بالآخر گذشتہ بارہ سال سے جاری پنجابی قوم پرستی کی منظم اور مربوط لہر نے پہلی بار جھنگ کی صورتحال کے حوالے سے باقاعدہ سیاسی ردعمل دیا جو ایک اہم سنگ میل ہے کیونکہ اس سے پہلے پنجابی قوم پرستی کا پھیلاؤ تو ہورہا تھا ، قوم پرستوں کی تعداد بڑھ تورہی تھی لیکن گذشتہ بارہ سال سے پنجابی نیشنلزم صرف پنجابی شعر وادب یا ماں بولی ریلی تک ہی محدود تھا جبکہ میرا شروع ہی سے یہ موقف تھا کہ کوئی بھی قومیتی تحریک شعر وادب یا زبان دانی تک محدود نہیں ہوتی بلکہ سیاسی اور قومیتی اشوز اٹھانے ، اس کے بارے جدوجہد کرنے اور اپنی قومیت کے اقتصادی ، معاشی ، جغرافیائی ، اور تاریخی حقوق کے تحفظ اور جدوجہد کا نام ہوتی ہے ، چونکہ پنجابیوں میں بدقسمتی سے سیاسی اور قومیتی شعور کی شدید کمی رہی ہے تو مجھ سے خود ایکٹو پنجابی قوم پرست بھی اختلاف کرتے ہوئے ماں بولی اور شاعری کو پنجابی قوم پرستی سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا تھےلیکن جھنگ کی صورتحال نے پہلی بار پنجابی قومیتی تحریک کو اگلی صف میں لاکھڑاکیا ہے ، وہ اس طرح کہ پنجابی قوم پرستوں نے اس پر سخت ردعمل دیا ، ایک دوسرے سے رابطے کئے اور جھنگ میں پولیٹکل ایکٹوزم ہوا، مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب لاہور سے میاں آصف ، پنڈی سے پنجاب سیوک سانجھ کے چراغ الدین وانہ اور ملتان سے پنجابی دانشور کاشف حسین سندھو نے واٹس ایپ کالز پرایک جیسے ردعمل کا اظہار کیا اور فیصلہ کیاگیا کہ تمام پنجابی قوم پرستوں کو پنجاب کے سوال پر ون پوائنٹ ایجنڈا اپنانا ہوگا ۔
یاد رہے کہ جھنگ کا معاملہ اس وقت اشو بناجب ممبر پنجاب اسمبلی معاویہ اعظم نے جو خیرسے غیرسیاسی زہن کے ایک پیدل ملا ہے پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جھنگ کو ڈویژن بناکے مجوزہ جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیاتو اس پر پنجاب سیوک سانجھ کے وانہ صاب اور میاں آصف پنجابی پرچار ایکٹو ہوگئےاورچج چج ادبی پروار جھنگ کے عبدالرحمان ساجدکے ساتھ مل کر احتجاج ایکٹو کیا، جھنگ بار ایسوسی ایشن نے بھی تقریر کے خلاف قرارداد منظور کی، ممبر پنجاب اسمبلی کی سیاسی پارٹی اور ان کے والد کو پنجابیوں کی تشویش سے آگاہ کیا جس سے جھنگ کی سیاسی صورتحال بدل گئی اور آج اس ملاں ممبر اسمبلی کو احساس ہوگیا کہ مذہبی تقریریں کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حساس قومیتی اشوز پر منہ اٹھاکے اپنا لُچ تلتے پھریں ۔
پنجابی نیشنل ازم کا یہ موڑ خوش آئند ہے اور دائروں کا یہ سفر مزید وسیع ہوگا جیسا کہ میں اپنی ایک پہلے کی پوسٹ میں عرض کرچکا ہوں کہ جھنگ کی طرز پر خانیوال، بورے والا ، ملتان ، وہاڑی اور لیہ کے پنجابیوں کو بھی ایکٹو کیاجائے، وہاں موجود پنجابی قوم پرست پانچ سات دوستوں کے ساتھ بھی ایکٹوزم کرسکتے ہیں اور عام پنجابی کو قومیتی شعور دے سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں بڑی زمے داری لاہور میں موجود پنجابی قوم پرست رہنماؤں کی بنتی ہے کہ وہ جنوبی پنجاب میں پولیٹکل ایکٹوزم شروع کریں، ہمیں کلچر سرگرمیوں سے اب پولیٹکل سرگرمیوں کی طرف بڑھنا ہوگا۔