ہماری عدالتی تاریخ کا بدنام زمانہ کردار جسٹس منیر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جسٹس منیر نے انتہائی متنازعہ فیصلہ سنانے سے پہلے تمام عدالتی تقاضے پورے کئے تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہماری حالیہ تاریخ کے ایک نابغہ روزگار چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بغیر عدالتی تقاضے پورا کیے ایسا فیصلہ سنایا جس سے ہماری نسلیں برباد ہونے کا امکان ہے۔
ملاحظہ ہو گزشتہ تحریر کے تسلسل میں میرا تازہ مضمون جو ترجمان القرآن لاہور جون 2021کے شمارے میں اپنی تبدیل شدہ شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ (ڈاکٹر شہزاد اقبال شام)
ڈالردینے والے ممالک اور ادارے اپنی پالتو این جی او، ان کے خوشہ چینوں اور دیگر چہیتے ’ریاستی افراد‘ کو گھیرگھار کر اس نقطے پر لے آئے ہیں جس کا نتیجہ رہی سہی، مذہبی ہم آہنگی کے انہدام کی شکل میں نکل سکتا ہے جسے کوئی سمجھ دار مسلمان ہرگز پسند نہیں کرتا۔ مذہبی اقلیتوں کے وہی شہری حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کو اسی طرح عزیز ہیں جیسے اپنے دیگر مسلمان بھائی بند۔ کیا محترم جسٹس گلزاراحمد صاحب یہ نکتہ سمجھنے کی کوشش کریں گےکہ معصوم اقلیتی آبادیوں کے جان ومال کو دائو پر لگانے کی تیاریاں مکمل ہیں؟
سپریم کورٹ کا گزشتہ فیصلہ اور موجودہ صورتِ حال
پہلےیہ وضاحت بشکل معذرت کہ گزشتہ مضمون میں شعیب سڈل کمیشن کی تشکیل ۲۰۱۴ء کےفیصلے میں مذکور ہوگئی۔ یہ کمیشن ۲۰۱۸ء میں قائم ہوا تھا۔ رمضان میں وقت کی کمی کے باعث مضمون کے مشتملات میں نے اپنے ایک محترم ساتھی کی مدد سے جوڑے تھے جس پر آخری نظر نہ ڈالی جاسکی۔ میں اسلام آباد اور ساتھی لاہور میں تھے اس لیے چوک ہوگئی۔ معذرت قبول ہو۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اپنے فیصلے کے ذریعے ۹۶ فی صد مسلمانوں کی راہ میں جوکانٹے بوگئے ہیں وہ تو ہمیں اپنی پلکوں سے چننا پڑیں گے لیکن دل سے دُعائیں موجودہ جسٹس صاحب لیے نکلتی ہیں جنھوں نے مسلمانوں اور اقلیتی آبادی دونوں کےلیے کوئی قابلِ قبول راہ نکالنا ہے۔ یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس مضمون سے انھیں اندازہ ہوجائےگا کہ جو یک طرفہ منظرکشی ۲۰۱۴ء کے فیصلے میں ملتی ہے، حقائق سے اس کا معمولی سا تعلق نہیں ہے۔ جسٹس جیلانی اَزخودنوٹس کےتمام فریقوں کو دل جمعی سے سن لیتے تو آج موجودہ محترم چیف جسٹس کو وہ افراتفری نہ دیکھناپڑتی اورنہ ان کے لیےوہ مشکلات کھڑی ہوتیں جوآج چندسماعتوں کےبعد ملک بھرمیں نظرآرہی ہیں۔
۲۰۱۴ء کے فیصلے نے ریاستی اداروں میں بغاوت کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ سڈل کمیشن نے اپنی رپورٹ حکومت پنجاب کے متعلقہ ادارے کو بھیجی کہ نصاب سے ’اسلام ‘ نکالا جائے تو پنجاب ہی نہیں ملک بھر میں کھلبلی مچ گئی۔یہ ’حکم نامہ‘ ریاستی اندازِ کار سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ نصاب میں تبدیلی کی منظوری کابینہ دے سکتی ہے جس کی مددکےلیے علما کا بورڈ ہے۔ ادھر اسلامی نظریاتی کونسل نے سڈل کمیشن کو یکسر مسترد کردیا۔ سماجی رابطے پر تو الامان والحفیظ۔ ایک وڈیو کلپ دیکھا۔ مقرر فن خطابت سے سامعین کو مسحورکرکے کہتا ہے: ’’سوچئے کہ اب ہم ۹۹ فی صدمسلمانوں کی زندگی کے فیصلے ایک فی صد اقلیتیں کریں گی؟‘‘علیٰ ہذاالقیاس، ملک بھر میں آگ سی لگی ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ کے کرنے کا پہلاکام
لیکن عنوان کے مفہوم میں درخواست پنہاں ہے، اس کےعلاوہ کچھ نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہےکہ تعلیم جیسے اہم موضوع پرجسٹس جیلانی نے وہ فیصلہ دیا جس میں مسلمانوں کاکوئی ماہرتعلیم یا مذہبی راہنماشریک نہیں تھا۔ فیصلے کا محاکمہ توآیندہ سطورمیں ہے لیکن اولیں درخواست یہ ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب اس گزشتہ فیصلے پرنظرثانی کےلیےدوتین ججوں پر مشتمل بنچ نہ بنائیں بلکہ کم از کم دس ججوں پر مشتمل بنچ اس ہولناک فیصلے کو بغور دیکھے۔ یہ کوئی ایسا معمولی فیصلہ نہیں ہے جسےمسلمان ٹھنڈے پیٹوں سہ لیں گے، ہرگز نہیں۔
نصاب میں کیا رکھا جاتا ہے اور کیا نکالاجائے گا،یہ اہم نہیں۔ سپریم کورٹ محترم و مقدس ادارہ ہےجس کا فیصلہ تمام ملک کےلیے اس کی اطاعت واجب ہے۔ درخواست یہ ہے کہ سپریم کورٹ تعلیم اور مذہب سےمتعلق تمام متعلقہ فریقوں کو بلاکر سن لے۔ کیا یہ کام 2014ء میں ہوا تھا؟ نہیں چیف صاحب یہ کام نہیں ہوا ،لہذا آپ بنچ بنا کر اخبارات،ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹی وی اور بذریعہ اشتہار تعلیم سے متعلق افراد اوراداروں کواپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کو کہاجائے۔ ان میں ایچ ای سی،جامعات کے وائس چانسلر، اساتذہ تنظیمیں، والدین کی انجمنیں، صوبائی اور وفاقی تعلیمی محکمے اور دیگرمتعلقین شامل ہیں۔ اقلیتوں کےٰ نمایندہ افراد بھی اپنا موقف پیش کریں، پھرفیصلہ ہو۔
آیندہ سطور میں وہ شواہد پیش خدمت ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ نصاب میں اسلام کاوجود یاعدم وجود کوئی مسئلہ نہیں تھا،نہ ہے۔ اقلیتی نمایندوں کا نقطۂ نظر پڑھنے کے بعد آپ پرواضح ہوجائے گا کہ انہیں نصاب پر اعتراض نہیں بلکہ اس مہم کی پشت پر غیرملکی سرمایے سے چلنے والے ادارے اور ان کے افرادِکار ہیں جو ملک میں افراتفری کے لیے دانستہ اور نادانستہ طور پر کوشاں رہتے ہیں۔ یہ عالم فاضل لوگ اپنی ان لامحدود نفسانی خواہشات کے اسیر ہیں، جنھیں مضبوط کرنسی ڈالر پورا کرسکتی ہے، لاغر پاکستانی روپے میں اتنی جان نہیں کہ وہ ان کی خواہشات کا ساتھ دےسکے۔ لیکن پہلے جسٹس جیلانی کےفیصلے کا محاکمہ!
جسٹس جیلانی کے فیصلے کے اہم نکات
جسٹس جیلانی کے اس فیصلے کے نمایاں فریقوں اور ان کی استدعا کا مختصر بیان یوں ہے۔ نمایاں افراد میں ہندو، مسیحی اور سکھ مذاہب کے سائلان اور نمایندہ افراد، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل،یا ان کے نمایندے تھے۔ مسلمانوں کے کسی نمایندے کا ذکر فیصلےمیں نہیں ملتا۔ قضیے کا آغاز پشاور میں مسیحی چرچ پر حملےسے ہوا۔ جسٹس ہیلپ لائن نامی این جی او نے چیف جسٹس سے اَزخود نوٹس کی اپیل کی، جولیا گیا۔ کچھ ہندو درخواست گزاروں کو بھی شامل کیاگیا کہ ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ دیا جائے۔ ڈان کےاداریے کی بنیاد پر کیلاش کا ذکر ہوا کہ انھیں مذہب بدلنے پر مجبورکیاجارہا ہے۔ ہندوشادیوں کی رجسٹریشن کا مسئلہ تھا۔ اقلیتی آبادیوں کے لیے ملازمتوں میں کوٹے کا ذکر بھی آیا۔
چند اُمور انتظامی افسران کی وضاحتوں سےنمٹا دیئے گئے۔ اس اَزخود نوٹس میں نہ تو نصابِ تعلیم کا ذکر تھا، نہ محکمہ تعلیم کاکوئی نمایندہ پیش ہوا۔ یہ امر باعث ِتعجب ہے کہ فیصلے میں جسٹس جیلانی اقلیتی آبادیوں یامسلمانوں سے اندھا انصاف کرنے کےبجائے این جی او اور ان کےنمایندوں کے وکیل کاکردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔ لہذا لازم ہے کہ فیصلے میں سے ایک ایک نکتہ لے کرفیصلے کامحاکمہ کیاجائے۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کی نسلوں کی بربادی کاسامان ہے۔
اقلیتی عبادت گاہوں کاتحفظ
فاضل جسٹس جیلانی اس سلسلے میں اتنا آگے نکل گئے کہ پی پی سی کے سیکشن ۲۹۵- بی یا ۲۹۵-سی کو تو ایک طرف رکھیں، انگریزی عہد کے سیکشن ۲۹۵ پر بھی انھیں اطمینان نہیں تھا۔ ملاحظہ ہو: ’’عدالت کو حیرانی ہوئی جب فاضل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ اقلیتی عبادت گاہوں کی بے حُرمتی تعزیراتِ پاکستان کے تحت نہ تو بے حُرمتی ہے اور نہ جرم۔جب دفعہ ۲۹۵ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو ان کے پاس یہ کہنے کے سوا کچھ نہ تھا کہ عبادت گاہوں کی بے حُرمتی چاہے غیرمسلموں کی کیوں نہ ہو، جرم ہے‘‘۔ سوال کسی اور تناظر میں پوچھا جارہا تھا لیکن آگے چل کر اسی تناظر میں حکم نامہ ملاحظہ ہو: ’’ایک مخصوص پولیس فورس تشکیل دی جائے جسے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی پیشہ ورانہ تربیت دی گئی ہو‘‘۔
یہ وضاحت نہیں ہے کہ یہ پولیس فورس قائم کرنا وفاق کے ذمے ہے یا صوبوں کے۔ اور سیکشن ۲۹۵ میں کیا خرابی ہے جو بلاتفریق مذہب تمام عبادت گاہوں کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے۔ کیا چیف جسٹس جیلانی کو وہ سیکڑوں ہزاروں مساجد نظر نہیں آتیں جو اس جنگ میں برباد ہوئیں تو ان کے لیے کیوں نہ ایک الگ فورس بنائی جائے؟ خواتین کے خلاف بڑھتا ہوا مبینہ گھریلو تشدد کس کے علم میں نہیں ہے، اس کے لیے الگ فورس کیوں نہ بنائی جائے؟ ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج میں ذرا غفلت ہوجائے تو لواحقین طبّی عملے کو پیٹنا شروع کر دیتے ہیں تو ہسپتالوں کے لیے کیوں الگ فورس نہ بنائی جائے۔یہاںتمام عبادت گاہوں کے لیے عدالت کا اتنا حکم کافی تھا کہ صوبے اس پرگہری نظررکھیں۔ معلوم نہیں اقلیتوں کے قرب کی خاطر مظلوم مسلمانوں کو چھوڑ کر جسٹس جیلانی عدالتی حدود سے نکل کر انتظامی حدود میں کیوں داخل ہوئے؟ اُمید ہے کسی جامعہ کا کوئی محقق اس نکتے کو موضوع تحقیق بنائےگا۔
اقلیتوں کا اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق
جسٹس جیلانی اقلیتوں کو تبلیغ کا مطلق حق دیتے ہیں، ملاحظہ ہو: ” یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ تبلیغ کا حق صرف مسلمانوں تک محدود نہیں کہ وہی اپنےمذہب کی تبلیغ کریں بلکہ یہ حق دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی حاصل ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مذہب کے لوگوں کو اس کی تبلیغ کریں بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو تبلیغ کریں”۔
دوسری طرف آئین کا آرٹیکل ۲۰ اس بارے میں واضح ہے، الفاظ ملاحظہ ہوں:
Subject to law, public order and morality every citizen shall have the right to profess, practice and propogate his religion.
قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے اندر رہ کر ہرشہری کو اپنے مذہب پر کاربند رہنے، عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
کیا جسٹس جیلانی واقعی اپنے اس فیصلے کے مضمرات سے واقف نہیں تھے۔ آبِ زر میں لکھنے کے لائق اس فیصلے پر اگر اقلیتوں نے عمل شروع کر دیا تو انھیں یاد دلانا بے محل نہ ہوگا کہ آئین کے انھی الفاظ کے ساتھ 1974 ء میں ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں نے اسی تبلیغی حق کے استعمال میں جب اپنے کتابچے تقسیم کیے تھے تو ملک میں کیا آگ لگی تھی؟ کتنے لوگ جان سے گئے تھے؟ اور آئین میں پاکستانی قوم نے کیا متفقہ ترمیم کی تھی؟
جسٹس جیلانی! دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیں جواپنی بنیاد کے خلاف تبلیغ کی اجازت دیتا ہو اور پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ مذہب، بنیاد، نظریے کو تو ایک طرف رکھیں، ہٹلرکے ہاتھوں، یہودیوں کی اجتماعی نسل کشی (Holocaust) کے انکار کی تبلیغ پر اسرائیل ہی نہیں، ڈیڑھ درجن دیگرممالک میں بالفاظِ صراحت سزائیں دی جاتی ہیں۔ متعدد ممالک میں ڈراوے والے دیگر قوانین موجود ہیں۔1987ء تا 2015ء کے عرصے میں چوٹی کے سیاست دانوں، محققین اور پروفیسروں کوہولوکاسٹ کے خلاف صرف تحقیق (تبلیغ نہیں) کرنے کے جرم میں کڑی سزائیں دی گئیں۔ یہ سزائیں چھے ماہ سے چھے سال تک قید اور کروڑوں روپے جرمانے تھے۔
فرانس کے چوٹی کے سیاست دان جین میری لی پین کو اس ایک جرم میں دو دفعہ فرانس اور جرمنی میں سزا سنائی گئی۔حد تو یہ ہے کہ جرمن نژاد آسٹریلوی محقق فریڈرک ٹوبان کو ہولوکاسٹ پرمحض سوال کرنے پر جرمنی، برطانیہ،پھرجرمنی اور آسٹریلیا میں متعدد بار عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا گیا کہ وہ ہولوکاسٹ کے اصل حقائق کی تبلیغ کر رہے تھے جو مذہبی نہیں تحقیقی عمل تھا۔ تحقیقی دنیا میں اتنی دہشت پھیلائی گئی کہ ۲۰۱۵ء سے اب تک کسی نے اس کوچے میں قدم نہیں رکھا۔
جسٹس جیلانی کے دلائل بحق اقلیات پر نظر
عدم برداشت، نفرت، معاشرتی تقسیم اور تشدد پر جج صاحب نے انگریزی اخبار ڈان کے اس چھوٹے سے سروے سے نتائج اخذ کیے جس کے کل شرکا چھ سو کے لگ بھگ تھے۔ کسی یونی ورسٹی میں بی ایس کا طالب علم متعین اہداف والے ایسے اخباری سروے سے نتائج نکالےتو استاد اس کی اسائنمنٹ بِن میں ڈال دیتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اخبار اور متعین اہداف والے ادارےاور این جی او ذہن سازی کے لیے ایسے سروے کرتے ہیں جن کی نہ کوئی علمی افادیت ہوتی ہے اور نہ انھیں کسی سنجیدہ فورم پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے سروے کو اخبار کا معاصر چٹکیوں میں اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ ادھر جسٹس جیلانی صاحب چھ سو افرادکے سروے کو باءیس کروڑ پر نافذ کر گزرے۔
کیا ہماری پارلیمنٹ اعلیٰ عدلیہ کے افراد کی اہلیت پر نظرثانی کرنا پسند کرے گی؟
آئین، قانون اور قرارداد کی قوت
حکومتوں کو احکام جاری کرتے وقت جسٹس جیلانی نے جن دلائل کا سہارا لیا، ان میں سے ایک اقوام متحدہ کی قرارداد مجریہ1966ہے:’’ہرکسی کو فکر،ادراک اور مذہب کی آزادی ہے… اپنے مذہب یا عقیدے کی پیروی کرنے، مشاہدے، عمل اور فروغ دینے اور اس کی تعلیمات عام کرنے کی آزادی ہے‘‘۔ پھر جج صاحب ۱۹۸۱ء کی اقوام متحدہ کی ایک اور قرارداد سے روشنی لیتے ہیں۔قارئین اتنے بے بہرہ نہیں ہیں کہ وہ آئین، قانون اور قرارداد میں فرق نہ کرسکیں ۔لیکن اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو کل کوئی جج1968ء کی اقوام متحدہ کی کشمیرپر قرارداد کی بنیاد پر حکومت کومقبوضہ کشمیر پرچڑھ دوڑنے کا حکم دے دےگا۔
مجھےتو یہ کچھ پڑھ کر اختلاجِ قلب ہونے لگا ہے۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی کے اس فیصلے پر ہماری جامعات کے صرف لا ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں، متعدد دیگر شعبے بھی اپنے طلبہ کو تحقیق پرلگاسکتے ہیں لیکن فی الوقت موجودہ محترم چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کا کوئی ایسا قابلِ اطمینان بندوبست کریں جس سے مسلمان اور اقلیتیں دونوں مطمئن ہوں۔ان دونوں کو نصابِ تعلیم سے کوئی شکایت نہیں ہے، یہ آپ آیندہ سطور میں پڑھیں گے۔ شکایت ہے تو ڈالر خوروں کو، اپنے ڈیڑھ پائو گوشت کی خاطر ۲۲کروڑ عوام کی بھینس ذبح کردینے والوں کو اور ملک میں کسی نہ کسی بہانے افراتفری بپا رکھنے والوں کو۔
موجودہ نصاب پر اقلیتی آراء
راقم اور دیگر بہت سے لوگوں پر دمکتے سورج کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ نصاب میں موجود اسلام اور اسلامی تعلیمات اقلیتوں کو نہ صرف قبول ہیں بلکہ وہ اس حق میں ہیں کہ نصاب علیٰ حالہ رہنا چاہیے۔ اس دعوے کی بنیاد اقلیتوں کےنمایندہ ادارے ’پاکستان مائنارٹی کمیشن‘ کے چیئرمین جناب چیلا رام کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے واشگاف الفظ میں سڈل کمیشن کی سفارشات مسترد کردیں۔اقلیتوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے اندر کھڑے ہوکر انھوں نے کہا کہ موجودہ نصابِ تعلیم بہت مناسب ہے اور ہمیں قبول ہے۔
اب اکیسویں صدی کے اس عہد جمہوریت میں کیا کسی برادری کے نمایندہ افراد کی بات قابلِ قبول ہوگی یا ایک غیرمتعلق ریٹائرڈ شخص کی آرا قبول کرنے پراقلیتوں کو مجبور کیا جائے گا؟ ایسے شخص کی آرا جو اپنی پولیس کمیونٹی کا بھی وفادار نہیں ہے۔ یاد دلانا مناسب ہوگا کہ کوئی چھے ماہ قبل سندھ پولیس کے آئی جی کے غائب ہونے پر ۳۰،۳۵ افسران نے استعفے دے دیئے تو اپنی کمیونٹی کے بارے میں موصوف کے الفاظ ملاحظہ ہوں: ’’ان سب افسران کے خلاف مقدمات کھولے جائیں، ان کو سائیڈ لائن پر کرکے رینجرز سے شو آف پاور کرایا جائے۔ یہ دو دن میں ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ رشوت کے بغیر دودن گزارا نہیں کرسکتے۔ ان کی ایسی کی تیسی‘‘ (تفصیل یوٹیوب پران کی اپنی زبانی سن لیں)۔ اب جس شخص کی وفاداری اپنے ادارے سے نہ ہو، اس سے آپ کچھ بھی توقع کرسکتے ہیں لہٰذا ایک رکنی سڈل کمیشن کی سفارشات پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
جناب چیلارام کے بیان کے باوجود مجھے تسلی نہیں ہوئی کہ سرکاری ادارے میں شاید وہ لوگ ہوتے ہیں جو سرکارکے قریب ہوں۔ یہ سوچ کر میں نے مذہبی اقلیتی آبادی کے قدآور رہنمائوں سے رابطہ کیا کہ وہ وفاقی وزارتِ تعلیم کے اس نصاب پر کیا رائے رکھتے ہیں؟ ان افراد سے میرا سوال یوں تھا: ’’ نئے متفقہ نصابِ کے مضامین اُردو ، مطالعہ پاکستان، تاریخ اور انگریزی میں نعت، حمد، اللہ ،رسولؐ، خلفائے راشدینؓ اور اسلامی تعلیمات پر مبنی نصاب پر کیا آپ کو بحیثیت اقلیتی راہنما کوئی اعتراض ہے‘‘ ؟ سوال کے جوابات جو حاصل ہوئے ،وہ من و عن آپ کی نذر ہیں:
۱- جناب ڈاکٹر سونو کھنگھارانی
یو ٹیوب ملاحظہ ہو
HYPERLINK “https://www.youtube.com/watch?v=_uojr8gbXHE&t=209s” https://www.youtube.com/watch?v=_uojr8gbXHE&t=209s
ڈاکٹر کھنگھارانی صوبہ سندھ کےمعروف شہرمٹھی میں مقیم ہیں۔ پاکستان دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک کے کنوینر ہیں۔ موصوف جنوبی ایشیا کے معروف ادارے ’ایشین دلت رائٹس فورم‘ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے پاکستان سے ممبر ہیں۔آپ ’انٹرنیشنل دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک‘ کے بورڈ میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے اس بورڈ کے ممبر ہیں۔ڈاکٹر صاحب ۳۰ لاکھ غیرمسلموں کے نمایندہ ہیں۔ انھیں ’نشانِ امتیاز‘ بھی مل چکا ہے۔ میں نے اپنا سوال ان کے سامنے رکھا۔جس کا جواب انہوں نے تفصیل اور جامعیت کے ساتھ دیا۔ اس ایک سوال کے جواب میں انھوں نے پندرہ منٹ صرف کیے۔ خلاصہ تین نکات میں تھا جسے دُہرا کرکے میں نے اپنے الفاظ کی تصدیق کرائی۔ انھوں نےتین نکاتی نقطۂ نظر بیان کیا۔ان کےفوری الفاظ یوں تھے:’’یہ(سفارشات) تعصب پر مبنی ہیں‘‘۔ مذکورہ سوال پر ان کا جواب ملاحظہ ہو:
۱- پاکستان مسلمانوں نے بنایا تھا لہٰذا اس 97 فی صدآبادی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق اپنا نظامِ تعلیم مرتب کرے۔ ہم غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ غیرمسلم اقلیتوں کے لیے نفرت انگیز مواد نہیں ہونا چاہیے۔
۲-تقسیم ہند کے بعد اقلیتوں کو یہ اختیار مل گیا تھا کہ وہ پاکستان میں رہیں یا ہندستان میں کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر مسلمانوں نے بنا یاتھا۔ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں لوگ ہندستان ہجرت کرگئے۔ اب یہاں رہ جانے والے غیرمسلم یہ حقیقت قبول کرکے یہاں مقیم ہیں کہ ہم نے اکثریتی آبادی کے ساتھ رہنا ہے اور اکثریتی آبادی کو ملکی نظام اپنی خواہشات پر ترتیب دینے کا حق حاصل ہے۔ ہمیں اور لاکھوں افراد پر مشتمل ہماری اقلیتی آبادی کو اس نصاب پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
۳- ہم تو ویسے بھی مسلمانوں کی طرح اپنے مُردےدفناتے ہیں۔ اللہ، رسول، ان شاء اللہ، اللہ حافظ اور ایسے متعدد الفاظ ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ اسلام، اسلامی تعلیمات اور تاریخ اسلام کا مطالعہ ہماری اپنی ضرورت ہے۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس ملک کا نظام اگر ہماری اولادیں نہیں جانیں گی تو مسلمانوں کو سمجھیں گی کیسے؟ سائیں! اپنے بچوں کو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ملازمتوں کے لیے بھیجنے سے پہلے ہم خود انھیں اسلام اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں تاکہ دوسرے ملک میں انھیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اسلامی تعلیمات سےآگاہی خود ہماری اپنی ضرورت ہے۔ موجودہ نصاب سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
۲- جناب گنپت رائے بھیل مدیر دلت ادب
یو ٹیوب ملاحظہ ہو
HYPERLINK “https://www.youtube.com/watch?v=GK2YKawjBVk&t=28s” https://www.youtube.com/watch?v=GK2YKawjBVk&t=28s
ڈاکٹرکھنگھارانی ۳۰لاکھ شیڈولڈ کاسٹ آبادی کے سیاسی راہنما اور دانشور ہیں۔ سیاسی راہنما کا زاویۂ نگاہ یقینا عوامی اُمنگوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ لیکن اس رہنمائی کو اگر تعلیم و تعلّم کا پیوند لگ جائے تو اس میں بے پناہ وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے جس اگلے غیرمسلم راہنما سے رابطہ کیا وہ جناب گنپت رائے بھیل تھے۔ موصوف اپنے زمانۂ طالب علمی میں میجر خورشیدقائم خانی سے متاثر ہوئے جنھوں نے فوج سے مستعفی ہوکر اپنی زندگی دلت برادری کے لیے وقف کردی تھی۔ میجر صاحب نے ایک سندھی جریدہ دلت ادب جاری کیا تو گنپت رائے ان کے نائب مدیر رہے۔ان کی وفا ت پر رائے صاحب مدیر ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں اور مٹھی میں پڑھاتے ہیں۔ بھارتی دستور کے آرکیٹکٹ ڈاکٹر امبیدکر کی سوانح عمری ’ڈاکٹر امبیدکر کی زندگی کی جدوجہد‘ از سعید شاہ غازی الدین کا آپ نے سندھی ترجمہ کیا۔آپ قلم کتاب تک محدود نہیں بلکہ ۱۹-۲۰۱۳ء تک سندھی جریدے سندھ ایکسپریس میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔
نصابِ تعلیم کے حوالے سے میں نے اپنا سوال ان کےسامنے رکھا تو انھوں نے تفصیل سے جواب دیا۔ ان کی گفتگو سوال کی حدبندی سے باہر تو ہوئی لیکن سوال اور نصابِ سے باہر وہ نہیں گئے۔ نصاب کی نسبت سے تو انھوں نے شروع ہی میں دوٹوک کہہ دیا کہ ہم ۳۰ لاکھ غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اُردو، تاریخ، مطالعہ پاکستان، انگریزی کسی بھی مضمون میں اسلام اور اسلامی تاریخ کا نصاب میں ہوناضروری ہے۔ ان کی گفتگو بھی تین نکات کا احاطہ کرتی تھی:
۱- ۹۰/۹۷ فی صد آبادی کے اس مسلمان ملک میں اسلام کسی بھی شکل میں پڑھایا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
۲- گنپت صاحب کو شکوہ تھا کہ شیدولڈ کاسٹ برادری کے راہنما اور شیدولڈ کاسٹ فیڈریشن کے صدر جوگندر ناتھ منڈل نے کانگرس کی ہندو قیادت کو چھوڑ کر اپنے ۲۱ساتھیوں اور چار سرکردہ اینگلوانڈین کے ہمراہ مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریک پاکستان میں شرکت کی لیکن تاریخ میں صرف مسلم لیگ کابیانیہ پڑھایا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہمارے ان رہنمائوں کا ذکر بھی نصابی کتب میں کیا جائے کہ انھوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔
۳- جناب گنپت رائے نے یہ کہہ کر مجھے حیران کردیاکہ اُردو، انگریزی، تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے نصاب میں اگر اللہ، رسول، نعت، حمد، اور تاریخ پاکستان آتے ہیں (جن سے غیرمسلم بچے ویسے بھی مستثنیٰ ہیں کہ وہ یہ چیزیں یاد کریں)تو اعلیٰ مسیحی تعلیمی اداروں میں کیا مسلمان بچے مسیحی مناجات اور مسیحی دُعائیہ کلمات میں شریک نہیں ہوتے۔دُور نہیں کراچی کے سینٹ پیٹرسن میں دیکھ لیں، میری بات کی تصدیق ہوجائے گی۔
۳- محترمہ رتنا کماری ، بیوہ جسٹس رانا بھگوان داس
یو ٹیوب ملاحظہ ہو
HYPERLINK “https://www.youtube.com/watch?v=ja-RSqz2s7g&t=6s” https://www.youtube.com/watch?v=ja-RSqz2s7g&t=6s
مذکورہ بالا دونوں غیرمسلم راہنما محروم وسائل اور پسماندہ لیکن اکثریتی دلت طبقےسے تعلق رکھتے ہیں۔ برصغیر کے ذات پات کے نظام میں یہ طبقہ کم ترین کہلاتا ہے۔ پاکستان میں یہ مذہبی اقلیت اکثریت میں ہے۔ اس کا نقطۂ نظر سامنے آنے پر مناسب سمجھاگیا کہ اعلیٰ برہمن اقلیتی ہندو کا نقطۂ نظر بھی سامنے آجائے۔ بلندقامت اعلیٰ ذات کے جس برہمن کا نام ذہن میں آیا، وہ آنجہانی جسٹس رانا بھگوان داس تھے۔ سال بھر قبل کسی اور نسبت سے ان کی بیوہ سے فون پر میری بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ اعلیٰ برہمن ہونے کے باوجود روایتی گھریلو پردہ دارخاتون ہیں۔ انھوں نے اپنی طرف سے بات کرنے کا اختیار اپنےبھائی جناب سبھاش چندرکو دیا تھا۔
سبھاش چندر صاحب مکینیکل انجینئر ہیں اور پاک پی ڈبلیو ڈی میں اعلیٰ عہدےپر فائز رہ کرریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کے مطالعہ میں اپنی مذہبی کتاب اُردو سندھی یا انگریزی میں نہیں ہندی رسم الخط میں ہے۔ یوں آپ ان کے مذہبی ہونے کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ میں نے فون کیا تو رنگ ٹون پر ایک ہردل عزیز نعت اس ہندو کی طرف سے سننے کو ملی۔ ان کے سامنے میں نے مذکورہ سوال رکھ کر یہ وضاحت کردی کہ جواب میں جو موقف وہ اختیار کریں گے، اسے بیوہ جسٹس رانا بھگوان داس کا موقف بھی سمجھا جائے گا۔لہٰذا وہ وہی جواب دیں جو محترمہ کے موقف کے قریب تر ہو۔اس وضاحت کے بعد سبھاش صاحب نے دونکاتی جواب دیا:
۱-ماضی میں پورا برصغیر ایک بڑی اور تہذیب یافتہ ہند ووحدت تھی۔ یہاں صرف مقامی لوگ تھے اور انتہائی امیراور مہذب تھے۔ اس کے برعکس حملہ آور تہذیب یافتہ اور امیر نہیں ہوتے۔ابتدائی طور پر گنوار حملہ آوروں نے برصغیر کی تہذیب کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ لیکن بعد میں آنےوالے حملہ آوروہ لوگ تھے جنھوں نے تاج محل، قلعہ جات، باغات،مساجد وغیرہ بنا کر اس مقامی تہذیب میں مزیدنکھار پیدا کیا۔ یہ حملہ آوراب اس دھرتی کا حصہ بن گئے لہٰذا اس دھرتی کی کتربیونت میں یہ مکمل حصہ دار ہیں۔
۲-میرے سوال کہ ’’بعض لوگ تاریخ، مطالعہ پاکستان، اُردو، انگریزی وغیرہ میں اسلام کے تذکرے کی مخالفت کررہے ہیں…‘‘ انھوں نے پورا سوال سنے بغیر بات سمجھتے ہی میری بات کاٹ کر کہا:’’نہیں نہیں، یہ غلط بات ہے‘‘۔اس کے بعد انھوں نے سختی سے اور زور دے کر کہا کہ حمد، نعت اور ایسی دیگر چیزیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ البتہ اوور ڈوز نہیں ہونا چاہیے جیسےکفار نے یوں کہا، یا کفار بُرے ہوتے ہیں‘‘۔ میں نے واضح کیا کہ یہ پرانے نصاب میں تھا جسے نکال دیا گیا ہے۔ میں نے مزید وضاحت کی کہ حمد،نعت وغیرہ یاد کرنے یا امتحان سے غیرمسلم طلبہ مستثنیٰ ہیں تو ان کا جواب تھا: ’’کیوں مستثنیٰ ہیں؟ حمد، نعت میں کیا خرابی ہے؟جناب یہ مسلم اکثریت کا ملک ہے اور مسلمان جب اپنے بچوں کو یہ پڑھاتے ہیں تو ہمارے بچے بھی پڑھ لیتے ہیں۔ جسٹس رانا بھگوان داس اسلامیات میں ایم اے تھے۔ آج کے ہندستانی بنگال کی ہر دل عزیز وزیراعلیٰ ممتابنیرجی اسلامی تاریخ میں ایم اے ہیں۔صاحب! ان لوگوں کا مسئلہ کیا ہے‘‘؟
ججوں کا گروپ لے کر ہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ملنے گئے۔ جسٹس افتخارمحمد چودھری کی بحالی کا پہلادن تھا۔ انھوں نے جسٹس رانا بھگوان داس کو بھیج دیا۔ رانا صاحب نے آغازہی میں اِدھر اُدھر نظردوڑا کر ہمارے ایک باریش پروفیسر سے تلاوت قرآن پاک کرنے کو کہا۔مختصر سی مجلس تھی ،تلاوت نہ ہوتی تب بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا۔
شعیب سڈل اور بعض کالم نگاروں کا مخمصہ
یہ مخمصہ جاننے کے لیےدو واقعات ذہن میں رکھ لیں۔ میں کبھی اپنے ادارے کی کونسل کا سیکرٹری تھا۔ اجلاس بلانا اور ا نتظام کرنا میرے ذمہ تھا۔ لاہور میں مقیم ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحب کو فون کرکے کہا کہ فلاں تاریخ کو ایک روزہ اجلاس ہے۔ آپ صبح کی پرواز سے تشریف لاکر شام کو واپس تشریف لے جاسکتے ہیں۔بولے: ’’آپ دو دن کا اجلاس رکھیں ۔میں رات ادھر ہی رہ کر عزیزوں، دوستوں سے مل لوں گا‘‘۔اپنے ڈائرکٹر جنرل جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو بتایا تو انھوں نے مسکرا کر اجلاس دو دن کے لیے رکھ لیا۔ایک مسئلہ درپیش تھا جسے انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی کے بورڈآف گورنرز میں زیربحث آنا تھا اور بورڈ نے فیصلہ کرناتھا۔ میں نے ضروری سمجھا کہ بورڈ کے دوایک ارکان سے مل لوں۔لاہور کے ایک ریٹائرڈ وائس چانسلر کی خدمت میں حاضر ہوا جو بورڈ کے رکن تھے۔ بات بغور سن کر اُنھوں نے مجھ سے مکمل اتفاق کیا۔ لیکن مسکراتے ہوئے صاف گوئی سے اعتراف کیا کہ میں آپ کے نقطۂ نظر کے درست ہونے کے باوجود اجلاس میں اس کے حق میں نہ صرف بولوں گا نہیں بلکہ خاموشی اختیار کروں گا۔
اس کی وضاحت انھوں نے یوں کی: ’’دیکھیں ڈاکٹر صاحب! بورڈ کا اجلاس سال میں چار دفعہ ہوتا ہے۔ وہ مجھے بلا کر دو دن اسلام آباد ٹھیراتے ہیں۔ میں پرانے دوستوں، عزیزوں سے مل لیتا ہوں اگر اجلاس میں مَیں نے انتظامیہ کی مخالفت میں آپ کے اصولی موقف کو سہارا دیا تو تین سال بعد مجھےوہ دوبارہ بورڈ کا رکن نہیں بنائیں گے‘‘۔ میں منہ لٹکائے واپس آگیا (میدانِ محشر میں ان دونوں واقعات کو میں اسی طرح بیان کروں گا)۔
اب آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ سرکاری وسایل پر قایم شعیب سڈل کمیشن نےمعمولی سی رپورٹ پر تین سال کیوں لگائے؟ انتہائی بڑے سانحے، سقوطِ مشرقی پاکستان کا سراغ لگانے والے حمودالرحمٰن کمیشن نے اتنی بڑی ذمہ داری محض دو سال دس ماہ سے کم عرصے میں دیانت داری سے پوری کر دی تھی۔ ادھر ہمارے ممدوح اور تعلیمی امور سے مطلقاً نابلد پولیس افسرنے اپنے ڈیڑھ پائو گوشت کی خاطر درجنوں ماہرین تعلیم کی دس سالہ پروردہ بھینس ذبح کردی۔ کیوں؟ کون چھپا بیٹھا ہے اس پردہ زنگارگوں کے پیچھے؟شعیب سڈل ہوں یا دیگر بیوروکریٹ، ان دوواقعات کی روشنی میں آپ کو ان ریٹائرڈ لوگوں کا مخمصہ سمجھ جانا چاہیے ۔
اب تو صورتِ حال دل گرفتہ ہوچکی ہے۔ دورانِ ملازمت ان کا لوگوں واسطہ بین الاقوامی اداروں اور این جی اوز سے رہتا ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی اختیارات سے یہ لوگ علیٰ حالہ لیس ہیں، احتساب نہ ہونے کے برابرہے۔ بے پناہ غیرجمہوری اختیارات استعمال کرکے بعض نے صحافیوں کا پورا ریوڑ پال رکھا ہوتا ہے جو کالموں، اخباری تجزیوں، ٹی وی مذاکروں میں ان لوگوں کی دیانت داری، حب الوطنی اور اعلیٰ افلاطونی صلاحیتوں کا نقش معصوم عوام کے ذہنوں میں ڈالتےرہتے ہیں۔ ریٹائر ہوکر یہ لوگ نماز روزہ تو کرتے ہوں گے لیکن ساری زندگی نوآبادیاتی حکم چلانے کے علاوہ کوئی فن یا ہنر نہیں جانتے۔لہذا مصروفیت کے و ہی بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں جس کی دو مثالیں میں دے چکا ہوں۔ مصروف رکھنے کے اپنےاس فعل کو وہ ملک کی خدمت قراردیتے ہیں۔
بعض کالم نگاروں کا مخمصہ
متفقہ نصاب تعلیم میں سے اسلام کے اخراج کی وکالت کرنےوالے بیشتر کالم نویس بالعموم وہ لوگ ہیں جن کی گزربسر غیرملکی این جی اوز کے’ قشرالفوکہات’ پر ہےجو ہر موضوع پر لکھنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے قارئین بھی جانتے ہیں کہ کس کا کس غیرملکی این جی اوسے کتنا تعلق ہے؟ تعجب اس پرہے کہ چاروں صوبوں کے چوٹی کے درجنوں ماہرین تعلیم کو چیلنج کرے تو کوئی ماہر تعلیم اور وہ بھی کسی سلیقےسے لیکن وہ لوگ جنھوں نے کبھی کسی یونی ورسٹی سے سلیقے کی کوئی تعلیم حاصل نہیں کی، وہ بھی کالم نویسی کے ذریعے تعلیمی گمراہی پھیلارہے ہیں۔ روزنامہ دُنیا کے کالم نگار ایمبسڈر جاوید حفیظ صاحب نےالبتہ بھولپن کے ساتھ لکھا۔ میرے استفسار پر بولے کہ نہ تو انھوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا ،نہ اس فیصلے سے متعلق حقائق کا انھیں علم تھا۔حقائق کا علم ہونے پر وہ چپ سے ہو گئے۔ ان کا کہناتھا کہ کسی انگریزی اخبار کی خبر پر انھوں نے بس کالم لکھ دیا۔ یوں آپ اندازہ کر سکتےکہ نسلوں کو بنانے بگاڑنے کا کام اخبار ات میں کس رواروی میں ہوتا ہے۔ میں نے اُمید اور گزارش کی کہ حقائق کا علم ہونے پر وہ اگلے کسی کالم میں اس کی تفصیلی وضاحت کردیں گے۔
تو پھر مسئلہ کیا ہے؟
مذہبی اقلیتوں کے جن لوگوں کا ذکر سپریم کورٹ کے 2014ء کے فیصلے میں ہے، ان میں سے بیشتر کسی اقلیتی برادری کے نمایندے نہیں تھے، مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی ہندو نشست پر مسلم لیگ اور اب تحریک انصاف کےرکن قومی اسمبلی ہیں تو ایسے شخص کے بھولپن پر مسکراہٹ ہی بکھیری جاسکتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پرویز مشرف کی آئینی ترمیم کے بعد اقلیتی آبادیوں کی حقیقی نمایندگی خواب بن کر رہ گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ساتھ قربت کی بنیاد پر ان لوگوں کو منتخب کرتی ہیں، اقلیتیں انھیں خود منتخب نہیں کرتیں۔ ان معصوم اقلیتوں کی حقیقی نمایندگی کسی اسمبلی میں نہیں ہے۔ یہی حال سپریم کورٹ میں پیش دیگر لوگوں کا ہے جو ان کے محترم مذہبی نمایندے تو ہیں لیکن حقیقی زندگی میں اقلیتی آبادیوں کے نمایندے اور لوگ ہیں۔ کل سپریم کورٹ میں مسلمانوں کی نمایندگی مطلوب ہوئی تو کیا سپریم کورٹ مفتی عبدالقوی یا مولانا طاہر اشرفی کو بلانے میں حق بجانب ہوگی؟ کیا یہ لوگ مسلمانوں کے نمایندے قرار دیئے جاسکتے ہیں؟
قارئین کے سامنے اقلیتی کمیشن کے چیلارام کی رائے آچکی ہے۔ ۳۰لاکھ دلت آبادی کے چوٹی کے دو نمایندوں کی رائے بھی دی جاچکی ہے۔اعلیٰ ذات کے اعلیٰ ہندو عہدے دار کی رائے اور جسٹس رانا بھگوان داس کی مجموعی شخصیت بھی آپ کے سامنے ہے۔ چیف جسٹس جیلانی نے جو فیصلہ سنایا تھا ،اس کا تجزیہ بھی آپ پڑھ چکے ہیں۔ مسئلہ چرچ پر حملے سے شروع ہوا جس میں دیگر اُمور شامل کرلیے گئے۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ نصاب سے نفرت انگیزمواد نکالا جائے۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے فیصلے کا رُخ صوبوں کے متفقہ نصاب ِ تعلیم کی طرف موڑ دیاہے۔ حالانکہ نئے نصاب میں نہ صرف نفرت انگیز مواد نہیں ہے بلکہ پانچوں بڑی اقلیتوں کے لیے الگ نصابی کتب ہیں۔ یہ نصاب تو مسلمانوں کے لیے ہے جس سے اقلیتوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟
آگ سے کھیلنے کا عمل اورممکنہ بھیانک نتائج
ایک اعلیٰ افسر نے انکشاف کیا:” موجودہ قضیے میں سپریم کورٹ کا نوٹس ملا تو ہم سٹپٹا کر رہ گئے۔ ہمارے علم میں پہلی دفعہ آیا کہ ۲۰۱۴ء میں کوئی فیصلہ ہوا تھا اور ۲۰۱۸ء میں کوئی یک رکنی کمیشن بنا تھا۔” آپ پورا فیصلہ پڑھ لیں ،تعلیم کا کوئی نمایندہ عدالت میں نہیں تھا جو بتاتا کہ مسئلے کی نوعیت یوں نہیں، یوں ہے۔لہذا یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ اس یک طرفہ فیصلے پر سپریم کورٹ نے عمل درآمد کر نے کا کہا تو حکومتیں عمل کی پابند ہوں گی۔ نصاب سے اسلامی مواد نکال دیا جائے گااور ۹۶ فی صد مسلمانوں میں بے چارگی کا گہرا احساس ہوگا۔ سامنے سپریم کورٹ کے جج نہیں ہوں گے۔ جسٹس جیلانی کا فیصلہ تو جسٹس منیر کی طرح تاریخ کرے گی لیکن لوگ سمجھ لیں گے کہ ہندو ،مسیحی اور غیرملکی این جی او ملک کو سیکولر بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔بے چارگی کا احساس وقت کےساتھ گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ مقدمے کے نام نہاد مسلمان فریق ایک طرف رہیں گے اور مسلمانوں کے غیظ و غضب کارُخ اقلیتوں کی طرف ہوگا۔ ملک بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے،موقع ملتے ہی کبھی گوجرہ جیسے واقعات تو کبھی ملتے جلتے دیگر واقعات وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔
ڈالردینے والے ممالک اور ادارے اپنی پالتو این جی او، ان کے خوشہ چینوں اور دیگر چہیتے “ریاستی افراد ” کو گھیرگھار کر اس نقطے پر لے آئے ہیں جس کا نتیجہ رہی سہی، مذہبی ہم آہنگی کے انہدام کی شکل میں نکل سکتا ہے جسے کوئی سمجھ دار مسلمان ہرگز پسند نہیں کرتا۔ مذہبی اقلیتوں کے وہی شہری حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کو اسی طرح عزیز ہیں جیسے اپنے دیگر مسلمان بھائی بند۔ کیا محترم جسٹس گلزاراحمد صاحب یہ نکتہ سمجھنے کی کوشش کریں گےکہ معصوم اقلیتی آبادیوں کے جان ومال کو دائو پر لگانے کی تیاریاں مکمل ہیں”۔