ممتاز دانش ور اور جامع کراچی کے سینئر استاد ڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی کے بڑے بھائی جناب خیل الرحمٰن فاروقی کا 25 ستمبر 2020 کو انتقال ہو گیا، ڈاکٹر صاحب نے اپنے بھائی کو اس موقع پر یاد کیا ہے۔ آوازہ ان کا یہ مضمون اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلاً پاڑا، دودی ہیرا، تیتی کیڑا، چوتھا چاند، پانچواں پٹھان، ہم پانچ بھائی تھے اور ایک بہن۔ ہم لہک لہک کے پڑھتے کیونکہ ہم نے جب بولنا شروع کیا تو ہمارے ابّا ہمیں فقرے، مصرعے، اشعار اور چھوٹی چھوٹی نظمیں یاد کرادیا کرتے تھے سو یہ گردان بھی ہم لگا رکھتے تھے۔ بھائی جان کا شمار ہم بھائیوں میں تیسرا تھا اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی۔ بچپن میں سب بھائیوں میں تھے بھی تنک مزاج۔ دبلے پتلے کانگڑی اور مریل سے۔ رنگ بھی بہن بھائیوں کے مقابلے میں ذرا سانولا تھا۔دوسرے بھائیوں کی نسبت ابّا کی حمایت کسی بھی تنازعے کی صورت میں انہیں ہی حاصل ہوتی تھی۔ ان سے بڑے بھائی یمین الرحمٰن سلامی فاروقی اکثر متاثرین میں سر فہرست ہوتے تھے۔بھائی جان چونکہ عمر میں دس برس بڑے تھے اس لیے ہم سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ ہم سب بھائیوں کا ساتھ بڑا دوستانہ تھا سوائے سب سے بڑے بھائی سیف الرّحمٰن گرامی فاروقی کے کیونکہ وہ ابّا کے نائب ہوتے تھے اور اس نیابت کو انہوں نے نبھایا بھی خوب۔ان کے بعد ہمارا سب سے زیادہ ساتھ تیسرے بھائی خلیل الرحمٰن فاروقی کے ساتھ رہا۔ ہم نے انہیں ہمیشہ ” یار بھائی جان ” کہہ کر ہی مخاطب کیا۔
1975 ء میں بڑے دونوں بھائی کراچی میں ملازم ہوئے تو فیصلہ ہوا کہ حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوا جائے۔ بھائی جان سندھ لوکل باڈیز انسٹیٹیوٹ ٹنڈوجام میں پڑھارہے تھے اور ہمارے میٹرک کے امتحان ہورہے تھے ۔کچھ عرصہ ہم دونوں کو حیدرآباد میں رکنا پڑا۔ ہماری تو خیر مجبوری تھی میٹرک کا امتحان دینا تھا بھائی جان گھر سے دوری برداشت نہ کرسکے، ملازمت کو لات ماری اور کراچی منتقل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد سوشل سیکیوریٹی میں افسر مقرر ہو گئے۔دس سال قبل بحیثیت ڈائریکٹر سوشل سیکیوریٹی وظیفہ یاب ہوئے۔
مرحوم نے بھرپور زندگی گزاری۔ دل کے بے حد نرم، خوش مزاج اور حساس آدمی تھے۔ویسے ذرا ڈرتے تھے لیکن فرار کا راستہ نہ ملے تو یکدم دلیر ہوجاتے تھے۔ ایک بار کسی فیکٹری کے دورے پر لانڈھی گئے۔ وہاں سے واپسی پر اس علاقے پر قابض ایک لسانی تنظیم کے غنڈے اغوا برائے تاوان کی غرض سے لے گئے۔ وہ سمجھے ہوں گے کوئی بدعنوان افسر ہوگا، پیسہ نکلوائیں گے۔ انہوں نے صاف جواب دے دیا جو کرنا ہے کرلو ان تلوں میں تو تیل نہیں ہے، غلط آدمی کو اٹھالیا۔ غنڈوں نے بھی انہیں چھوڑکربمشکل فرصت پائی اور پچھتائے کہ ناحق وقت ضائع کیا۔ ایک بار ایک بدعنوان صوبائی وزیر پیچھے پڑگئے کہ پیسے جمع کرکے دو۔ یہ بھی اکڑ گئے کہ ان کا کام یہ نہیں۔ کچھ عرصہ زیرِ عتاب رہے لیکن الله ایسے لوگوں کی مدد ضرور کرتا ہے۔
1972 میں سندھ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے کیا تھا۔ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر پروفیسر نیلوفر شیخ ان کی ہم جماعت تھیں۔اسی سال دوسرے بھائی ڈاکٹر نبیل الرحمٰن ں فاروقی نے زولوجی میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم ایس سی کیا ۔یہ بات قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اس زمانے میں پاکستان میں امریکہ کے سفیر خاص مضامین میں امتیاز کے ساتھ کامیاب ہونے والے طلبہ کو خط لکھتے تھے۔ خلیل الرحمن فاروقی کو مبارکباد کاخط موصول ہوا اور یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ بیرونِ ملک جاکے حاصل کرنے کے دروازے بھی کھل گئے ہوں گے۔ لیکن بھائی جان کو امریکی سفیر بھلا کیا متاثر کرتا۔وہ امریکہ یہاں اٹھا لاتا تب بھی وہ متاثر نہ ہوتے۔
بھائی جان بے حد ذہین تھے اور ان کی یادداشت بے مثال تھی۔ خواجہ معین الدین کے ڈرامے تعلیمِ بالغاں، لال قلعے سے لالو کھیت تک انہیں ازبر تھے۔ اسی طرح مختلف شعراء کے کلام کے ساتھ ساتھ ظریف جبلپوری کی نظمیں انہی کے انداز میں لہک لہک کے سنایا کرتے تھے لیکن اسٹیج سے ہمیشہ پہلو کتراتے تھے۔ سن تہتر میں حیدرآباد میں الیاس شاکر اور ہاشم رضا کے ساتھ مل کر ایک تنظیم “مجلسِ سحر الادب” کی بنیاد رکھی جو ان کے کراچی منتقل ہونے کے بعد تحلیل ہوگئی۔
جب سے ہم کالج میں آئے اور بھائی جان کی ملازمت بھی مستقل ہوئی اس وقت سے بھائی جان کا معمول تھا کہ ہر عید پر شلوار قمیض کا ایک جوڑااپنی پسند سے ہمارے لیے ضرور ساتھ لاتے تھے اور یہ سلسلہ ہمارے امریکہ جانے تک چلا۔
ایک اور دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ بھائی جان کا ایک خاص مدّت کے بعد سوشل سیکیوریٹی کے ایک سے دوسرے سیکریٹریٹ تبادلہ ہوا کرتا تھا۔ ہماری یونیورسٹی کی طلبہ سیاست کے دنوں میں دو تین بار ایسا ہوا کہ جس دن ان کا تبادلہ ہوتا اس دن ہم پولیس کے ہتھّے چڑھ جاتے۔ بعد میں جب تک بھائی جان ملازمت رہے جیسے ہی ان کا کوئی تبادلہ ہوتا وہ فون کرکے ہماری خیریت ضرور معلوم کرلیتے جبکہ ہمارے زمانہ طالبعلمی کو ختم ہوئے برسوں بیت چکے تھے۔
ہم بہن بھائیوں کا ہمیشہ یہی رویہ رہا کہ کسی بھی آزمائش یا مصیبت میں طنزو مزاح اور خوش گمانی کا کوئی پہلو ضرور ڈھونڈ لیتے اور اس فن میں بھائی جان سب سے آگے تھے۔ بہن بھائیوں سے بھتیجوں بھانجوں سے رشتہ داروں سے اپنی اولاد بہو دامادوں سے سب سے انتہائی دوستانہ تھا اور ہنسی مذاق چلتا تھا۔ اشوک کمار ایک نرس تھا جو ان کی دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا تھا وہ بھی انکاگرویدہ ہو گیا، اس سے بھی ان کی چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی تھی۔ان کے بیٹے اور خصوصاً بہو نے بھی کوئی کسر خدمت میں نہیں چھوڑی۔
نصف صدی بھائی جان نے سگریٹ پھونکتے گزاردی اور جب پھیپھڑے جواب دے گئے تو ڈٹ کر اپنے مرض سے مقابلہ کیا۔ پہلے ہی دن ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا لیکن آٹھ دن کی زور آزمائی کے بعد انہوں نے وینٹیلیٹر کوچت کردیا۔ دو بار آئی سی یو کو شکست دے کر باہر آگئے لیکن کیا کرتے ایک دل ہی تو تھا جب اس نے ساتھ چھوڑا تو یہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا