(نوٹ: اس مضمون میں ام المومنینؓ کی حیات مبارکہ کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے، جو تمام مومنین خاص طورپر خواتین کے لئے نمونہ عمل ہیں)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ولادت نبوت کے پانچویں سال شوال سن ۹ قبل ہجرت مطابق جولائی 614ء مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ ان کے والد خلیفہ ئ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور والدہ اُم رومان ؓ ہیں۔
والد کی جانب سے ان کا سلسلہ ئنسب ساتویں پشت میں اور والدہ کی جانب سے گیارہویں پشت میں رسول اللہ ﷺ سے جاملتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے آپ ؐ کا نکاح نبوت کے گیارہویں سال شوال کے مہینے میں ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں بتایا گیا تھا کہ ان سے آپؐ کا نکاح ہوگا۔ (صحیح بخاری ومسلم)۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ تقریباً تین سال مکہ مکرمہ ہی میں رہے، جس کے بعد آپ ؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ ہجر ت فرمائی۔ حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی ہجرت کے چند ماہ بعدیعنی شوال سن 1ھ (مطابق اپریل 623ء) مدینہ منورہ میں نہایت سادگی سے ہوئی۔ اس وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر نو برس تھی۔ بعدجدید سیرت نگاروں مثلاً عباس محمود العقاد (الصدیقہ بنت الصدیق) کی رائے میں رخصتی کے وقت ان کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ تھی(نیز دیکھئے رازق الخیری: مسلمانوں کی مائیں)۔
ازواج مطہرات میں صرف ان ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ کم عمری ہی سے رسول اللہ ﷺ کی صحبت و رفاقت اور تعلیم و تربیت سے مستفید ہوتی رہیں، اسی طرح چند اور سعادتیں بھی صرف ان ہی کے حصے میں آئیں جن کا وہ خود اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ذکر فرمایا کرتی تھیں، وہ فرماتی تھیں کہ تنہا مجھے ہی یہ شرف حاصل ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے عقد میں آنے سے پہلے ہی آپ ؐ کو خواب میں میری صورت دکھائی گئی اور فرمایا گیا کہ یہ دنیا اور آخرت میں آپ ؐ کی زوجہ ہونے والی ہیں۔ اور آپؐ کی ازواج میں سے تنہا میں ہی ہوں جس کا آپ ؐ کی زوجیت میں آنے سے پہلے کسی دوسرے کے ساتھ یہ تعلق اور رشتہ نہیں ہوا۔ اور تنہا مجھ ہی پر اللہ تعالیٰ کا یہ کرم تھا کہ آپؐ جب میرے ساتھ آرام فرما ہوتے تو آپؐ پر وحی آتی۔ دوسری ازواج میں سے کسی کو یہ سعادت میسر نہیں ہوئی اور یہ کہ میں ہی آپؐ کی ازواج میں سے آپؐ کو سب سے زیادہ محبوب تھی اور اس باپ کی بیٹی ہوں جو حضورؐ کو سب سے زیادہ محبوب تھے اور یہ شرف بھی آپ ؐکی ازواج میں سے مجھے ہی نصیب ہے کہ میرے والدین دونوں مہاجر ہیں اور یہ کہ بعض منافقین کی سازش کے نتیجے میں جب مجھ پر ایک گندی تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری برأت کے لئے قرآنی آیات نازل فرمائیں جن کو اہل ایمان قیامت تک تلاوت کرتے رہیں گے اور ان آیات میں مجھے نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی (طیبہ) فرمایا گیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ بچپن ہی سے انتہائی ذہین، عقل مند، باریک بین اور دور رس نگاہ کی مالک اور دینی مسائل کے فہم و شعور اور احکام کے اجتہاد و استنباط میں ازواج مطہرات ؓ میں امتیاز رکھتی تھیں اور دین کی خدمت اور مسائل شرعیہ کی تبلیغ کے لئے موزوں اور بہترین صلاحیتوں کی مالک تھیں اور اسی وجہ سے وہ حضور ؐ کو بے حد محبوب تھیں۔ کتب حدیث کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ تفسیر قرآن، علم حدیث، فقہ و قیاس، عقائد، علم اسرار دین، اسلامی تاریخ، افتا وارشاد اور خصوصاً خواتین سے متعلق دینی مسائل پر حضرت عائشہ ؓ کی گہری نظر تھی۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، فرمایا کہ جب کبھی ہم لوگوں یعنی رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کو کسی بات اور کسی مسئلے میں اشتباہ ہوا تو ہم نے ام المومنین حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا تو ان کے پاس اس کے بارے میں علم پایا (جامع ترمذی)۔
حضرت عروہ بن زبیر ؓ جو حضرت عائشہ ؓ کے حقیقی بھانجے تھے، اور ام المومنین ؓ کی روایتوں کی بڑی تعداد کے وہی راوی ہیں، حاکم اور طبرانی نے ان کا یہ بیان حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو اللہ کی کتا ب قرآن کریم اور فرائض کے بارے میں حرام وحلال اورفقہ کے بارے میں اور شعر اور طب کے بارے میں اور عربوں کے واقعات اور تاریخ کے بارے میں اور انساب کے بارے میں (ہماری خالہ جان) عائشہ ؓ سے زیادہ علم رکھتا ہو۔
حاکم اور طبرانی ہی نے ایک دوسرے تابعی حضرت مسروق ؒ سے روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے اکابر صحابہ ؓ کو دیکھا ہے کہ فرائض کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کرتے تھے۔ اور حاکم ہی نے ایک اور بزرگ تابعی حضرت عطاء ابن ابی رباح کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ بڑی فقیہہ تھیں اور بڑی عالم اور عام لوگوں کی رائے ان کے بارے میں بہت اچھی تھی۔
متعدد علمی کمالات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خطابت میں بھی کمال عطا فرمایا تھا، طبرانی نے حضرت امیر معاویہ ؓ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ اللہ کی قسم، میں نے کوئی خطیب نہیں دیکھا جو فصاحت و بلاغت اور ذہانت میں حضرت عائشہ ؓ سے فائق ہو۔
کتب احادیث میں حضرت عائشہ ؓ کے فضائل و مناقب کی بہت سی روایات محفوظ ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرم ؐ کو ان سے بڑی محبت تھی اور وہ بھی رسول اللہ ﷺ پر دل وجان سے نثار تھی۔ ان کی زندگی ایک گھریلو
مسلمان خاتون کے لئے قیامت تک کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اپنی سوتیلی اولاد سے بھی نہایت حسن سلوک سے پیش آتی تھیں اور ان کے اپنی سوکنوں سے بھی بہت خوشگوار تعلقات تھے۔
رسول اللہ ﷺ اپنے وصال سے قبل صر ف تیرہ دن علیل رہے، جن میں سے آخری آٹھ دن انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں گزارے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے دوران ان کی تیمارداری کی، دنیا سے پردہ فرمانے کے حضور اکرم ﷺ کی تدفین حضرت عائشہ ؓ کے حجرے ہی میں ہوئی۔ اس کے بعدحضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کو بھی اسی حجرے میں سپرد خاک کیا گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک حضور اکرم ﷺ کے وصال کے وقت 18 سال تھی۔ آپ 9 سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہیں۔رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد وہ 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔
اِس تمام عرصہ میں آپ کی شخصیت نمایاں نظر آتی ہے، کبھی آپ لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دیتی نظر آتی ہیں اور کبھی آپ عبادات و ایمانیات کے متعلق تعلیم دیتی ہیں، کبھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اقدس کے روشن پہلو بیان فرماتی ہیں اور کبھی امت میں اصلاح کے واسطے مہمل و کجاوے میں مسند نشیں نظر آتی ہیں۔ گویا اِس تمام مدت میں آپ کی شخصیت محور و مرکز بنی ہوئی تھی اور تمام مملکت اسلامیہ میں آپ بحیثیت مرکز و محور تسلیم کی جاتی تھیں، خلافت راشدہ کے اختتام پر اور اُموی خلافت کے زمانہ میں یہ شانِ جلالت اوجِ کمال پر رہی۔ حرم نبوت کی یہ شمع اپنی آب و تاب سے ملت اسلامیہ کو ہر وقت روشن کرتی رہی۔
زہد و قناعت کی وجہ صرف ایک جوڑا لباس کا اپنے پاس رکھتی تھیں اور اُسی کو دھو دھو کر پہن لیا کرتی تھیں۔بہت عبادت گزار تھیں، تہجد کے علاوہنماز چاشت پابندی سے ادا فرماتیں۔چاشت کی 8 رکعت ادائیگی آپ کا معمول تھا۔ نمازِ چاشت کی ادائیگی میں اکثر طویل وقت صرف ہوجاتا۔تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔آپ ؓہر سال پابندی سے حج کیا کرتی تھیں اور حجۃ الوداع کے بعد (سنہ 11ھ سے 57ھ / 632ء تا 677ء تک) مزید 47 حج ادافرمائے۔
حضرت عائشہ ؓ بہت فراخ دلی سے صدقات کیا کرتی تھیں اور اس حوالے سے اپنی ذات کی فکر تک نہ کرتی تھیں،
امام مالک بن انس تک ام المومنین سیدنا عائشہ صدیقہ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ:”ایک مسکین نے ان سے کچھ مانگا اس وقت وہ روزہ دار تھیں۔ان کے حجرہ مقدس میں صرف ایک روٹی تھی انہوں نے اپنی لونڈی سے فرمایا: ”یہ روٹی اس مسکین کو دے دو“۔ اس لونڈی نے عرض کی: ”ام المومنین آپ روزہ کس سے افطار کریں گی؟“۔ عائشہ صدیقہ نے فرمایا: ”یہ روٹی اس مسکین کو دے دو“۔لونڈی نے کہا: وہ روٹی میں نے مسکین کو دے دی جب شام ہوئی تو ہمیں کسی گھر والوں یا کسی نے ہدیہ بھیجا جو ہمیں بکری یا روٹی بھیجا کرتا تھا۔ام المومنین نے مجھے بلایا اور فرمایا:”اس میں سے کھاؤ، یہ تمہاری روٹی (ٹکیہ) میں سے بہتر ہے“۔
ایک صحابی کا بیان ہے کہ آپ نے ایک دن میں 70 ہزار درہم اللہ کی راہ میں صرف کیے اور خود پیوند لگے کپڑے پہنا کرتی تھیں۔آپ کے بھانجے حضرت عروہ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے صدیقہ (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کو دیکھا کہ آپ نے 70 ہزار درہم خیرات کیے اور اپنے کرتے کا دامن جھاڑ کر کھڑی ہوگئیں۔
ایک بار حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس دو تھیلے بھر کر ایک لاکھ کی رقم بھیجی، آپ نے ایک طباق منگوایا، اُس دن آپ کا روزہ تھا۔ آپ وہ رقم لوگوں میں بانٹنے لگیں۔ جب شام ہو گئی تو کنیز کو افطاری لانے کا حکم دیا، اُمِ ذرہ بولیں: اُم المومنین! آپ اِن درہموں میں سے ایک درہم کا گوشت منگو لیتیں جس سے آپ روزہ کھول لیتیں۔ فرمایا: مجھے مت کہو، اگر تم مجھے یاد دلا دیتی تو میں گوشت منگوا لیتی۔واضح رہے کہ آپ کی خدمت میں ایسے نذرانے حضرت امیر معاویہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر کی جانب سے پیش کیے جاتے تھے کہ اس زمانہ میں افواج اسلامی کثرت سے فتوحات حاصل کر رہی تھیں۔
تابعی حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سونے کا ایک ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، پس آپ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنین میں تقسیم فرما دیا۔
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقیدِ حیات رہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اواخر سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے اواخر سال ہیں۔ ماہِ رمضان 58ھ/ جولائی 678ء میں علیل ہوگئیں اور چند روز تک علیل رہیں۔ کوئی حال پوچھتا تو فرماتیں: اچھی ہوں۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے منگل 17 رمضان 58ھ مطابق 13 جولائی 678ء کی شب کو اِس دارِ فانی سے عالم بقاء کو لبیک کہا۔آپ ؓ کی وفات کی خبر اچانک ہی تمام مدینہ منورہ میں پھیل گئی اور انصارِ مدینہ منورہ
اپنے گھروں سے نکل آئے۔ جنازہ میں ہجوم اِتنا تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اِتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا، بعض عورتوں کا اژدھام دیکھ کر روزِ عید کے ہجوم کا گماں گزرتا تھا۔ آپ کی مدتِ حیات شمسی سال کے اعتبار سے 64 سال اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ تھی۔ نمازِ جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کی تجہیز و تکفین شب میں ہی عمل میں آئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اُن دِنوں مدینہ منورہ کے قائم مقام امیر تھے کیونکہ مروان بن حکم مدینہ منورہ میں موجود نہ تھا، وہ عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گیا ہوا تھا اور مدینہ منورہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب اور قائم مقام امیر بنا کر گیا تھا۔
بوقت تدفین آپ کی قبر اطہر کے چاروں اطراف ایک کپڑے سے پردہ کر دیا گیا تھا تاکہ آپ کے احترام میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔آپ کو قبر اطہر میں آپ کے بھانجوں، بھتیجوں یعنی جناب قاسم بن محمد بن ابی بکر، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر، عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمٰن بن ابی بکر اور عبد اللہ بن عبد الرحمٰن بن ابی بکر نے قبر اطہر میں اُتارا۔ شب بدھ میں تہجد کے وقت تدفین عمل میں آئی۔
(حوالہ جات:اردو دائرۃ المعارف۔ صحیح بخاری۔ طبقات ابن سعد۔معارف الحدیث۔ سیرت عائشہ رضی اللہ عنہا، سید سلیمان ندوی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا: نمونہ کامل، مائل خیر آبادی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سو قصے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔