* مرتے وقت بھی شہریوں سے ٹیکس، حکومت مفت تدفین یقینی بنائے۔
بونے پوسٹوں پر قابض ہیں ۔ھر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں۔کیا ھو گا ؟ چیف جسٹس لاھور ہائیکورٹ*
لاھور ہائی کورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس جناب محمد قاسم خان نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا کہ حکومت فوری طور پر شہریوں کے لیے مفت تدفین کا سرکاری طور پر بندوبست کرے۔ جب کہ حکومت کا موقف یہ ہے کہ کورونا اور مہنگائی سے اگر عوام جانبر نہیں ہو سکے تو اس میں حکومت کا کیا قصور ہے پھر بھی ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہوگی کہ فوری طور پر قبرستانوں کو ڈویلپ کرنے کا ایک ہنگامی اور جنگی پروگرام بنائے۔ حکومتی ترجمان نے کہا کہ حکومت قبر سازی کو ایک صنعت کا درجہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے لئے ایک بین الاقوامی سطح کی “انویسٹر کانفرنس” منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جس کے لئے بیرون ملک تمام سفیروں کو بھی فوری طور پر متحرک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ حکومت اس نادر موقع کو ضائع کرنے کا رسک نہیں لے سکتی ۔تاکہ اسے ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کیا جا سکے ۔حکومت کی کوشش ہوگی کہ موٹرویز اور سی پیک کے ساتھ بین الاقوامی انویسٹرز کے لئے ٹیکس فری قبرستانوں کے لئے زمین “ننانوے سالہ لیز” پر زمین فراہم کرے۔ انہوں نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جناب محمد قاسم خان کو یقین دلایا کے قبرستانوں میں تمام جدید سہولیات، مثلا گیس بجلی اور وائی فائی وغیرہ بھی دستیاب ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کو آئینی تحفظ دینے کے لیے ڈاکٹربابراعوان بھی ایک پیکج تیار کرنے میں دن رات مصروف ہیں ۔ ترجمان نے کہا کہ فاضل چیف جسٹس نے اپنے آخری کیس میں حکومت پر بلا وجہ برہیمی کا اظہار کیا اور کوئی پرانا غصہ نکالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب خوب جانتے ہیں کہ حکومت نے کئی ہزار ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔لہذا اس صورتحال میں بالکل مفت قبریں مہیا کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔حکم اس سلسلےمیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لئے جلد حکومتی وفد امریکہ بھجوانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔تاکہ قبروں کے صارفین کے لیے سبسڈی کا کوئی منصوبہ تشکیل دے سکیں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت قبروں پر تا قیامت ٹیکس جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔البتہ گریڈ سولہ تک فوت شدگان کے لئیے رعائیتی پیکج متعارف کروائے جا سکتے ہیں ۔پہلے چالیس دن کا کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ ھماری کوشش ھوگی کہ قبرستان انڈسٹریل اسٹیٹس میں ترقیاتی کام فوری طور پر مکمل کیے جا سکیں اس سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں بھی مدد ملے گی انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت کو مالی خسارے سے نکلنے کا اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ ہمیں امید ہے کہ صنعت قبر سازی سے ہم سالانہ اڑھائی ہزار ارب روپے کما سکیں گے ۔اگر عدلیہ ہاتھ ہولا رکھے تو ہم آئندہ سال خسارے کے بجائے فاضل بجٹ پیش کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
حکومت کے مشیر قانون نے کہا سبکدوش ہونے والے فاضل چیف جسٹس نے ایک دوسرے کیس میں اپنے ریمارکس میں کہا کہ بونے حکومتی پوسٹوں پر بیٹھے ہیں اور مزید فرمایا کہ “ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا؟ وزیر قانون نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب کی برہمی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ جتنے بھی بونے اور الو دستیاب تھے ہم نے ان کو من پسند پوسٹیں دے دی ہیں کیونکہ اسامیاں بڑی تعداد میں خالی پڑی تھی لہذا ابھی بھی ہمیں ہزاروں بونوں اور الووں کی فوری ضرورت ہے۔مشیر امور نوجوانان سے”انصاف ٹائیگر فورس” سے بونوں اور الووں کی مطلوبہ تعداد فراہم کرنے کی درخواست کی جائے گی ۔ بونے تو شاید ہم چین سے بھی امپورٹ کر سکتے ہیں۔ مگر الوؤں کی ہنگامی فارمنگ کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ جناب وزیراعظم عمران خان کے بلین ٹری سونامی کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں شاخیں خالی پڑی ہیں مگر مطلوبہ تعداد میں الو دستیاب نہیں ہو رہے۔ جبکہ تمام موجود سٹاک آن جاب ہے۔
ہمارے ذرائع کے مطابق حکومت پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے آپشن پر بھی غور کر رہی ہے نیز اس کے لیے ایمپلائمنٹ ایکسچینج بورڈز کی فوری تشکیل کی متعدد تجاویز پر بھی غور کیا گیا۔ حکومتی مشیران نے مشورہ دیا کہ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بونوں اور الووں کی سپلائی کرنے والی بڑی فرمز پارٹیز اور کمیشن ڈیلرز کو بھاری کمیشن کی آفر کرکے اس قومہ بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔