میری نانی خاصی خوش شکل خاتون تھیں ہم نے ان کو تقریبا بڑھاپے میں دیکھا لیکن اس وقت بھی آثار بتاتے تھے کہ عمارت عظیم تھی خاندان کے بزرگ اور ان کے ہم عمر انہیں کلو کے نام سے پکارتے تھے ایک مرتبہ میں نے نانی سے دریافت کیا کہ آپ اس عمر میں بھی خاصی خوبصورت ہیں آپ کو کلو کیوں کہتے ہیں نانی نے کہا کہ بچپن میں وہ بہت گول مٹول اور گوری تھیں اس لئے نظر بہت لگتی تھی جس کی وجہ سے وہ بیمار ہوجاتی تھیں گھر والوں نے ٹوٹکے کے طور پر انکو کلو بلانا شروع کردیا انکا یہ بچپن انکے پچپن تک چلتا گیا زندگی کی آخری سانس تک انکو کلو ہی کہا جاتا رہا۔
ثمینہ نذیر کے افسانوں کے مجموعے کلو کو ہم نے یہی سوچ کر پڑھنا شروع کیا کہ ثمینہ نے بھی اپنی کتاب کا نام کلو اسی لئے رکھا ہے کہ کہیں کتاب کو نظر نہ لگ جائے لیکن پیش لفظ میں ہی ثمینہ نے جتادیا کہ نام رکھائی کی یہ رسم وبا کے ابتدائی دنوں ہوئی تھی جہاں یہ فرض مرحوم آصف فرخی نے انجام دیاتھا اور آصف فرخی بھی کیا کمال آدمی تھا جو ہم سے چھین لیا گیا اب یہ ثمینہ کی تحریر کا جادو ہے یا آصف فرخی کے رکھے گئے نام کی برکت کہ کتاب خوب چلی ،میری ثمینہ نذیر سے ملاقات نہیں ہے آرٹس کونسل میں ان کو انکی اپنی کہانی پڑھتے دیکھا تھا تب سے کہانی، انداز اور پڑھنت تینوں کا دلدادہ ہوں۔
وسعت اللہ خان نے کلو کو سات افسانے اور ایک ڈرامہ کی کتاب کہا ہے جبکہ مصنفہ نے اسے چھ افسانوں اور دو ڈراموں کی کتاب لکھا ہے ہم دونوں کو درست مان لیتے ہیں اس لئے کہ ہمیں ثمینہ کی کہانی اور وسعت اللہ خان سے تعلق دونوں عزیز ہیں ۔ فلیپ پر شمیم حنفی مرحوم، سیف محمود
( نئی دہلی) رحمن عباس (بمبئی) وسعت اللہ خان، بی گل، اور جیم عباسی کی آراء موجود ہیں اور یہ سب نہایت وقیع و صاحب الرائے ہیں,
کالج کے ابتدائی دنوں اور جوانی کے ابتدائی پہر میں واجدہ تبسم کی حیدرآبادی کہانیوں کو پڑھا تھا کچھ کھلی ڈلی کچھ ڈھکی چھپی یہ کہانیاں اس وقت بہت مزا دیتی تھیں ، اور اب ڈھلتی دوپہر میں ثمینہ نذیر کی حیدرآبادی کہانیوں نے مزا دیا ، ریاست حیدرآباد کے بگھارے بینگن اور کھٹی دال کی طرح یہ کہانیاں بھی بہت تیکھی اور مصالحہ دار ہیں ۔ برسوں کے بعد کلوٹ اور کنٹوپ لکھے دیکھے تو گئے زمانے یاد آگئے جب سگھڑ بیبیاں زچگی سے پہلے ہی کلوٹ و کنٹوپ تیار کرلیتی تھیں۔
یقینا کلو ایک دلآویز افسانہ ہے اس کو پڑھنے کے بعد پہلے ایک بانجھ پن سے زیادہ جہالت اور مردانہ بالادستی سے دبی ہوئی عورت سے ملاقات ہوتی ہے اور اس کے بعد نسائی طاقت اور محبت میں ڈوبے ہوئے رشتہ کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے لیکن بحیثیت طالبعلم مجھے شنکر کے کردار والے ” بی اماں” نے بہت متاثر کیا ، ہجرت اور اس کے نتیجے میں آنے والے دکھوں سے بھرا یہ افسانہ آنکھوں میں نمکین پانی بھردیتا ہے۔ بنگال بنگالی اور بنگالن رونا لیلی یاد آجاتی ہے، ندی کنارے بانسری بجانے والے اور کشتیاں چلانے والے یاد آجاتے ہیں، مکالمے رقم کرنے لگوں تو کئی پیراگراف نقل کرنے لگیں گے، بی اماں ہی میں دیکھئے ” ریڈیو پر جب بھی میری غزلیں نشر ہوتی ہیں تو بی اماں رونے لگتی ہیں اور سنا ہے کہ ابو ریڈیو کو سینے سے لگائے دھاڑیں مار کر روتے ہیں، پتا نہی کیوں؟
ذرا بی اماں کو یہاں دیکھئے ” جلیل کو داماد بنالئے؟ بنگالی کے بیٹے کو؟ ہندو کو؟ تم بھی وہ اچ گو موت میں جاگرے خمرو؟ دیکھئے کیا عکاسی ہے کیا ہجرت کے دکھ ہیں جو نسل در نسل منتقل ہورہے ہیں ۔
ثمینہ نذیر میں سمجھا تھا کہ یہ کلو نام کے افسانے دراصل واجدہ تبسم کے افسانوں کا” ساشے پیک” ہیں لیکن میں غلط تھا آپ نے اپنی نئی راہ متعین کی ہے اور ہم۔سب آپ کی اگلی کتاب کے منتظر ہیں جس میں ہم اپنے سماج کی کچھ نئی تصاویر دیکھیں گے جو دراصل ہماری اپنی کہانیاں ہونگی۔