ملالہ یوسف زئی نے نکاح کو ایگریمنٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پارٹنرشپ کےلئے نکاح لازم کیوں ہے۔
ہمارے دوست اس پر بہت اعتراض کررہے ہیں لیکن ہم مذہب سے زیادہ اپنے ریت رواج کلچر کی بنیادپر اعتراض کررہے ہیں، میں اس بات کی وضاحت کردیتا ہوں۔
فقہ مالکی کے تحت اگر لڑکا لڑکی ساتھ رہنا شروع کردیں تو وہ میاں بیوی تصور ہوں گے ، کسی نکاح یا مولوی کی ضرورت نہیں سینی گال اور افریقہ کے جن مسلم ملکو ں میں فقہ مالکی فالو کیاجاتا ہے وہاں لڑکا لڑکی بغیر کسی نکاح کے اکٹھے رہنے لگتے ہیں اور وہ میاں بیوی تصور ہوتے ہیں۔
جب میں نے نکاح کی بابت پاکستانی طریقہ بتایا تو میرے سینگالی مسلم فرینڈز ہنسنے لگے۔ نکاح دراصل اعلان ہے کہ بالغ مرد اور عورت اپنی مرضی سے اکٹھے رہ رہے ہیں یعنی وہ اپنا تعلق معاشرے سے چھپائیں نہیں ، ہمارے ہاں جو نکاح کا تصور ہے وہ اسلام کے مطابق نہیں بلکہ ہمارے دیسی کلچر کے تحت ہے ۔نکاح کے لئے مولوی ، کلمے پڑھنا، مہندی کی رسم اور شادی پر کھانے کی بڑی دعوت یہ سب ہماری ایجاد کردہ ہیں۔
باقی رہا نکاح نامہ تو ایوب خان دور میں رائج کیاگیا تھا تاکہ تمام معاملات کا اندراج ہو مثلاً بچے کی پیدائش ،موت ، مردم شماری وغیرہ یہ سارے کام اعدادوشمار کےلئے ڈیٹا جمع کرنے کے لئے ہے۔جب ہمارے بزرگوں کے زبانی نکاح ہوتے تھے اور کوئی نکاح رجسٹر نہیں ہوتا تھا تو کیا وہ غیر شرعی لائف گذارتے تھے۔
لڑکے لڑکی کے تعلقات صرف اس صورت غلط اور قابل گرفت ہیں اگر وہ خفیہ رکھتے ہیں اور دنیا کے سامنے ایک دوسرے کے بہن بھائی بنے ہوئے ہیں۔
اگر لڑکا لڑکی اپنی مرضی سے ساتھ رہ رہے ہیں تو وہ میاں بیوی ہی ہیں ، انھیں کسی سرکاری نکاح رجسٹریشن یا مولوی کی ضرورت نہیں ۔
ایک واقعہ لکھ رہا ہوں زبانی یاداشت سے ۔
ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آنا چاہتی تھیں لیکن آپ ٹال رہے تھے ۔ ایک دن خاتون نے مسجد نبوی آکر پھر اصرار کیا اور کہا یارسولُ اللہ میں اس لئے اپ کی زوجیت میں آنا چاہتی ہوں کہ روز قیامت آپ کے نام کے ساتھ اٹھائی جاؤں۔
نبی کریم دلیل سن کر راضی ہوگئے۔ اس وقت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر مسجد نبوی میں موجود تھے، نبی کریم نے کہا کہ اے ابوبکر اور اے عمر تم گواہ ہو کہ آج سے یہ میری بیوی ہے۔