکہ کے نواح میں بھارت نے اپنے چھاتہ برداراتارکربساط لپیٹنے کااعلان کردیا۔یحییٰ خان نے نوشتہ دیواردیکھ کرپندرہ دسمبرکوتمام ملبہ کمانڈرمشرقی پاکستان امیرعبداللہ نیازی کے سرپرلادکراسے مناسب فیصلے کرنے اورجنگ ختم کرنے کااختیاردے دیا۔بھٹواوریحییٰ کی پاکستان کواپاہج کرنے کے بعدآخری رسومات اداکرنے کی ذمہ داری جنرل نیازی کے کاندھوں پرڈالنے کی چال وہ آخری کوشش تھی جسے نیازی نے بھانپ لیاتھا اورنہیں چاہتاتھاکہ ہاتھ سے نکلتی ہوئی جنگ میں بے گناہوں کاخون بہائے۔چنانچہ ہزیمت کی ذمہ داری اپنے سرلیتے ہوئے اس نے سولہ دسمبراکہترکومشرقی کمانڈکے زیرکمان افواج کوشکست تسلیم کرنے کاحکم دے دیااوریوں سقوط بغداد کے سات سوتیرہ سال اوردس ماہ بعدتاریخ نے خود کوڈھاکہ میں دہرایا۔یہاں ایک مرتبہ پھرمصنف نے جنرل نیازی کویکسربے قصور ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔جبکہ ہتھیارڈالنے کی تقریب میں جنرل اروڑاکے سامنے ہنستے ہوئے نیازی کی تصاویردیکھنے والوں کوآج بھی یاد ہیں۔اس کے بارے میں مشہورکہانیوں کی بات نہ بھی کی جائے تب بھی یہ بات ایک سے زائدمصنفین نے لکھی ہے کہ اس وقت نیازی جنرل اروڑاکوفخش لطائف سنارہاتھا۔یہ رویہ مجبوراً ہی صحیح ایک ہتھیارڈالنے والے جنرل کانہیں ہوسکتا۔
ناول کااہم ترین آخری حصہ جوکہانی کی جان ہے۔جب ریڈیوپراعلان ہواکہ مشرقی کمانڈحالات کی سنگینی دیکھتے ہوئے مشرقی پاکستان میں موجودتمام پاکستانی افواج کوہتھیارپھینکنے اورقریبی ہیڈکوارٹرپہنچنے کاحکم دیتی ہے۔میجراقبال ،کیپٹن مشفق الاسلام سمیت اپنی کمپنی کے دیگر افسروں کے ساتھ کمانڈ پوسٹ میں بیٹھے تھے۔مشفق اچانک پھوٹ پھوٹ کررودیا۔اس نے میجراقبال سے کہا۔”سر!میں ہتھیارنہیں پھینکو ںگااورنہ ہی قیدہوناپسندکروں گا۔سرمیں فرارہونے کوترجیح دوں گا۔میں مغربی پاکستان ہی جاؤں گاکیونکہ وہی پاکستان ہے اورمیراوطن ہے۔میجراقبال نے کہا۔”تم بہت بڑے خطرے سے کھیلنے جارہے ہو۔سودوسومیل کے سفرکی بات ہوتی توشایدمیں بھی تمہاراساتھ دیتامگر یہ توپورے ہزارمیل کامعاملہ ہے اورپھربیچ میں یاتووسیع بحرہنداوریاپھرازلی دشمن بھارت کی دھرتی جہاں قدم قدم پرخون کے پیاسے ملیں گے۔”مشفق نے کہا۔”سرکیااس سے پہلے خطرے موجود نہیں تھے؟زندگی کی شام توکسی بھی موڑ پرہوسکتی تھی۔اگرنہیں ہوئی تواس کامطلب ہے وہ کہیں کسی اورمقام پرلکھی ہے جہاں میرافیصلہ مجھے لے جارہاہے۔”
مشفق اپنے اردلی اورکیپٹن اسدکے ساتھ چٹاگانگ سے برمامیں داخل ہوا۔برماکے جنگلات میں لوگوں سے روپوش رہتے ہوئے وہ کئی مرتبہ راہ بھٹکے ۔جنگلات میں ان کاجان لیواسفرایک سال سے زائدجاری رہا۔اس دوران اردلی باگھ کاشکارہوااوراسدبھی شہید ہوگیا۔صبر آزماجدوجہدکے بعدجب مشفق رنگون پہنچاتووہاں آمرجنرل کی حکومت اسے پس زندان ڈال کربھول گئی اوراس کے بارہ سال زندان ہی میں بسرہوئے۔آخرایک مقامی نیک دل شخص نے اس کی جیل میں موجودگی کی خبرپاکستانی سفارت خانے کوپہنچائی۔جن کی کوششوں سے مشفق کورہائی حاصل ہوئی۔فرار کے داستان ناول کابہترین حصہ ہے۔
مجموعی طور”ڈھاکہ!میں آؤں گا” کاشماراردوکے چندبہترین ناولوں میں کیاجائے گا۔مستقبل کاکوئی بھی نقاداس ناول ،اس کے موضوع اور کہانی کانظراندازنہیں کرسکتا۔محققین کوبھی ناول کی روشنی میںسقوطِ ڈھاکہ کے حقائق کاازسرنوجائزہ لیناہوگااوریہ ناول سیاست سے دور ہونے کے باوجوداس کام میں اہم رہنمائی کرے گا۔سہیل پروازکوشاندارناول تحریرکرنے پربھرپورمبارکباد پیش ہے۔ان کی مزیدتحریروں کا قارئین کواس ناول کے بعدانتظاررہے گا۔