اردو کے مشہور ناول نگار نسیم حجازی، جن کا اصل نام شریف حسین تھا، 19 مئی 1914 کو گورداسپور میں پیدا ہوئے اور2 مارچ 1996 کو 82 سال کی عمر میں راولپنڈی میں انتقال کرگئے
قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے راولپنڈی آگیا ۔ نسیم حجازی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت کے شعبے سے کیا اور ہفت روزہ تنظیم کوئٹہ،روزنامہ حیات کراچی، روزنامہ زمانہ کراچی، روزنامہ تعمیر راولپنڈی اور روزنامہ کوہستان راولپنڈی سے وابستہ رہے۔ انہوں نے بلوچستان اور شمالی سندھ میں تحریک پاکستان کو مقبول عام بنانے میں تحریری جہاد کیا اور بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے میں فعال کردار ادا کیا۔
نسیم حجازی کی اصل وجہ شہرت ان کی تاریخی ناول نگاری ہے جن میں داستان مجاہد، انسان اور دیوتا، محمد بن قاسم، آخری چٹان، شاہین، خاک اور خون، یوسف بن تاشقین، آخری معرکہ، معظم علی اور تلوار ٹوٹ گئی، قیصر و کسریٰ، قافلہ حجاز اور اندھیری رات کے مسافر کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے طنز و مزاح کے موضوع پر پورس کے ہاتھی، ثقافت کی تلاش، سفید جزیدہ اور سوسال بعد نامی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کا ایک سفر نامہ پاکستان سے دیار حرم تک بھی شائع ہوا۔
نسیم حجازی کی تصانیف کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان پر آخری چٹان اور شاہین نامی دو ڈراما سیریل بھی نشر ہوئیں۔ جبکہ ان کے ایک اور ناول خاک اور خون پر فلم بھی بنائی گئی ۔
نسیم حجازی نے 1992ء میں پرائڈ آف پرفارمنس بھی حاصل کیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نسیم حجازی کو ناول نگاری کے فن میں جو مہارت حاصل تھی وہ کسی ایوارڈ کی محتاج نہیں تھی، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کسی بھی ایوارڈ کے حصول سے نسیم حجازی کی نہیں بلکہ اس ایوارڈ کی وقعت میں ہی اضافہ ہوا۔