بابا فرید گنج شکر، صوفیا کے سلسلہ چشتیہ کے تیسرے برگزیدہ درویش، پاکپتن میں آج بھی بابا فرید کا مزار اقدس زائرین کی توجہ کا محور ہے، بابا فرید کی صوفیانہ شاعری روح کے تار چھیڑ دیتی ہے۔ اسرائیل میں بابا فرید کا آستانہ، بعید از قیاس یا پھر یہ جانیں کہ عقیدت کی فرضی داستان لگتا ہے مگر ایسا ہے نہیں، یروشلم میں بابا فرید کی چلہ گاہ آج بھی موجود ہے، پر رونق اور آباد، جی ہاں تاریخ یہ گوشہ زمانے کی گرد تلے دب گیا۔ بابا فرید شکر گنج کا یہ آستانہ 800 سال سے قائم ہے، گویا بابا فرید کی ارض فلسطین آمد غازی صلاح الدین ایوبی کے دور کے آس پاس کی بات ہے۔ جیسا عرض کیا یہ کوئی فرضی داستان نہیں بلکہ ساتھ دی گئی ڈاکومنٹری میں تمامتر تاریخی ثبوت و شواہد پیس کیے گئے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں ایک زمانے میں جب حج بیت اللہ کا سفر زمینی راستوں سے ہوا کرتا تھا تو بیت المقدس زیارت کیلئے جانیوالے زائرین آستانے کی سرائے میں رہا کرتے تھے۔ آج بھارت کا انصاری خاندان آستانے کا متولی ہے، اس خاندان کو مولانا محمد علی جوہر نے اسی مقصد کیلئے یروشلم بھیجا تھا۔ حیرت کی انوکھی داستان، صوفیا کی درس و تبلیغ کا روح پرور باب، دیکھتے ہیں ڈاکومنٹری یہودیوں کے دیس میں بابا فرید کا آستانہ