افغانستان میں تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی صورتحال پر ایک بار پھر ہم عقیدت و محبت اور عداوت والے گروہوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، ہر جانب حقیقت پسندی کی بجائے مبالغہ آرائی کا غلبہ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سپر پاور کی بدترین شکست پر تقریبا سارے حقیقت پسند شاداں ہیں، تاہم ذاتی پسند و پسند کے حوالے سے تقسیم در تقسیم ہیں۔
1۔ #جذباتی_گروہ!
ایک گروہ عقیدت و محبت اور جذبات میں اس حدتک گمان کر رہا ہے کہ بس دنیا فتح ہوگئی اور کلی طور پر بس حقیقی اسلامی نظام پورے عالم میں نافذ ہوگا اور اس میں اہم، بلکہ کلی اصل کردار افغان مزاحمتی قوت یعنی بوریہ نشینوں کا ہوگا اور وہ افغانستان سے بس سارے عالم کا رخ کریں گے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افغانستان میں بوریہ نشینوں غلبے کے مثبت اثرات قرب و جوار بلکہ پورے عالم میں ہونگے۔ مگر اس جذباتی گروہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بوریہ نشینوں نے ماضی سے بہت حد تک سبق حاصل کیا ہے اور اب وہ غلطیاں نہیں کریں گے ،جو ماضی میں کرچکے ہیں اور کلی استحکام تک قرب و جوار پر انکی کوئی توجہ نہیں ہوگی، بلکہ اگر پڑوسی ممالک نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو بوریہ نشین عملا ان سرحدوں کے محافظ ہونگے اور اپنی سرزمین کسے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔ ویسے بھی افغانوں کے حوالے سے اب رائے ہے کہ انکی ساری توجہ اپنے ملک کے اندرونی حالات پر ہے، اس لئے جذباتی گروہ کو حد سے نہیں گزرنا چاہیے۔
2۔ #عداوتی_گروہ!
دوسرا گروہ عداوتی یا بغضی ہے ،اس گروہ کو افغانستان میں استحکام اور عوام سے کوئی غرض نہیں، اس کو بس نظریاتی بدترین دشمنی سے مطلب ہے، اگر یہ گروہ حقیقت کا ادراک کرتا تو 20 سال کی جنگ اور مزاحمت کا ادراک کرتے ہوئے تسلیم کرتا تاکہ جن لوگوں نے عالمی قوتوں کو بے سرو سامانی کے عالم میں شکست سے دوچار کیا ، یقینا ان کو عوامی ہمدردی حاصل ہوگی اور ہے بھی ، مگر یہ یہ عداوتی یا ملاتی گروہ اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس گروہ کو سوائے بدنامی اور خون جلانے کے کچھ نہیں ملے گا۔
3۔ #حقیقت پسندگروہ!
اس گروہ کو اصل صورتحال کا ادراک بھی ہے اور مستقبل کے حوالے سے کسی حدتک درست تجزیہ بھی کرتا ہے ، مگر یہ لوگ بہت کم ہیں۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ فیصلے کا حق افغانوں کو ہے اور انہیں ہی کرنا چاہیے۔
4۔ #انصاف_کی_بات!
انصاف کی بات یہ ہے کہ ہم سچ سنا، دیکھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہتے ہیں تو اندھی عقیدت اور عداوت سے گریز کرتے ہوئے نمبر 3 گروہ کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اسی میں ہمارا فائدہ ہے اور یہی ہمارا مثبت کردار ہوگا۔