دن کے بارہ بجے تھے اور سورج سر پر تھا۔سکھر سے لاڑکانہ کی طرف نکلے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہوچکا تھا۔ میں اگرچہ آرام دہ ائیر کنڈیشنڈ وین میں سفر کررہا تھا پھر بھی صبح صبح اٹھ کر تیاری، سامان باندھنے اور پھر رستے کی تھکان آپ چہرے پر دیکھ سکتے ہیں۔ یونہی چلتے چلتے جب نوڈیرو کے تاریخی قصبے تک پہنچے تو کچھ دیر کے لیے گاڑی روک لی۔ میں پائوں سیدھے کرنے کے لیے گاڑی سے نیچے اتر آیا اور بے مقصد ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
کچھ ہی دور بابِ ذوالفقار نظر آرہا تھا جس کے آس پاس خوب ہلچل تھی۔ یہیں سے ایک راستا گڑھی خدا بخش جاتا ہے جہاں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزار ہیں۔ اسی راستے سے پیپلز پارٹی سمیت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت، ارکان اسمبلی، کارکنان اور دیگر لوگ شب و روز گزرتے ہیں۔ اور اب آپ کا دوست بھی اسی راہ کا مسافر تھا۔
سڑک کے دوسری طرف ایک خستہ حال ریڑھی پر پھل رکھے تھے۔ پھل والے کے بالوں اور منہ پر راستے کی اڑنے والی دھول چمک رہی تھی۔ میں نے کچھ پھل خریدلیے۔
تھیلی ہاتھ میں لٹکائے واپس آرہا تھا تو ایک لکڑی کی ٹال پر نظر پڑی۔ یہاں چھوٹی، بڑی، پتلی، موٹی، خشک اور ہری ہر طرح کی لکڑیوں کے الگ الگ ڈھیر تھے۔ تین غریب عورتیں پریشان کھڑی تھیں کہ لکڑی کتنی خریدیں کیونکہ تیس روپے کلو کی لکڑی ان کی پہنچ سے باہر تھی۔
میں نے ایک کینو تھیلی سے نکال کر چھیلا اور گاڑی سے ٹیک لگا کر ان کی باتیں سننے لگا۔ ٹال والا انہیں سندھی زبان میں کہہ رہا تھا کہ لکڑی کم ہوگئی ہے اور اس لیے مہنگی ہے۔ وہ عورتیں دور سے آئی تھیں اور التجا کررہی تھیں کہ انہیں پیسے کم کرکے لکڑی زیادہ دی جائے۔ پھر انہوں نے کہا کہ دو کلو دے دو۔
یہ ساری گفتگو ایک ایسے ترازو کے گرد ہورہی تھی جس میں باٹ کی جگہ سرخ اینٹ رکھی ہوئی تھی۔ میں نے کبھی ایسا دیکھا نہیں تھا۔ اس لیے دلچسپی ہوئی تو آگے جاکر ٹال والے سے پوچھا۔ بھائی یہ کتنا وزن ہے۔
سائیں دو کلو کا ہے۔ وہ بولا۔
پورا دوکلو ہے؟۔ میں نے کریدا۔
وہ کچھ نہیں بولا۔ میری بات سن کر دوسری طرف چلاگیا۔
میں گاڑی میں آبیٹھا اور ہم لاڑکانہ کی طرف چل پڑے۔