ADVERTISEMENT
جو بائیڈن اور وائٹ ہاؤس کے درمیان اب بس چند قدم کا فاصلہ ہی رہ گیا ہے اور صدر ٹرمپ کی شکست دیوار پر لکھی دکھائی دیتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ نئے صدر کی آمد کے عالمی سیاست اور خاص طور پر پاکستان پر اس کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
ہماری رائے میں امریکا میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کو سابق امریکی وزیر خآرجہ مس ہیلری کلنٹن کے اس بیان کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور انھوں نے پاکستان اور ڈیپ اسٹیٹ کے تعلق سے گزشتہ دنوں دیا تھا۔
ہیلری کلنٹن نے ڈیپ اسٹیٹ کی جوتعریف بیان کی تھی وہ اس کی اپنی تیارکردہ نہیں بلکہ ماہرین سیاسیات اوردانشوروں کی متعین کردہ ہے ، اس نے صرف وہ تعریف بیان کردی ہے اور سمجھانےکےلئے پاکستان کی مثال بھی دی کہ اس وقت دنیامیں کون سا ملک اس مثال پر پورا اترتا ہے۔
اگرچہ پاکستان میں کئی مارشل لالگے ، ایوب، یحیی ، ضیاالحق اورمشرف برسراقتدار رہے بلکہ ایوبی مارشل لاسے پہلے ہی فوج کا پالیسی لیول اور اقتدار کی تبدیلی میں کردار شروع ہوچکاتھا لیکن اس وقت کردار اتنا کہ،
آرمی چیف اقتدار سنبھالتا، ایئن منسوخ یا معطل کرتا، سیاستدانوں اور کارکنوں کی گرفتاریاں ہوتیں ،سنسرشپ لگتااورملٹری کورٹس کے تحت سیاسی کارکنوں کو مختلف سزائیں دے کر جیل بھیج دیاجاتا، چند سال بعد مارشل لااٹھالیاجاتااور سیاسی سرگرمیاں بحال ہوجاتیں ، یہ ہوتاتھافوجی حکومت کادور۔ریاست در ریاست کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس میں حکمران براہ راست ارمی چیف بن جاتا اور بعد ازاں سویلین ہوجاتا لیکن یہ دور ڈیپ سٹیٹ ہرگز نہیں کہلائے گا کیونکہ اس میں خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے مسنگ پرسن ، تشدد ، نگرانی ، ویگو ڈالا کا سسٹم نہیں تھا ،ڈیپ سٹیٹ میں نگرانی ، بغیر کسی کوبتائے اغواکرنے اور ہلاک کرنے کا سکسلہ ہوتاہے۔ ڈیپ سٹیٹ کی بہترین تعریف جنرل پنوشے کے دورمیں چلی تھاجب کئی لاکھ افرادکوغائب کیاگیا ، قتل کیاگیا،ارجنٹائن ، مشرقی جرمنی ، سوویت یونین میں مخبری اورجاسوسی کاجال پھیلاہواتھا، ہرادارے میں مخبرموجود ہوتے اور ریاست مخالفین کو چپکے سے غائب کرکے بدترین تشدد کانشانہ بنایاجاتا۔
جنرل ایوب اور جنرل ضیاجوبھی تھےان کےدورمیں پاکستان ڈیپ سٹیٹ نہیں تھا، ننگامارشل لاتھا مخالفین پر مقدمہ چلاکر انھیں سزائیں دی جاتیں ، لیکن اب پاکستان میں بظاہر مارشل لا نہیں ہے لیکن یہ امریکیوں کی نگاہ میں اب ملک ڈیپ سٹیٹ بن چکاہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ امکان موجود ہے کہ جو بائیڈن انھیں اپنی وزیر خارجہ بنا لیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو مستقبل میں خطے کے بارے میں امریکی پالیسی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔