ایک دفعہ کا ذکر ہے پرانے بادشاہوں میں سے ایک نے اپنے دربار کے قاضی القضاۃ کو طلب کیا اور اسے حکم دیا کہ ایک شہر کے لیے ایک قاضی کا انتخاب کرے۔ قاضی القضاۃ نے اپنے چار شاگردوں سے اس موضوع پر بات کی اور کہا: تم اس کے لیے تیار رہو کہ کل عدالت کے برخاست ہونے کے بعد میں تمھارا امتحان لوں گا اور تم چاروں میں سے کسی ایک کو شہر کے قاضی کے طور پر بادشاہ سے متعارف کروں گا۔
اگلے دن کے لیے طے تھا کہ چند لوگوں (ملزموں) پر جرح کی جائے اور قاضی القضاۃ اور اس کے شاگرد اس اجلاس میں حاضر ہوں اور عدالت رسمی کارروائی کرے۔
داور نے ایک ملزم سے کہا کہ اپنا تعارف کرائے۔ پھر بولا: یہ شخص ملزم ہے کہ اس نے مردہ گائے کا گوشت اور چربی لوگوں کو فروخت کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کے خلاف شاکی کی زبان سے تفصیل معلوم کریں۔
شاکی نے، جس کا پیٹ بہت بڑھا ہوا تھا، اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا: میں ایک غریب آدمی ہوں اور دو ماہ ہوئے اِس شہر میں آیا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ زیادہ کھانا بُری بات ہے لیکن میں قورمہ بہت پسند کرتا ہوں اور زیادہ کھا جاتا ہوں۔ اس سے پہلے میں ایک گاؤں میں زندگی بسر کرتا تھا اور وہاں کوئی قصّاب نہیں تھا جس سے ہر روز گوشت خریدیں۔ چنانچہ ہم سردیوں کے آغاز میں ایک بھیڑ ذبح کرتے تھے اور اس کے گوشت اور چربی کو پکاتے تھے اور قورمہ تیار کرتے تھے اور ایک کھلے منہ کے برتن میں ڈال دیتے تھے اور سردیوں کے موسم میں اسے تھوڑا تھوڑا کھانے کے ساتھ استعمال میں لاتے تھے۔ جب میں اس شہر میں آیا تو میں نے قورمے کے گوشت کا سراغ لگایا، معلوم ہوا کہ چونکہ کم ہوتا ہے لہٰذا مہنگا ہوتا ہے۔ تاآنکہ میں ایک بقّال کے پاس پہنچا کہ قورمے کا گوشت بیچتا تھا اور دوسروں کی نسبت ذرا سستا دیتا تھا۔ چنانچہ میں اس کا گاہک بن گیا۔ میں ہر روز اس سے گوشت خریدتا اور ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ایک دن وہ کہنے لگا کہ گوشت ختم ہوگیا ہے۔ اگلے دن میں پھر وہاں گیا مگر گوشت نہیں تھا۔ اس سے اگلے دن میں پھر گیا اور صورتِ حال وہی تھی۔ میں نے اس کے شاگرد سے پوچھا تو بولا اب ہم کبھی قورمے کا گوشت نہیں رکھتے۔ میں نے اصرار کرکے کہا کہ اگر سابقہ قیمت پر نہیں بیچنا چاہتے تو کہو۔ اس نے جواباً کہا: نہیں اب ہم قورمہ نہیں رکھتے لیکن بہتر یہ ہے کہ تم قصّاب سے تازہ گوشت خریدا کرو اور قورمہ کھانے سے بچو کیونکہ قورمہ مہنگی چیز ہے اور اس کی تیاری میں بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ قورمے کا جو گوشت میں خریدا کرتا تھا کیا بے عیب اور ٹھیک نہیں ہوتا تھا؟ اس نے کہا: نہیں وہ حلال نہیں ہوتا تھا بلکہ مردہ گائے کا ہوتا تھا۔ میں نے جب یہ سنا تو میری حالت غیر ہوگئی اور میں کئی دن بیمار رہا۔ پھر میں نے شہر کے کوتوال سے شکایت کی کہ تمھارے شہر میں ایک دکاندار نے مجھے مردہ گائے کا گوشت اور چربی بیچی ہے چنانچہ کوتوال نے مجھے اور دکاندار کو بڑے قاضی کے حضور بھجوا دیا تاکہ تحقیق و تفتیش ہو۔ یہ تھی میری کہانی۔ یہی وہ دکاندار ہے کہ جس نے اپنا تعارف کرایا ہے۔
بڑے قاضی نے دکاندار سے کہا: اُٹھو اور جو حقیقت ہے سچ سچ بیان کرو۔ اگر تم جھوٹ بولو گے اور بعد میں یہ ثابت ہوگیا تو تمھاری سزا بدتر ہوگی۔
دکاندار اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے کہا: جو کہا گیا حقیقت وہی ہے لیکن میں ایک بدقسمت شخص ہوں جس کے پاس مالِ دنیا میں سے صرف ایک گائے تھی کہ اس کا دودھ اور دہی میں فروخت کرتا تھا۔ اتفاق سے گائے بیمار ہوگئی اور ایک دن اچانک مرگئی۔ یہ سوچ کر کہ میرا سرمایہ ضائع نہ ہو جائے میں نے اس گائے کو جسے قصّاب کو نہیں دے سکتا تھا، قورمہ کیا اور بیچ ڈالا۔ میں معافی کا طلب گار ہوں۔
داور بولا: جیسا کہ گواہان شہادت دیتے ہیں، یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ اُس ایک گائے کے علاوہ بھی اس کے پاس بہت سی گائیں ہیں اور اِس بُری حرکت کا سبب اس کا لالچ ہے۔ یہ لیں اس کا شاگرد گواہی دیتا ہے:
دکاندار کا شاگرد اُٹھا اور اس نے کہا: جناب قاضی صاحب! میں ایک خداپرست، انسان دوست اور سچا آدمی ہوں۔ ہماری دکان پر ہرگز قورمے کا گوشت نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایک دن دکاندار قورمے کا گوشت لایا۔ بیچتے بیچتے ختم ہوگیا۔ بعد میں ایک اور گاہک آیا مگر قورمہ ختم ہوچکا تھا۔ میں نے اپنے مالک کے خدمت گار سے پوچھا کہ اب قورمے کا گوشت کیوں تیار نہیں کیا جاتا۔ اس نے مردہ گائے کا بھید ظاہر کردیا اور جہاں تک مجھے علم ہے میرے مالک کے پاس اور بھی کئی گائیں ہیں۔
داور نے گھر کے خدمت گار سے جو وہاں موجود تھا، مذکورہ کہانی کی تفصیل چاہی۔ اس نے کہا: ہم اس کام سے بیزار تھے اور ہم نے مالک سے کہا کہ مردہ گائے کا گوشت اور چربی لوگوں کو کھانے کے لیے نہیں دینی چاہیے لیکن اس نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ اسے کتّوں بلیّوں کے لیے محفوظ کرلوں۔ مدتوں بعد جاکر ہم یہ بات سمجھ پائے کہ مالک اسے دکان پر لے آیا ہے اور لوگوں کو بیچ دیا ہے۔ دکاندار کے چند اور نزدیکی جاننے والوں نے بھی اس کی گواہی دی۔
تب داور نے کہا: اگر کوئی شخص نئے لباس کی جگہ پرانا لباس بیچے تو گویا وہ خریدار کو نقصان پہنچاتا ہے اور اگر کوئی کسی کا مال چراتا ہے تو اس کا گناہ لوگوں کا مال اڑانا ہے۔ وہ اس کا عِوَض (بدلہ) دے سکتا ہے اور اس نقصان کی تلافی کرسکتا ہے لیکن ایک ایسا شخص جو لوگوں کی خوراک میں ہیرا پھیری کرتا ہے __ خوراک __ جس کا تعلق انسانوں کی زندگی کے ساتھ ہے اوریوں وہ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتا ہے تو ایسے شخص کی سزا کسی انسان کُش اور قاتل کی سزا ہونی چاہیے۔ میں قاضی القضاۃ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مجرم کے لیے موت کا حکم صادر کریں تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں اور دوبارہ کوئی شخص کسی کی جان سے نہ کھیلے۔
بزرگ قاضی کُچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا: بے شک اِس شخص کا گناہ اُس شخص کا سا ہے کہ جو کسی انسان کی ہلاکت کا ارادہ کرے اور ایسے شخص کے لیے موت کی سزا کُچھ زیادہ نہیں۔ اسے قید میں ڈال دیں تاکہ کل وہ اپنے کیے کی سزا پائے۔ بعدازاں بزرگ قاضی نے سزا کا اعلان کردیا۔
جب لوگ جاچکے اور خَلْوَت ہوگئی تو بزرگ قاضی نے اپنے چاروں شاگردوں کو مخاطب کیا: اب تم امتحان کے لیے تیار ہو جاؤ۔ میں تمھارے سامنے ایک مسئلہ رکھتا ہوں اور تم سے اس کے فیصلہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں کہ تم اس پر حکم لگاؤ۔ مسئلہ یہ ہے:
ایک شخص کے گھر چند مہمان آئے۔ اس نے ملازم سے کہا کہ دودھ والے کی دکان پر جاؤ اور دودھ لے آؤ۔ ملازم نے دودھ مٹی کے بڑے کاسے میں ڈالا، کاسہ سر پر رکھ لیا اور گھر کا رخ کیا۔ رستے میں ایک بگلا، جس نے ایک بڑے سانپ کا شکار کیا تھا، فضا میں اڑ رہا تھا اور اُس سانپ کے منہ سے زہر کے چند قطرے ٹپ ٹپ دودھ کے کاسے میں آگرے۔ ملازم دودھ گھر لایا اور اس سے ایک لذیذ پکوان تیار کیا۔ مہمانوں نے وہ کھانا کھایا، انھیں زہر چڑھا اور وہ ہلاک ہوگئے۔
اب میں چاہتا ہوں کہ اگر آپ قاضی ہوں تو اس حادثے میں کسی کو گناہ گار ٹھہرائیں گے۔ ہر کوئی اپنی اپنی رائے کاغذ پر لکھ دے۔
بزرگ قاضی کے چاروں شاگردوں نے اپنی اپنی رائے کاغذ پر لکھ کر دے دی۔ بزرگ قاضی نے سب کے جواب لے لیے اور انھیں پڑھا۔ پہلی رائے یہ تھی: اگر میں قاضی ہوتا تو ملازم کو سولی پر چڑھا دیتا کہ اس نے دودھ کے کاسے کو سرپوش سے ڈھانپا کیوں نہیں تھا تاکہ اس میں سانپ کا زہر نہ گرتا۔
بزرگ قاضی نے کہا: یہ فیصلہ انصاف سے بعید ہے۔ ٹھیک ہے کہ کھانے کے برتن کو ہمیشہ ڈھانپنا چاہیے لیکن چونکہ اس طرح کا خطرہ ہمیشہ موجود نہیں ہوتا کہ فضا سے سانپ کا زہر دودھ میں آگرے اور کوئی ایسا قانون ہے نہیں کہ خوراک کے برتن کا ہمیشہ ڈھنْپا ہونا ضروری ہے اس لیے ملازم کو سزا نہیں دی جاسکتی۔
پھر دوسری رائے پڑھی گئی اور وہ کچھ اس طرح تھی: اگر میں قاضی ہوتا تو کسی کو گناہ گار نہ گردانتا کیونکہ حقیقت میں تو گناہ بگلے کا تھا کہ وہ سانپ کو ہوا میں لے اُڑا اور ]ظاہر ہے[ کہ حیوان کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ مہمانوں کی قسمت میں بھی یہی لکھا تھا کہ وہ سانپ کے زہر سے مریں گے۔ ہر کسی کی موت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ کوئی بستر پر مرتا ہے کوئی میدانِ جنگ میں۔
بزرگ قاضی نے کہا: یہ فیصلہ بھی درست نہیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ”قسمت ہی ایسی تھی، تقدیر میں یہی لکھا تھا“، یہ عوام اور نادان لوگوں کی رائے ہے۔ قاضی کا فرض ہے کہ حق و باطل کا تعیُّن کرے۔
پھر تیسرے شاگرد کی رائے پڑھی گئی: اگر میں قاضی ہوتا تو گھر کے مالک کو سزا دیتا جو مہمانوں کی موت کا باعث ہوا۔ وجہ یہ کہ اگر کھانا مہمانوں کو پیش کرنے سے پہلے وہ خود چکھ لیتا اور اسے پتا چل جاتا کہ کھانا زہریلا ہے تو دوسرے نہ کھاتے۔ پس صاحبِ خانہ گنہ گار ہے کیونکہ اگر سانپ کا معاملہ نہ بھی ہوتا تو کوئی دوسرا بھی تو کھانے میں زہر ملا سکتا تھا۔
بزرگ قاضی نے کہا: یہ فیصلہ انصاف سے بعید ہے کیونکہ صاحب خانہ اپنے گھر میں کسی سے بدگمان نہ تھا اور کوئی اُس گھر میں مشکوک نہ تھا کہ یہ احتیاط لازم آتی اور ایسا کوئی دستور بھی نہیں کہ جو کوئی مہمان کے لیے کھانا تیار کرے پہلے اسے خود چکھے اور جس وقت کوئی بگلا فضا میں پرواز کرے اور اس نے اپنے دانتوں میں سانپ پکڑ رکھا ہو، تو سانپ کے منہ سے زہر دودھ میں ٹپک پڑے اور صاحبِ خانہ کو خبر ہی نہ ہو تو یہ انصاف سے بعید ہے کہ ہم اسے گناہ گار ٹھہرائیں۔
اس کے بعد چوتھے شاگرد کی رائے پڑھی گئی، لکھا تھا: وضاحت لازمی ہے۔ بزرگ قاضی نے پوچھا: وضاحت سے کیا مطلب ہے؟
چوتھے شاگرد نے عرض کیا: وضاحت یہ ہے کہ میرے خیال میں اصولی طور پر اس مسئلے کی بنیاد درست نہیں۔ مراد یہ ہے کہ اگر کسی بگلے نے اپنے منہ میں سانپ پکڑ لیا ہوگا اور فضا میں پرواز کی ہوگی اور سانپ کا زہر دودھ میں گر گیا ہوگا اور بڑی آہستگی اور بغیر کسی آواز کے گر گیا ہوگا کہ ملازم کو پتا نہ چلا ہوگا، تو سوال یہ ہے کہ آپ کو کس نے بتایا کہ کوئی بگلا تھا، کوئی سانپ تھا اوراس کا زہر گرا ہے۔ اگر ملازم زہر والے واقعے کو بھانپ گیا تھا یا اگر کسی نے یہ واقعہ ہوتے دیکھا تھا اور اسے اطلاع کی تھی تو ایسی صورت میں اسے صاحبِ خانہ کو بتانا چاہیے تھا اور اگر وہ دودھ کا تجزیہ کرلیتا تو مہمان زہر کی ہلاکت سے بچ جاتے اور اگر کسی نے یہ بات کہی ہی نہیں اور کسی کسی کو خبر ہی نہ ہوئی تو پھر بزرگ قاضی کو اس کی خبر کس نے دی؟ میں کہتا ہوں کہ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ پہلی بار بگلے اور سانپ کی کہانی کس نے بتائی اور یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ کہانی درست ہے اور اگر میں قاضی بنوں تو یہیں سے تحقیقات کا آغاز کروں۔ گھر کے مالک، ملازم، شیرفروش، باورچی اور جو کوئی بھی اس گھر میں ہوتا ہے، سب کو حاضر کروں اور ہر ایک سے الگ الگ تفصیل سنوں اور ان کی دی گئی معلومات کا آپس میں تقابل کروں ۔ اگر بگلے والی کہانی جھوٹی تھی اور کسی نے اسے گھڑ لیا تو میں ایسے شخص کی نسبت زیادہ بدگمان ہوں گا اور اس سے زیادہ بازپُرس کروں گا کہ اس نے یہ کہانی کیوں گھڑی؟ ممکن ہے شیرفروش کا دودھ ہی فاسد اور زہریلا ہو اور اسی نے بگلے والی داستان گھڑی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ملازم یا باورچی یا خود صاحبِ خانہ مہمانوں سے دشمنی رکھتا ہو اور ان میں سے کسی نے دودھ میں زہر ملا دیا ہو اور پھر ایک کہانی گھڑ لی ہو۔ اس صورت میں جس کسی نے بھی بگلے اور سانپ کا قصّہ گھڑا گناہ گار ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ بگلے اور سانپ کی کہانی درست ہو اور کسی نے یہ منظر دیکھا ہو اور بعد میں بیان کیا ہو اور ان سب باتوں کے بارے میں تحقیق کی جاسکتی ہے اور عادل قاضی وہ ہوتا ہے کہ فیصلہ کرنے میں جلدبازی نہ کرے اور اپنے کام کے ایک ایک پہلو کو دیکھے پرکھے اور ہر جگہ اور ہر کسی سے جہاں تک ممکن ہو، تحقیق کرے اور گناہ گار اور بے گنہ میں امتیاز کرے اور اس کے بعد مجرم کو سزا دے۔
بزرگ قاضی گویا ہوا: آفرین ہو تم پر۔ یہ داستان تو محض ایک مسئلے کے طور پر تھی جسے میں نے امتحان کی خاطر فرض کیا تھا۔ تم نے بالکل درست کہا۔ میں تمھیں بادشاہ سے متعارف کروں گا اور یہ تمھیں ہو جو حق اور باطل میں امتیاز کرسکو اور غلط فیصلہ صادر نہ کرو۔
اگلے دن قاضی القضاۃ نے اپنے چوتھے شاگرد کی بادشاہ سے سفارش کی اور جس شہر میں قاضی نہیں تھا، وہاں اسے قاضی کے منصب پر مقرر کردیا گیا۔
٭٭٭