یہ بات جان کر میں حیران رہ گیا کہ وہ اعلی عدلیہ جو کروڑوں لوگوں کو انصاف دیتی ہے ، دادرسی کرتی ہے خود اس کے چراغ تلے اندھیراہے اور اسی عدلیہ کا ایک سول جج شرافت رانا ڈھائی سال سے لاہور ہایئکورٹ سے انصاف کا منظرہے لیکن اسے دور دور تک انصاف کی رمق نظر نہیں آرہی ، ایک دو طفل تسلیوں کے سوا اب تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ،حیران کن بات یہ کہ معطل سول جج شرافت رانا کے خلاف کیس بھی ختم ہوچکاہے،اپیل کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران مذکورہ جج کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا گیا اس کے باوجود جاب پر بحال نہیں کیا گیا جو انصاف کی مٹی پلید کرنے کے مترادف ہے ، سوچنے کی بات یہ کہ وہ عدلیہ عام ادمی کو کیاانصاف فراہم کرے گی جو خود اپنے ہی جج کو انصاف نہ دے سکے۔
سول جج شرافت رانا کا کیس زاتی پرخاش اور دفتری سازش کی بدترین مثال ہے کہ جب گوجرانوالہ سٹیڈیم کی دکانوں کے کرائے کے کیس پر دئیے جانے والے فیصلے کو ایک ایڈیشنل سیشن جج نے پلٹ دیا اور اس فیصلے پر اپنے سنئیر جج کی ڈانٹ ڈپٹ سننے کے بعد مذکورہ سول جج سے دل میں کدورت رکھی ۔
پھر وہی ایڈیشنل سیشن جج جب جسٹس منصورعلی خان کے دورمیں لاہور ہایئکورٹ کارجسٹرار مقررہواتواس نے پرانا بدلہ چکانےکےلئے مذکورہ سول جج کو ملازمت سے برطرف کروادیا اور یوں بیس سالہ ملازمت بغیرکسی الزام کے صرف زاتی اثرورسوخ کی بنیاد پر ختم کی گئی جس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ عدلیہ میں موجود کالی بھیڑیں کس قدرطاقتورہیں ، اندازہ کریں کہ مذکورہ سول جج پر کرپشن ، اقربا پروری یا رشوت ستانی یا کسی قسم کا کوئی الزام نہیں ہے لیکن صرف دفتری سازش کے تحت انھیں ٹارگٹ کرکے جاب ختم کردی گئی ۔
یہ کس قسم کا انصاف اور قانون ہے ، یوں لگتاہے جیسے انصاف چندطاقتور ججوں کی داشتہ بن کررہ گیا ہے جسے انھوں نے اپنے حرم میں ڈالا ہوا ہے۔
لاہور ہایئکورٹ کے فاضل چیف جسٹس سے گذارش ہےکہ اس معاملے پر اپنی اولین فرصت میں ذاتی توجہ دےکر انصاف کے تقاضے پورے کریں بلکہ اس رجسٹرار کے خلاف بھی ضروری انضباطی کارروائی ہونی چاہئیے جس نے ذاتی پرخاش مٹانے کےلئے قانون کا غلط استعمال کیا ، انصاف کادامن داغدار کیا ۔ جب عدلیہ خود اپنے ایک سول جج کو انصاف نہیں دے سکتی تو وہ عام پبلک کو کیاانصاف دے گی ؟