”پاکستان ٹیلی ویژن سروس کی جانب سے طارق عزیز آپ سے مخاطب ہے، خواتین و حضرات آج جمعرات ہے اور نومبر کی چھبیس (26) تاریخ (1964)۔ آج کا یادگار دن۔ پاکستان میں ٹیلے ویژن کے حوالے سے ایک تاریخ ساز دن ہے، آج وہ دن ہے، جب اپنے اس لاہور میں، اس شہروں کے شہر میں، اس کالجوں کے شہر میں، اس باغوں کے شہر میں،اس پھولوں کے شہرمیں، پاکستان ٹیلی ویژن اپنی نشریا ت کا آغاز کررہا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے صدر پاکستان جنرل ایوب خان کے ہاتھوں نشریات کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔اس وقت شام کے ساڑھے چھ بجے ہیں، ایک نگاہ گھڑی پر ڈال لیجئے،تو ہماری نشریات کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے، میں آپ کو ترتیب اور تفصیل بتا رہا ہوں۔ ابھی کچھ دیر کے بعد موسم کا حال بتایا جائے گا۔ بچے اپنا پروگرام دیکھیں گے، ہماری کوشش ہوگی کہ بچوں کو کھیل ہی کھیل میں بہت سی کام کی باتیں بتائی جائیں، تو بچو! آج ہم آپ کو بتارہے ہیں کہ ہوائی جہاز کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ اس پروگرام کا عنوان ہے، ہوائی جہاز خود بناؤ۔اس کے بعد بچے کارٹون دیکھیں گے۔ ابھی تک تو بچو! آپ نے کارٹون کتابوں یا اخباروں میں دیکھے تھے،لیکن آج ہم آپ کو چلتے پھرتے کارٹون دکھائیں گے، ضرور دیکھنا“۔
یہ تھی وہ پہلی اناؤنسمنٹ، جو ریڈیو پاکستان لاہور کی عمارت کے عقبی حصے سے کی گئی۔ اور یہ تھا، پاکستان میں ٹیلی ویژن کے سفر کا آغاز۔ اس ادارے کے پہلے سربراہ اسلم اظہر تھے۔ پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز قاری علی حسین صدیقی کی تلاوت سے نشریات کا آغاز ہوا۔ ظفر درانی مرحوم نے پاکستان میں ٹیلے ویژن کے افتتاح سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ اس کے بعد طارق عزیز مرحوم نے اناؤنسمنٹ کی، پھر بچوں کے پروگرام، ساڑھے آٹھ بجے اردو میں خبریں ٹیلی کاسٹ کی گئیں۔ خبریں بھی طارق عزیز ہی نے پڑھیں۔ اس طرح انہیں پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے اناؤنسر اور پہلے نیوز کاسٹر ہونے کا اعزاز بیک وقت حاصل ہوا۔
پی ٹی وی کا انسگنیا (یا لوگو) مصور مشرق عبدالرحمن چغتائی مرحوم نے تیار کیا تھا۔خبروں کے پہلے نیوز بلیٹن میں پی ٹی وی کی افتتاحی تقریب بھی دکھائی گئی۔ پی ٹی وی کی پہلی خاتون اناؤنسر کنول نصیر تھیں۔ 26نومبر 1964کو لاہور میں عید کا ساسماں تھا لوگ حیران حیران آنکھوں سے جیتی جاگتی تصویریں دیکھ رہے تھے۔ ٹیلی ویژن سیٹ پر لوگوں کے ہجوم لگ گئے، اور ٹریفک جام ہوگیا۔ پولیس کو ٹی وی سیٹ آف کرانے پڑے تھے۔ زندہ دلان ِ لاہور کے لئے وہ نئی دنیا کا دروازہ تھا، ان کی زندگی میں ہلچل مچ گئی تھی۔
1952میں وزارت اطلاعات ونشریا ت میں ملک میں ٹیلی ویژن کے قیام کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں۔ اس وقت کراچی ملک کا دارالحکومت تھا۔لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے ا س پروجیکٹ پر کام نہیں کیا جاسکا۔ 1955میں موجودہ سینٹرل جیل کے قریب ہونے والی تیسری بین الاقوامی نمائش کے افتتاح سے قبل نمائش کے امریکی پویلین میں 5ستمبر کو ٹیلی ویژن نشریات پیش کی گئیں۔اس وقت کے قائم قام گورنر جنرل اسکندر مرزا نے 16ستمبر 1955 کو تیسری بین الاقوامی نمائش کا افتتاح کیا۔ انہوں نے امریکی پویلین کے ٹی وی اسٹوڈیوز میں تقریرکرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ٹی وی اسٹوڈیوز کا دعوت نامہ اس لئے قبول کیا ہے کہ حکومت ٹیلی ویژن کو پاکستان کے لئے بہت ضروری سمجھتی ہے۔
جنرل محمد ایوب خان کے قائم کردہ تعلیمی کمیشن نے جنوری 1960میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے بارہویں باب میں ملک میں جلد از جلد تعلیمی مقاصد کے لئے ٹیلی ویژن کے قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ 5اکتوبر 1960کو کابینہ نے تعلیمی مقاصد کے لئے ٹیلی ویژن کے قیام کی منظوری دی۔ فروری 1961میں صدر جنرل ایوب خان نے جاپان کا دورہ کیا،وہ جاپان میں ٹیلی ویژن کی ترقی سے بہت متاثر ہوئے۔اسی سال دسمبر میں حکومت پاکستان کی دعوت پر کولمبو پلان کے تین جاپانی ماہرین پاکستان آئے۔اس وفد نے ملک میں ٹیلے ویژن کے قیام کا تفصیلی جائزہ لیا۔ 1962کے اوائل میں انہوں نے اپنی رپورٹ حکومت پاکستان کو پیش کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں ٹی وی صرف تعلیم تک محدود کرنے کے بجائے عام مقاصد کے لئے متعارف کرایا جائے۔ دوسری طرف بہت سے سرکاری حکام کی رائے تھی کہ ٹیلی ویژن کو تعلیم کے بجائے تفریحی یا تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا تعیش ہوگا۔
اکتوبر 1962میں کراچی میں پی آئی ایف یعنی پاکستان انٹرنیشنل فئیر کے عنوان سے ایک اور بین الاقوامی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ اس نمائش میں فلپس الیکٹریکل کمپنی آف پاکستان نے ایک تجرباتی ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم کیا۔ پورےشہر میں مختلف مقامات پر دوسو (200) ٹی وی سیٹ رکھے گئے، عوام کی فرمائش پر اس اسٹیشن کو 31جنوری 1963 تک جاری رکھا گیا۔اسی زمانے میں حکومت پاکستان نے ملک میں ٹیلی ویژن کے قیام کے لئے پیشکش طلب کی۔ اس سلسلے میں آٹھ اداروں نے دلچسپی ظاہر کی۔ جن میں تین غیرملکی ادارے بھی شامل تھے۔پاکستان ٹیلی ویژن کے قیام کا مقصد بظاہر یہ بتایا گیا کہ اس سے ملک کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے روشناس کرایا جائے گا۔ لیکن اصل مقصد فوجی حکمران جنرل ایوب خان کی حکومت کی تشہیر تھا۔
اپریل 1964میں ٹیلی ویژن پلاننگ سیل قائم کیا گیا، جو ڈائریکٹوریٹ جنرل ریڈیوپاکستان کا ایک جزو تھا۔ 19جون 1964کوکولبو پلان کے تحت حکومت جاپان کی ہدایت پر حکومت پاکستان سے تعاون کے لئے جاپان کا ایک وفد پاکستان آیا۔ دو مہینے کی شب و روز کی محنت کے بعد پانچ ارکان نے 20اکتوبر 1964کو ٹیلی ویژن پروجیکٹ ان پاکستان کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ حکومت پاکستان کو پیش کی۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں ٹیلی ویژن کے قیام کی تیاریاں زور وشور سے شروع کردی گئیں۔
یکم مئی 1964کو این ای سی نے اسلم اظہر کا تقرر پروگرام ڈائریکٹر کی حیثیت سے کیا۔ اسلم اظہر تھیٹر اور ریڈیو کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ اسلم اظہر کی اس ٹیم میں مزید تین افراد شامل کئے گئے۔ فضل کمال ریڈیو پاکستان سے آئے۔ ذکاء درانی مرحوم کراچی آرٹس کونسل میں پروگرام آفیسر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ نثار حسین ایران کے شہر ابادان میں ٹی وی پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کرچکے تھے۔ جاپانی پاکستانیوں کا جذبۂ تعمیردیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے صرف چند ہفتوں میں وہ کچھ کردکھایا، جومہینوں میں بھی ممکن نہ تھا۔ اسلم اظہر نے اپنی ٹیم میں وسعت دینا شروع کی۔ نثار مرزااور انیس ظفر کیمرے کی آنکھ بن گئے۔ شوکت اعجاز، جمیل صدیقی اور شہباز چوہدری نے ڈیزائن ڈپارٹمنٹ سنبھالا۔ میک اپ آرٹسٹ کمال الدین احمد نے چہرے کے نقش سنوارنا شروع کئے۔ اے کے مسرت فلم ایڈیٹنگ کے نگراں تھے۔ ظفر صمدانی نے نیوز کا شعبہ سنبھالا اور لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
ابتداء میں پی ٹی وی کی نشریات کا دورانیہ تین گھنٹے کا تھا اور پیر کو چھٹی ہوا کرتی تھی۔ ریکارڈنگ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے تمام پروگرام براہ راست ٹیلی کاسٹ کئے جاتے تھے۔ لاہور سے 28نومبر کو پہلا ڈرامہ نذرانہ پیش کیا گیا، جسے نجمہ فاروقی نے تحریر کیا اور اس کے پروڈیوسر فضل کمال تھے۔ فنکاروں میں قوی، بختیار احمد، بیگم تمنا ابراہیم، بیگم شمیم فاطمہ تھیں۔ فضل کمال نے پی ٹی وی کے ابتدائی چند برسوں میں سو سے زائد ڈرامے پیش کئے۔ ان کی بدولت ٹیلے ویژن کے ڈراموں کو ایک نیا رخ ملا اور ایک نئی راہ متعین ہوئی۔
لاہور ٹی وی سے نوے دن کی آزمائشی مدت میں ہفتہ میں ایک دن ڈرامہ پیش کیا جاتا تھا۔ ابتدئی ڈرامہ نگاروں میں اشفاق احمد، ڈاکٹر انورسجاد، رفیع پیرزادہ، آغا ناصر، کمال احمد رضوی، ریاض فرشوری اور نجمہ فاروقی تھیں۔
5دسمبر 1964سے اسٹوڈیو تھیٹر کے عنوان سے پچیس منٹ دورانئے کے گیارہ ڈرامے نشر کئے گئے۔ اس ابتدائی دور میں خواتین آرٹسٹ ڈھونڈے سے نہیں ملتی تھیں۔ نیرکمال کو ریڈیو سے لایا گیا، وہ راولپنڈی سے لاہور ڈرامہ کرنے جاتی تھیں، اور ڈرامہ براہ راست ہوا کرتا تھا۔ پی ٹی وی کے بانیوں نے فلم اور اسٹیج کے فنکاروں کے بجائے نئے فنکاروں کو دریافت کیا اور انہیں تربیت دے کر پیش کیا۔
لاہور میں ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے ایک ماہ بعد 25دسمبر 1964کو ڈھاکہ میں دوسرے پائلٹ ٹی وی اسٹیشن کا افتتاح کیا گیا(واضح رہے کہ 16دسمبر 1971تک بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھاا ور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا)۔ ڈھاکہ ٹی وی کے پہلے جنرل منیجر کلیم اللہ عظیمی نے بتایا کہ چونکہ مشرقی پاکستان میں فنون لطیفہ کی مستحکم روایات موجود تھیں، اسلئے ہمیں لاہور کی نسبت ڈھاکہ میں زیادہ سہولت رہی۔
27فروری 1965کو پانچ کروڑ روپے کے سرمائے سے ٹیلی ویژن پروموٹرز کمپنی قائم کی گئی۔ اس کمپنی میں حکومت پاکستان کے شیئرز سب سے زیادہ تھے۔ جاپان کے اداروں نے بھی شیرز حاصل کئے۔ کمپنی کے قائم کے ساتھ ہی دونوں پائلٹ ٹیلی ویژن اسٹیشن (لاہوراور ڈھاکہ)اس کمپنی کے کنٹرول میں آگئے۔
ستمبر 1965کی جنگ پوری قوم کے ساتھ پی ٹی وی کے لئے بھی ایک چیلنج بن گئی۔ کارکنا ن اس محاذ پر بھی ڈٹ گئے۔ نیوز ٹیموں نے خطرات کی پرواہ کئے بغیر محاذ جنگ سے تازہ ترین خبریں اور فلمیں بھیجیں۔ ایسے پروگرام پیش کئے گئے جن سے جذبہ جہاد کو نمایاں کرنے میں مدد ملی۔ اس دوران پروگراموں میں نمایاں تبدیلی کی گئی۔ ملکہ ترنم نورجہاں کے نغموں نے جنگ ستمبر میں نمایاں کردار ادا کیا۔
لاہور ٹیلی ویژن پر ابتداء ہی سے ڈراموں اور مزاحیہ پروگراموں کو مقبولیت حاصل رہی۔ اس زمانے میں ہر چیز اسٹوڈیو کے اندر ہی تیار کی جاتی تھی، کیونکہ ریکارڈنگ کی سہولت میسر نہ تھی۔ کوشش کی جاتی تھی کہ ملک کے دیہی اور شہری ماحول کو دکھایا جائے۔ پہلا ڈرامہ سیریل ٹالی تھلے اور اس کے بعد شہر کنارے اور اُچے برج لاہور دے زندگی کے ہر شعبے پر محیط تھے۔
الف اور نون پہلا مقبول ترین پروگرام تھا۔ یہ چار ادوار پر مشتمل تھا۔ پہلا دور یکم جون 1965سے 30نومبر 1965تھا،اس دوران 23پروگرام پیش کئے گئے۔ اس پروگرام کے دوران پبلک مقامات اور ہوٹلوں پر لوگوں کا رش لگ جاتا۔ ٹیلی ویژن سیٹ کی خریداری بہت بڑھ گئی اور ان کی درآمد بھی۔ دوسری مرتبہ یہ پروگرام 15مارچ 1968سے 18مارچ 1969تک پیش کیا گیا۔
ڈراموں کا سلسلہ جاگیر ایک دلچسپ تجربہ تھا، اس میں موقع کی مناسبت سے مصنوعا ت کی تشہیر کرداروں کے ذریعہ کی جاتی تھی۔ اس سلسلہ کا پہلا ڈرامہ 25مئی 1966کو ٹیلی کاسٹ ہوا۔اسے اشفاق احمد نے تحریر کیا اور آغا ناصر نے پروڈیوس کیا۔ 28جون 1967تک اس سلسلے کے اٹھاون ڈرامے پیش کئے گئے۔
ابتدائی دور میں ڈراموں کے موضوعات میں تنوع تھا، اس حوالے سے کہانی کی تلاش کے عنوان سے ڈراموں کا سلسلہ 1969میں شروع کیا گیا، جس نے ناظرین کو ورطہئ حیرت میں ڈال دیا۔ اس میں انورسجاد، خالد سعید بٹ اور فاروق ضمیر کی کاوش تھی۔
1967میں خلیل احمد اور نعیمہ حسن نے موسیقی سکھانے کے لئے پروگرام کلیوں کی مالا کا آغاز کیا۔ محترم لئیق احمد نے سائنسی پروگرام کی ابتدا کی۔ یہ پروگرام 2اپریل 1965کو شروع ہوئے اور ستمبر تک جاری رہے۔
اس کے بعد پی ٹی وی کی پہلی سالگرہ 26نومبر 1965کو ہوئی،اور اسی دن سے سائنس میگزین شروع کیا گیا۔ وہ سالہا سال چلتا رہا اور 1976تک راولپنڈی مرکز سے جاری رہا، پھرجب 2نومبر 1967 کراچی مرکز کا آغاز ہوا تو اس پر بھی سائنس میگزین چلایا گیا۔
اطہر شاہ خان کے مزاحیہ سیریل لاکھوں میں تین نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔ وہ پروگرام 14جون 1966سے 30اپریل 1967تک چلتا رہا۔ اس میں تین بے وقوف جاسوس ڈاکٹر یس، ڈاکٹر نو اور ڈاکٹر واٹ کے کرداروں نے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ ہمارا بچپن ان ہی کرداروں کے گرد گھومتا رہا۔
ابتدائی دور سے موسیقی کے پروگرام بہت پسند کئے جاتے تھے۔موسیقی کے ابتدائی پروگراموں میں آپ کی
خدمت میں، لوک رنگ، آہنگ، جھنکار، سنگیت بہار اور شام غزل شامل تھے۔
راولپنڈی کی چند آرمی بیرکس میں سینٹرل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ قائم کیا گیا، اس کے پہلے پرنسپل اسلم اظہر تھے۔ وہ مکمل ٹی وی اسٹیشن کی سہولتوں سے آراستہ تھا۔ اسی لئے اسے مکمل ٹی وی اسٹیشن میں تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔ چکلالہ کی اس فوجی عمارت میں 15جنوری 1967کو صدر جنرل ایوب خان نے ملک کے تیسرے ٹی وی اسٹیشن کا افتتاح کیا۔ جسے ابتداء ہی سے راولپنڈی اسلام آباد ٹیلی ویژن اسٹیشن کہا گیا۔
ابتدائی دور میں بچوں کے پروگراموں میں سائنس کلب، کلیوں کی مالا، شب بخیر ننھے دوستو، غنچے، گڑیا گھر، بچوں کی کہانی اور کہاوت کہانیاں شامل تھیں۔ کلیوں کی مالا میں ناہید نیازی اردواور مصلح الدین بنگلہ میں نغمے سکھاتے تھے۔ اس کا ابتدائی نام پدما کی موج تھا۔ بیس منٹ دورانئے کا یہ پروگرام 20جولائی 1967سے مارچ 1970تک جاری رہا۔
مارچ 1973میں صوبہ سرحد کے فنکاروں کے لئے آغوش کوہستان کے نام سے پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ اس کی ریہرسل پشاور میں اور ریکارڈنگ اسلام آباد میں ہوا کرتی تھی۔ اس میں ثقافت، ادب، موسیقی اور ڈرامے پیش کئے جاتے تھے۔
بصیرت کے نام سے پہلا مذہبی پروگرام 2مئی 1968سے شروع کیا گیا،اسے سید فیضی نے تحریر کیا۔ یہ پروگرام اب بھی پیش کیا جاتا ہے۔
لاہور کی طرح راولپنڈی سے بھی اسٹوڈیو تھیٹر کے عنوان سے ڈرامے پیش کئے گئے۔ اس سلسلے کا پہلا ڈرامہ اسلم اظہر نے پروڈیوس کیا۔ اس کانام سرخ ندی کے موڑ پر تھا اور اسے منو بھائی نے تحریر کیا تھا۔ 1968-69 میں شب تمثیل کے عنوان سے ڈرامے پیش کئے گئے۔ 1967کے اواخر میں کھڑکی کے نام سے ہونے والی سیریز میں چوالیس (44)ڈرامے ٹیلی کاسٹ کئے گئے۔ 1969میں آج کا کھیل، لگن اپنی اپنی، آپ بیتی، مسکراہٹیں اور اگرمگر شامل تھے۔
اسی سال رعنا شیروانی نے ڈرامہ سیریل سفید سایہ پروڈیوس کیا، جسے راولپنڈی اسلام آباد مرکز سے پیش کیا گیا۔ 1968-69میں اوراق کے عنوان سے کلاسیکی کہانیوں کی ڈرامائی تشکیل کی گئی۔ یہ سلسلہ بہت پسند کیا گیا۔ اسے فیاض الحق مرحوم نے پیش کیا اور وہ فاطمہ ثریا بجیا کا ابتدائی پروگرام تھا۔ اس میں علاقائی ادب کی مختلف کہانیاں بھی پیش کی جایا کرتی تھیں۔
خبروں کے معیار کو بلند کرنے کے لئے جرمن حکومت سے تعاون حاصل کیا گیا۔ 13مارچ 1967کو ایک معاہدے کے تحت ایشیئن ٹیلی سروس یا اے ٹی ایس کا قیام عمل میں آیا اور اس ادارے نے 19مئی 1967کو اپنے کا م کا آغاز کیا۔ اور جرمن پارلیمنٹ کے صدر کے دورہئ پاکستان کی نیوز کوریج کی گئی۔ ابتداء میں صرف جرمنی سے نیوزفلموں کا تبادلہ ہوا کرتا تھا، پھر اس کا دائرہ ساٹھ (60) ملکوں تک وسیع کردیا گیا۔ اے ٹی ایس نے دستاویزی فلموں کا بھی تبادلہ کیا۔ اس ادارے نے خبروں کی برق رفتار ترسیل کے لئے مختلف شہروں میں اپنے نمائندے بھی مقررکئے۔ جب ضرورت ہوتی تو اس کی ٹیموں کو بیرون ملک بھی بھیجا جاتا
تھا۔