بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے حال ہی میں دیئے گئے انٹرویو نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، ایک طرف حکومت اس انٹرویو پر خوش تو دوسری جانب پی ڈی ایم کی جماعتیں تشویش کا شکار نظر آتی ہیں۔
حکومت اس لیئے خوش ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا آخری مرحلہ صوبائی و قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کا ہے، اگر پیپلز پارٹی استعفوں سے انکار کرتی ہے تو پی ڈی ایم کا حکومت گرانے کا سارا پلان چوپٹ ہوجائے گا، یہ ہی سبب ہے کہ پی ڈی ایم کی اس بارے میں پریشانی جائز نظر آتی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف سے جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے ثبوت مانگ کر ایک سمارٹ گیم کھیلنے کی کوشش کی تو دوسری طرف ان کو بھی خوش کردیا جن پر میاں صاحب انگلی اٹھا رہے تھے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ میاں صاحب اپنی جانب سے لگائے گئے الزامات کا ثبوت بھی رکھتے ہیں لیکن وہ کب ظاہر کریں گے،اس کا فیصلہ بھی وہ خود ہی کریں گے،
اپوزیشن کی سیاست میں تازہ پیش رفت کے بعد اب نواز شریف اور مریم نواز نے بھی نئی حکمت عملی ترتیب دینے کا فیصلہ کیا ہے
مولانا فضل الرحمان اور ن لیگ کو پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ پیپلز پارٹی جنوری تک کوئی بھی ایسا قدم اٹھاسکتی ہے جس سے پی ڈی ایم کو دھچکا پہنچے، لیکن بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ انٹرویو نے پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں کے خدشات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
جلد ہی پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہونے والا ہے جس میں تمام جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی سے ان کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے انٹرویو کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی
مزید جاننے کے لیے لنک کلک کریں