پچھلی چاردہائیوں سے پنجاب کی تقسیم اورپنجاب سے دوسرے صوبوں کے تضادات اورقومیتی ٹکراؤ کے حوالے سے بڑے سنجیدہ سوالات اٹھتے رہےہیں بسااوقات یہ قومیتی تضاد شدت اختیارکرکےجائزحققوق اورسنجیدہ سیاسی سوال کی حدودسے باہرنکل کربراہ راست تصادم کی شکل بھی اختیارکرگیاجس کاعملی تجربہ مجھے خودکراچی میں نسلی اورلسانی فسادات پھراندرون سندھ بلوچ سندھی قوم پرستوں سے ڈائیلاگ کے دوران ہوچکاہے نیزپچھلےدس سال سےبلوچستان میں جاری قوم پرست تحریک بھی جائزحقوق کی ڈیمانڈسے باہر نکل کر براہ راست عام پنجابی مزدور اوراستاد کے قتل عام پر منتج ہوئی۔
ایسے میں پنجابی نیشنلزم بھی پروان چڑھنا شروع ہوا ، متعدد پنجابی دانشور ایکٹوہوئے ،خاص طور پرسوشل میڈیانے پنجابی جاگیرتی اورپنجاب ازم کے دائرے کو بڑھانے میں کلیدی کردارادا کیا۔اگرچہ بہت سےپنجابی نیشنلسٹ فرینڈز ایکٹوہیں لیکن ان میں ایک ممتاز شخصیت فرخ سہیل گویندی کی ہے جولاہورسے تعلق رکھنے والے ممتاز ترقی پسند دانشور، اینکر،صحافی اور پبلشرہیں۔انھیں پنجاب اور پاکستان کو درپپیش تاریخی، سیاسی ، قومیتی اورکلچرل تضادات کا گہرا شعور اورادراک ہے۔ حال ہی میں ترکی سے انھوں نے اسی موضوع پراپنی ایک طویل وڈیو جاری کی ہے جس نے مجھے چونکا دیااورکچھ نئے نکات گوئندی صاحب نے ایسے اٹھائے ہیں جنھوں نے مجھے چونکادیا اورقلم اٹھانے پر مجبورکیا۔ اس حوالے سے استنبول سے گوئندی صاحب سے نیویارک فون ٹاک بھی ہوئی۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ انھوں نےسرایکی کی تاریخی حقیقت کو یہ کہہ کر چیلنج کیاکہ اس زبان کا کوئی شاعر اورادب خواجہ غلام فریدسے پہلے نہیں ملتا جبکہ صرف سو سال پہلے خواجہ فریدکا انتقال ہوا توکیا یہ زبان صرف سوسال کا ادبی ورثہ رکھتی ہے؟ زبانیں توشاعری اورادب کی ایک وسییع بنیاد کی حامل ہوتی ہیں جیساکہ وارث شاہ، بلھے شاہ اور شاہ حسین وغیرہ ہیں تو کیا دوسری زبان پر ڈاکہ ڈال کراپنی زبان کے وجود کوثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
ایک اورقابل غورنکتہ یہ تھاکہ پنجاب کے غریب کوکیوں شمارنہیں کیا جارہا؟ سندھ، بلوچستان کے غریب کے نام پرسیاست چکائی جارہی ہے تو پھرتخت لاہورکی مثال دینے والے یہ بھی تو دیکھیں کہ صرف اس شہرکی آبادی دوکروڑ ہے اور اس میں غریبوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑہے جوبلوچستان کی مجموعی ابادی سے زیادہ ہے۔ راجن پورکا باسی پنجاب سیکرٹریٹ میں داخل نہیں ہوسکتاتو کیاشادباغ لاہورکا رہائشی پنجاب سیکرٹریٹ داخل ہوسکتاہے؟ اگر انتظامی صوبہ بنانا مسئلے کاحل ہے تو ڈویژن، ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی بنیادپرپہلے ہی انتظامیہ موجودہے۔ ظاہرہےمسئلہ انتظامی صوبہ نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے جاگیردار اپنی اولادوں کی سیاست کےمستقبل کے تحفظ کےلئے نئے صوبے کا گیم کھیل رہے ہیں جسے پنجابی قوم پرست ناکام بنادیں گے۔
فرخ سہیل گوئندی نے جن خیالات کااظہارکیا ہے اس سے انکارممکن نہیں اورخوشی کی بات یہ ہے کہ پنجاب کا لیفٹ جو ترقی پسندی کے جوش میں ہمشہ سندھی سرایکی جاگرداروں اور بلوچ سرداروں کی ہاں میں ہاں ملاتاتھا اس میں خوشگوار تبدیلی ارہی ہے اور گوئندی صاحب کے خیالات اس حوالے سے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ میں کم از کم اب پنجاب میں قومیتی تحریک کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں ۔