اب تو میری باتیں سن کر یہی کہا جائے گا کہ شاید بڑے میاں سٹھیا گئے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ نصف صدی قبل ایک روپے میں سولہ روٹیاں ملا کرتی تھیں۔ بکرے کا گوشت چھ اور گائے کا تین روپے کلو تھا اور پورا سالم بکرا چالیس روپے میں مل جاتا تھا، اب اس کی قیمت تیس پینتیس ہزار روپے ہے۔ یہ ماضی کے قصے کہانیاں نہیں ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارے نااہل حکمرانوں کے اپنے ہی ملک کو تباہ وبرباد کرنے کی طویل داستان ہے۔
اس کا اندازہ اس وقت ہوا، جب 1987میں میرا سعودی عرب جانا ہوا، اس وقت وہاں سافٹ ڈرنک کا کین ایک ریال کا تھا۔ پھر 2006میں عمرے کے لئے سعودی عرب گئے تو اس وقت بھی اس کی قیمت ایک ریال ہی تھی، یعنی انیس سال بعد بھی۔ اور صرف سافٹ ڈرنک ہی نہیں، بلکہ تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اتنی تیزی سے اضافہ نہیں ہوا جتنا ہمارے ملک میں۔یہ حال صرف عرب ملکوں کا نہیں، بلکہ مغربی ملکوں کا بھی ہے۔ جہاں جانے کا اتفاق تو نہیں ہوا، لیکن مطالعہ اور وہاں جانے والوں کی زبانی دنیا کے مختلف ملکوں کے حال سے سب ہی واقف ہیں۔
صرف ہمارے ملک کا یہ حال نہیں، بلکہ دنیا کے ان تمام ملکوں کا ہے، جہاں حکمرانوں کے ہاتھوں معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔کیونکہ انہیں ملک کے مفاد کے بجائے اپنا ذاتی مفاد اور بینک بیلنس زیادہ عزیز تھا۔ یوں ملکی خزانے خالی ہوتے رہے اور سوئس بینک بھرتے رہے اور ان ملکوں کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے اپنے جال میں، یعنی قرضوں کے ختم نہ ہونے والے جال میں جکڑ لیا۔ یہ الگ کھیل ہے، جو دنیا کی واحد سپرطاقت دنیا کے مختلف ملکوں کو معاشی غلام بنانے کے لئے کھیل رہی ہے، خاص طورپر مسلم ملکوں کو۔
اور اس زمانے کے حکمرانوں کا یہ حال تھا کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت ہوئی تو ان کے پاؤں میں پھٹا موزا تھا۔جب خواجہ ناظم الدین کو عہدے سے برطرف کیا گیا تو ان کا بینک بیلنس نہ ہونے کے برابر تھا۔ حتیٰ کہ بدنام زمانہ گورنر جنرل اسکندر مرزا، جنہوں نے جمہوریت کو برباد کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، جب انہیں ان کے عہدے سے برطرف کیا گیا تو وہ لندن میں اپنے بھائی کے گھر میں جاکر رہے۔
معیشت کی بربادی کا ایک اہم ثبوت ڈالر کی شرح تبادلہ ہے، یعنی 1947میں ایک ڈالر کی قیمت پاکستانی کرنسی میں تین روپے تیس پیسے تھی۔ اب وہ 165روپے فی ڈالر سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی معیشت نے سونامی سے زیادہ تیزی کے ساتھ بربادی کی جانب سفر کیا ہے۔ چند مہینوں میں چینی کی قیمت دگنی ہوئی اور دیگر اشیائے صرف کا یہی حال ہے۔
شاید میری عمر کے لوگوں کو یاد ہوکہ ہمارے بچپن میں زیادہ تر کام ایک آنے، چار آنے سے چلتا تھا۔ ایک آنے کے بھی چار حصے ہوتے تھے۔ جسے سوراخ والا سکہ کہا جاتا تھا۔ ایک روپے کی وہی قیمت ہوتی تھی، جو اب پانچ سو روپے کی ہے۔
یہی حال عوام کا بھی تھا، وہ سادہ زندگی گزارتے تھے اور بہت سکون سے رہتے تھے۔ نہ اس وقت ٹیلی وژن تھا، نہ کمپیوٹر،اور نہ ہی موبائل فون کی لعنت۔ اورنہ ہی جرائم کی کثرت۔ نہ فاسٹ فوڈ کی غیرملکی چین۔ بلکہ نمائش چورنگی سے آگے بندو خان کے چکن تکے اور برنس روڈ پر وحید کباب والے اور اسی طرح کے چند اور گنے چنے ریستوران۔
اُس زمانے میں استطاعت کے باوجود لوگ کاریں اور بائیکس نہیں خریدتے تھے۔ بسوں، رکشوں اور ٹیکسی میں سفر کرتے تھے۔ ہمارے ابو ہماری پوری فیملی کو سیر کرانے کلفٹن کے ساحل پر لے جاتے تھے۔ جہاں ساحل کے بالکل کنارے لکڑی کی میز کرسیاں پڑی ہوتی تھیں۔ اور چنا چاٹ، گول گپے اور دہی بڑے کھائے جاتے اور اوپر سے پانی پی لیتے، سافٹ ڈرنک تھی مگر اس سے لوگ بچتے تھے۔ اسی دوران سمندر کی لہریں لوگوں کے پیروں پر آتیں اور انہیں چوم کر گزر جاتیں۔ بعض منچلے اپنی ٹیبل سمندر میں ذرا آگے ڈال لیتے تو پانی کی لہریں ان کے سینے تک آجاتیں اور کبھی کبھار وہ گر بھی جاتے۔ ایک دن ہمارے ابو نے ٹیکسی کرکے ہمیں کلفٹن کی سیر کرائی اور صدر سے بلوچ آئس کھلائی۔ اس پورے سیر وتفریح پر صرف پچیس روپے خرچ ہوئے تھے۔
اپنے بچپن کے وہ سنہری دن اب بھی مجھے یاد ہیں، جب گلی میں پھیری والے آوازیں لگاتے تھے کہ آٹا لے لو، روپے کا چار کلو اور روپے کی چار کلو ہے، پیاز، بڑھیا، گولا پیاز۔
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی