انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی طالب علم قتل کیس کے معاملے میں مقتول طفیل الرحمن کے والد نے یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو خط لکھ دیا ہے۔ خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ 12 دسمبر 2019 کو میرے لخت جگر کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں قتل کیا گیا لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کر سکی۔ خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ آچکی لیکن ریکٹر جامعہ رپورٹ اسے پبلک کرنے سے گریزاں ہیں۔ انھوں نے صدر مملکت سے درخواست کی ہے کہ وہ صدر پاکستان و چانسلر اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت سے کمیٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد کروائیں۔
یادرہے 2019 میں قتل واقعہ پر کمیٹی کی رپورٹ آچکی۔ یہ تحقیقاتی کمیٹی صدر جامعہ نےواقعہ کے فوری بعد 14 دسمبر 2019 کو تشکیل دی تھی جو 6 ممبران پر مشتمل تھی۔ تحقیقاتی کمیٹی میں جامعہ کے سنیئر ڈاکٹرز اور پروفیسرز شامل تھے۔ تحقیقاتی کمیٹی کو قتل کے واقعہ کی وجوہات، ذمہ داروں کا تعین، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی اور تجاویز دینا تھیں
کمیٹی نے تحقیقات کے دوران یونیورسٹی کے کئی عہدیداران و طلباء کو طلب کیا اور ان سے اس واقعہ کی تفصیلات معلوم کیں۔کمیٹی نے یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسینزئی کو بھی طلب کیا تھا لیکن انھوں نے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا۔ رکٹر کے علاوہ ڈاکٹر ظفر اقبال بھی کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوئے۔ رپورٹ کے پیرا نمبر 7.3 میں واقعہ کے پس پردہ چشم کشا انکشافات جن کے مطابق ریکٹر جامعہ نے واقعہ میں ملوث طلباء کو خلاف ضابطہ داخلے دیئے، فیسیں معاف کیں، سکالرشپس دیئے اور امتحان دلوائے۔ پیرا نمبر 7.3 کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے ریکٹر کو کچھ طلباء کی پاکستان مخالف سرگرمیوں سے آگاہ بھی کیا۔
پیرا نمبر 7.3 کے مطابق جن طلباء کے خلاف سیکیورٹی اداروں نے ایکشن کا کہا، ان کو ریکٹر کے کہنے پر سٹوڈنٹس ڈسپلنری کمیٹی کے ایجنڈا سے غائب کر دیا تھا۔ پیرا نمبر 7.3 کے مطابق ریکارڈ ظاہر کرتا ہے جن طلباء کے خلاف کارروائی ہونا تھی ان کو مالی امداد بھی دی گئی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسینزئی نے علاقائی، لسانی اور عصبیتی کونسلز کو پروان چڑھایا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریکٹر کی تعیناتی سے قبل یونیورسٹی میں لسانی کونسلز کا کوئی وجود نہ تھا۔ رپورٹ کے ضافی نوٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ قتل کے واقعہ کے روز یونیورسٹی کے سیکیورٹی حکام غفلت کے مرتکب ہوئے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان حکام نے جان بوجھ کر واقعہ کے روز فائرنگ کی ویڈیوز چھپائیں۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ فائرنگ کرنے والوں کو یونیورسٹی کی سرکاری گاڑی میں فرار کروایا گیا۔ رپورٹ میں ان حکام کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ واقعہ کے روز سٹوڈنٹس ایکٹوٹی سنٹر کے باہر تعینات پولیس اہلکار بھی غفلت کے مرتکب ہوئے۔رپورٹ کے پیرا نمبر 6.13 میں وضاحت کی گئی کہ پولیس اطلاع کے باوجود تاخیری حربے استعمال کرتی رہی جس سے قیمتی طالب علم جاں بحق ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 دسمبر 2019 کے واقعہ میں ملوث طالب علموں کو ریکٹر نے خلاف ضابطہ، میرٹ کی بجائے کوٹہ سسٹم کی آڑ میں داخلے دئیے۔ رپورٹ کے پیرا نمبر 4.7 میں وضاحت کی گئی ہے کہ ریکٹر نے سیکیورٹی اداروں کے خط کے باوجود پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث اور سیکیورٹی اداروں کو مطلوب طلباء کو داخلے دے کر انھیں تحفظ فراہم کیا۔
رپورٹ میں چشم کشا انکشاف کیا گیا ہے کہ 12 دسمبر 2019 کے اصل ذمہ دار ریکٹر معصوم یاسینزئی، ڈاکٹر ظفر اقبال، ریکٹر کا عملہ اور دیگر حکام ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قتل کے واقعہ کے فوری بعد ملزم ایمل خان کا ٹیلی فونک رابطہ ریکٹر جامعہ سے ہوا جس کا CDR ڈیٹا بھی منسلک کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ یونیورسٹی میں لسانی، علاقائی اور عصبیت پر مبنی کونسلز پر پابندی عائد کر دی جائے۔ رپورٹ میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ یونیورسٹی میں کوٹہ سسٹم کو فی الفور ختم کر دیا جائے اور میرٹ پر داخلے دئیے جائیں۔