پچھلےسے پچھلے کالم میں ہم نے کرونا وائرس کے عالمی اثرات کی بابت لکھا تھا کہ یہ جرثومہ دنیا کے معاملات میں قدرت کی براہ راست مداخلت ہے جس کے نتیجے میں اب دنیا ویسی نہیں رہے گی جیسی کہ یہ ہے__ یہ کالم میرے برادر بزرگ سیّد خالد مسعود نے فیس بک پہ ڈال دیا جس پہ بہت سے پڑھنے والوں کے تبصرے آئے۔ ان ہی میں ایک تبصرہ ممتاز کالم نگار شہناز احد صاحبہ کا تھا۔ انھوں نے تبصرہ کیا کاش ہم اس اشارے کو سمجھ سکتے۔ بات بڑی وزنی تھی۔ واقعی جب قدرت کے کاموں پر ہم کوئی تبصرہ کرتے ہیں تو ہمارے پاس وہ ٹھوس شواہد اور دلائل نہیں ہوتے جس کی بنا پرہم یہ دعویٰ کر سکیں کہ قدرت کا یہ اقدام اس مقصد کے لیے ہے۔ قدرت جو کچھ کرتی ہے اس کی بابت ہم صرف اندازے لگا سکتے ہیںیا قیاس آرائی کر سکتے ہیں۔ حقیقی علم یا ایسا یقینی علم ہمارے پاس نہیں ہوتا جس کی بنا پر ہم کوئی دعویٰ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کرونا وائرس کے پھیلائو اور نقصانات کی بابت دو روّیے پائے جاتے ہیں۔ ایک قسم کے لوگ تو وہ ہیں جو اس میں سازشی تھیوری تلاش کر رہے ہیں۔ جن کا گمان ہے کہ یہ جرثومہ ایک عالمی طاقت نے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے پھیلایا ہے۔ گو ثبوت اس کا بھی کوئی نہیں ہے۔ بس یہ سازشی تھیوری صرف تھیوری کی حد تک ہے۔ البتہ اس کے گرد اندازوں اور قیافوں کا ایک طومار باندھا جارہا ہے۔ لیکن اس تھیوری پر جو سوالات اور اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں، ان کا کوئی واضح جواب اس تھیوری کو پیش کرنے والوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ دوسرا روّیہ ہم جیسے مذہبی لوگوں کا ہے جو کرونا وائرس کو ایک آسمانی عذاب سے تعبیر کر رہے ہیں اور جن کا کہنا یہ ہے کہ یہ جرثومہ دنیا سے ظلم و استحصال، طاقت کا عدم توازن اور عدم مساوات اور ایسے ہی دوسرے مسائل کے خاتمے کے لیے آیا ہے۔ انسانی تعلقات میں پائی جانے والی منافقت، بے حسی اور بے دردی اور اندرونی پراگندگی کو خود انسانوں پہ منکشف کرکے ان کی اصلاح اور سدھار کے لیے یہ جرثومہ آیا ہے جس کی طرف ہم نے کسی کالم میں اشارہ بھی کیا ہے __ ظاہر ہے یہ دوسرا روّیہ جو ہے یہ بھی قیاس آرائی اور قیافے پر مبنی ہے اور اس کے لیے ہمارے پاس کوئی آسمانی علم ایسا نہیں ہے جو ہماری قیاس آرائی کو ٹھوس طریقے سے ثابت کر سکے۔ البتہ ہمارے پاس ایک دلیل ایسی ہے جس کا تعلق تاریخ میں اور ماضی میں پیش آنے والے ایسے واقعات، حادثات اور سانحات سے ہے جس کو مذہبی علم نے خدائی عذاب سے تعبیر کیا ہے اوریہ عذاب اس وقت آئے جب خدا کی زمین کفر و انکار سے اور ظلم و معصیت سے بھر گئی جس کو دُور کرنے کے لیے خدا نے اپنے برگزیدہ بندوں کو بھیجا جنھیں ہم نبی یا رسول کہتے ہیں۔ اور جب ان برگزیدہ بندوں سے بھی اصلاح ممکن نہ ہوئی تو خدا نے اس اُمّت کو اپنے عذاب اور سزا سے تباہ و برباد کر دیا۔ یہ تاریخ اور ماضی کا سبق ہے جس کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ خدا آج بھی زمین کے معاملات سے بے نیاز اور لاتعلق نہیں ہے۔ وہ آج بھی انسانی زندگی اور دنیاوی معاملات میں پوری طرح دخیل ہے جس کی تصدیق گرد و پیش کے مشاہدے اور مکافات عمل کے قانون سے کر سکتے ہیں۔ ظالم کو اس دنیا میں سزا مل کر رہتی ہے اور بدی کا انجام آخر کار برا ہی نکلتا ہے۔ منفی اور تخریبی رجحان و روّیے، طاقت پر انحصار انسانوں پر مظالم اور انسانیت کی تحقیر ایسی قوتوں کی تباہی اور بربادی پرمنتج ہوتی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتاہے کہ تبدیلی، تغّیر اور انقلاب قدرت کا ایک مستقل قانون ہے جس کے ذریعے بدتر کی جگہ بہتر کو لایا جاتا ہے۔ پچھلے کالم میں ہم نے یہی لکھا تھا کہ قدرت ظلم کو ایک حد تک برداشت کرتی ہے اور پانی جب سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو تبدیلی کا پہیّہ گھومنے لگتا ہے۔ طاقتور، کمزور اور کمزور طاقتور ہو جاتا ہے۔ اس وقت عالمی سامراجی طاقتوں نے دنیا میں ظلم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کو ختم کرنے کے حقیقت پسندانہ راستے مسدود ہوچکے تھے لہٰذا آثار و قرائن یہی بتاتے ہیں کہ قدرت نے اس جرثومے کے ذریعے دنیا کو بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چناں چہ یہ صرف ہمارا نہیں عالمی معاملات و امور پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہےکہ پوسٹ کرونا وائرس دنیا کے سیاسی اور معاشی حالات بدل جائیں گے۔ ڈبلیو ایچ او کا انتباہ ہے کہ لوگوں کو کرونا وائرس کے ساتھ خود کو جینے کا عادی بنا لینا چاہیے۔ جس کی تعبیر ہمارے نزدیک یہ ہے کہ یہ جرثومہ جس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے وہ اس وقت تک اپنا کام کرتا رہے گا جب تک مطلوبہ نتائج پیدا نہ ہو جائیں۔ اس میں تخصیص مسلم و غیر مسلم یا صاحب ایمان اور ایمان سے محروموں کی نہیں۔ یہ سارا معاملہ ظلم و استحصال کے اس نظام کو بدلنے سے ہے جو دنیا پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ چناں چہ امریکا کینیڈا اور یورپ ہو یا مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک سبھی اس جرثومے کی لپیٹ میں ہیں۔ پٹرول کی دولت پہ عیش و تمرّد کرنے والے بھی اس جرثومے سے اسی طرح متاثر ہیں جس طرح سرمایہ دارانہ معیشت کے ذریعے دولت اور وسائل کو چند ہاتھوں میں محدود کر دینے والے۔ یہ غیر مرئی جرثومہ انسان کی بے بسی اور بے حقیقتی کو بھی منکشف کرنے آیا ہے۔ یہ انسان کی بڑائی اور عظمت کاپول کھولنے کے لیے بھی ہے تاکہ وہ غرور اور گھمنڈ جو انسانوں کے اندر فطرت کو مسخّر کرنے، دنیا کو گلوبل ویلیج بنانے اور ایجادات و اختراعات کے ذریعے محیّر العقول تبدیلیاں لانے کی فتوحات نے پیدا کر دیا ہے۔ بے شک انسان ہی تمام مخلوقات میں اشرف و افضل ہے۔ کیوں کہ خداوند تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پہ خلق کیا ہے اور ادنیٰ درجے پہ اپنی جملہ صفات سے اسے متصّف کیا ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کو صرف مختار نہیں مجبور بھی بنایا گیا ہے۔ بندگی کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی فتوحات پر تکبّر و گھمنڈ میں مبتلا نہ ہو بلکہ عاجزی اور فروتنی اختیار کرے۔ انسان بڑائی اختیار کرکے اپنے ہی جیسے انسان کو اپنا غلام نہ بنائے۔ درد مندی، محبت اور عفو و درگذر کو ہی اپنا شعار بنائے۔ مگر المیہ تو یہی ہے کہ انسان کسی بھی المناک وقوعے سے سبق نہیں سیکھتا۔ واقعات کے پیچھے چھپے ہوئے محرکات کو تلاش نہیں کر پاتا۔ دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا اور سن کر بھی نہیں سنتا۔ اس لیے کہ وہ عقلمند ہو کر بھی کم عقل ہے اور سمجھدار ہوکر بھی ناسمجھ ہے۔ کم عقلی اور ناسمجھی کایہ پرفریب طلسم اس وقت ٹوٹتا ہے جب اس پر مصیبت پڑتی ہے، جب خوف و دہشت اور سراسیمگی اور احساس عدم تحفظ اسے گھیر لیتے ہیں تب اس پر کھلتا ہے کہ نہیں وہ زمین پر سب کچھ کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے۔ کوئی اور قوّت بھی ہے جو اس کے معاملات میں دخیل ہے۔ ایسی قوّت جو اس کے ارادوں کو توڑ دیتی ہے اور اس کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیتی ہے۔ حیرت ہے تو اس بات پہ کہ قدرت کی ایسی صریح اور واضح نشانیوں کے باوجود انسان غفلت اور بے خبری میں بدستور گھرا ہوا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ چلو کوئی بات نہیں۔ ہم جرثومے کے ساتھ ہی جینا سیکھ لیں گے۔ ہاتھ دھوتے رہیں گے اور ہاتھ ملانے سے پرہیز کر لیں گے۔ دوستوںاور عزیزوں سے گلے نہیں ملیں گے مگر اپنے اندرون اور باطن کو صاف نہیں کریں گے۔ ہم جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔ ہم نہیں بدلیں گے۔ انسان کی یہ اکڑ، یہ ہٹ دھرمی جب تک رہے گی، جرثومہ بھی رہے گا۔ قدرت جب ایک کام کا ارادہ کر لیتی ہے تو وہ کام ہرقیمت پہ ہوکر رہتا ہے۔ چناں چہ جرثومے کے اثرات و نتائج کے بارے میں ایک کنفیوژن ہے۔ آئندہ کیا ہوگا؟ ہم کب تک اسی لاک ڈائون میں گرفتار رہیں گے؟ ایک نارمل زندگی کب شروع ہوگی؟ ان سارے سوالوں کے جواب میں ایک کنفیوژن ہے۔ کسی کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں۔ انسان کا سارا علم، ساری بصیرت اور عقل مندی ٹھکانے لگ گئی ہے۔ اس کا کوئی حل نہیں۔ حل ہے تو فقط اس میں کہ ہم مان لیں کہ ایک عذاب ہے، ایک آزمائش ہے جس میں ہم مبتلا کر دیے گئے ہیں اور اس سے نجات اسی طرح ممکن ہے کہ ہم صحیح طور پر سوچنا سیکھ لیں۔ اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا اعتراف کرکے آسمان کی طرف ایک بار سر اٹھا کر دیکھ لیں۔ اپنے وجود کی پراگندگی سے نکلنا اور نکل کر اس بزرگ و برتر خدا کی ذات سے رابطہ کر لیں تاکہ وہ ہم پر مہربان ہو جائے۔ ہمیں معاف کر دے اور جس تکلیف دہ الجھن اور پریشانی میں ہم ڈال دیے گئے ہیں، اس سے ہمیں وہ نجات دے دے کہ نجات کا یہی واحد اور آخری راستہ ہے!