ہماری داستان بھی عجیب ہے کہ یہاں تاریخ بار بار پُرانے پھنسے ہوئے ریکارڈ کی طرح خود کو دُھراتی رہتی ہے اور اس کی روشنی میں دیکھنے والے بھی بدلتے ہوئے موسموں کا احساس کر ہی لیتے ہیں۔
جب اقتدار مٹھیوں سے ریت کی طرح نکلنے لگتا ہے تو پہلی علامت ہمیشہ ہی سُپریم کورٹ و دیگر ادارے اچانک ہی “انصاف و قانون “ کا بول بالا کرنے لگتے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے بڑے بڑے معاملات بھی سسٹم کے بیت الخلا کے پائیپوں کو بلاک کرکے ملک کے طول و عرض میں آلودگی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
2017ء میں اچانک ہی سُپریم کورٹ نے پاناما لیک کے کیس کو دیکھنا شروع کیا جو نواز شریف حکومت کے انجام پر منتج ہوا۔اس سے پہلے یوسف رضاگیلانی بھی سُپریم کورٹ کے انصاف کے ہاتھوں “شھید” ہوئے تھے۔
موجودہ صورت میں اچانک ہی الیکشن کمیشن ڈسکہ کے ضمنی انتخابات پر حکومت کے خلاف ایک بڑی چارج شیٹ جاری کردی، یاد رہے کہ اسی الیکشن کمیشن کے حضور میں پی ٹی آئی کے خلاف غیرملکی فنڈنگ کے کیس کئی سالوں سے بزیر سماعت ہے۔
وزیراعظم کے چہیتے فیصل واوڈا کی دُھری شھریت کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے سامنے زیر سماعت ہے۔ تاریخ پر تاریخ دیکر معاملے کو ٹالا جارہا ہے، اس معاملے میں نا اُمیدی کی انتہا ہے کہ انکی قومی اسمبلی کی ممکنہ نااہلی کی وجہ سے اب اسے سینٹ میں لایا جارہا ہے ۔
حالانکہ موصوف 2018ء میں کراچی کے حلقہ NA-249 سے شہباز شریف کے مقابلے پر صرف سات سو ووٹوں کی برتری سے جیتے تھے اور موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کسی صورت میں اس حلقے میں ضمنی انتخابات کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ یہ حکومت کم از کم الیکشن کمیشن کو مینیج کرنے میں ناکامی کا اعتراف ہے۔
حالیہ سینٹ کے انتخابات ملکی تاریخ کے انتہائی ہنگامہ خیر ثابت ہوسکتے ہیں۔حکومت نے ان انتخابات کو مروجہ خفیہ رائے شماری کی جگہ اوپن ووٹنگ کے ذریعے کرانے کافیصلہ کیا تو حزب اختلاف کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی، حالانکہ کچھ عرصہ پہلے یہی حزب اختلاف تھی جو خفیہ رائے شماری کے “اندھیرے کے تیروں “ کے ہاتھوں چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کے معاملے میں شھید ہوئی تھی۔
فرق اتنا ہے کہ اس وقت کھُلی ووٹنگ ان کے مفاد میں تھی اور آج غالبا انہیں حکمران جماعت کے بوسیدہ و دیمک زدہ قلعے میں نقب لگانے کی اُمیدیں نظر آرہی ہیں اس لئے وہ آئین کی حُرمت کے نام پر اپنی نقب زنی کو آسان بنانے کے لئے خفیہ رائے شماری کا علم بلند کئے ہوہے ہیں۔
حالانکہ دونوں سرکاری و حکومتی جماعتیں کسی نہ کسی درجے پر اس خفیہ رائے شماری کے ہاتھوں ڈسے ہوئے ہیں، اس کے باوجود وقتا فوقتا حاصل ہونے والے سیاسی مفادات کے اسیر ہو کر کوئی بھی معاملات کی بہتری کے لئے مل بیٹھ کر اس معاملے کو آخری مرتبہ حل کرنے کا موقعہ گنوا دیا گیا۔
ایک طرف تو حکومتی بنچ اپنے ارکان کی وفاداریوں کے بارے میں عدم اعتماد کا شکار ہے۔ کہ اس کے ساتھ ہی پہلے تو انہیں ماہر ترین “گلّہ بانوں ” کی جو اپنی ہی نہیں بلکہ پڑوسیوں کی بھیڑوں کا دودھ دوہ کر ان کے حوالے کرنے کے ماہر ہیں کی خدمات حاصل تھیں وہ اس مرتبہ غالبا “چھٹّی” پر گئے ہوئے ہیں، ورنہ حکومت کو اس معاملے پر فکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔گلّہ بانوں کی غیر موجودگی میں “آوارہ بھیڑوں” کو سنبھالنا بھئ مشکل امر ہے۔ اور “پڑوسی” بھی انکی بھیڑوں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
اس لئے چور مچائے شور کے مصداق 2018ءمیں سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد خفیہ ووٹوں اور “گلہ بانوں” کی “فنّی “ امداد کے ذریعے ناکام بنانے کے بعد اچانک ہی حکومت پر انکشاف ہوا کہ خفیہ ووٹنگ تو انتہائی بُری چیز ہے۔
تھا جو ’ناخُوب، بتدریج وہی ’خُوب‘ ہُوا
چونکہ حکومت کے پاس کھلی ووٹنگ کرانے کے لئے آئین میں ترمیم کرنے کی مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہے اس لئے انہوں نے دو طرفہ حملہ کیا، ایک طرف سپریم کورٹ میں اس سلسلے سوال بھیجا، دوسری طرف اپنے اس ارادے کو صدارتی آرڈینینس کے ذریعے نافذالعمل بھی کردیا۔
گُمان یہ ہے کہ حکومت توقع کررہی تھی کہ سُپریم کورٹ کے اس معاملے سینیٹ کے انتخابات تک فیصلہ نہیں کرپائے گی اور سینیٹ کے انتخابات صدارتی آرڈینینس کے مطابق انجام پائیں گے لیکن سُپریم کورٹ نے اس معاملے کو تیز رفتاری سے سُناہی نہیں بلکہ سینیٹ کے انتخابات سے ایک دن پہلے فیصلہ بھی سُنا کر بڑی حد تک (مکمل نہیں) حکمران جماعت کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ۔
یہ اشارے ہیں آنے والے وقت کے، اب بھی سوال باقی ہے کہ کیا “گلّہ بان” واقعتاً عارضی چھٹی پر گیا ہے اور جلدہی واپس آجائے گا یا اس نے ڈوبتی کشتی کا چپّو بنّے سے (عارضی) توبہ کرلی ہے ( عارضی اس لئے بھی 70 سال عادتیں دوسال میں نہیں جاتی)۔
آئین میں ترمیم کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں، پہلا تو مروجہ طریقہ جس میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں ہونے والی ترمیم جس کے لیے اپوزیشن راضی نہیں تھی اور معاملہ سرعت سے اپنی موت آپ مرگیا۔
دوسرے سپریم کورٹ کے ذریعے آئینی تشریح کے حق کو استعمال کرکے۔ اب حالت یہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں سوائے “گلّہ بانوں” کے انہوں نے کسی اور سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔
بلکہ وقتا فوقتا اگر کسی جج نے انکی پسند کے خلاف فیصلے یا ریمارک بھی دیے تو اس کی اور اس کے اہل خانہ عزت کے چیتھڑے اُڑا کر اپنی تسکین کا سامان کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد صدیقی سے نمٹنے میں کامیابی (درحقیقت “گلّہ بانوں” کی بندولت ورنہ ان کی کیا اوقات) ۔
جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے معاملے میں شکست کی صورت سامنے آئی (درحقیقت تمام تر سرکاری بد نیتی کے باوجود معذرت کے ساتھ جسٹس قاضی عیسی بھی اپنے جیوڈیشلُ بیلنس سے محروم ہو گئے اس کی قیمت انہیں چیف جسٹس کی طرف سے سرزنش اور تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی جج کی جبری طور پر بنچ سے علیحدگی کی صورت میں ادا کرنی پڑی ) دیکھنا پڑے گا کہ کیا وہ 25 اکتوبر 2023U تک بنچ پر رہ سکیں گے؟؟ ویسے بھی انکا مجوزہ دور چیف جسٹی تقریباً ۹ ماہ پر محیط ہوگا۔
حکومت کے تحقیر آمیز روئیے کے باعث کم از کم عدلیہ کے اندر ان کے بارے میں ہمدردی میں کمی دوسری طرف “گلّہ بانوں” میں ان کے بارے میں پہلے جیسا جوش نظر نہیں آرہا ۔
ان تمام عوامل کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے تیزرفتار اور مسلسل سماعتوں کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بارے میں ایک ایسا فیصلہ دیا ہے جس سے دو نوں فریقوں کے کامیابی کا دعوی کرنے کے باوجود بڑی حدتک خفیہ رائے دہی کو آئینی مجبوری کے طور بر بادل نخواستہ تسلیم تو کرلیا ( یعنی فیصلے کا جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہی ہے)۔
دوسری طرف سپریم کورٹ نے سینیٹ کے انتخابات میں ہونے والی بڑے پیمانے پر رقم کے استعمال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے حق تشریح کو استعمال کرکے آئین کے اس کے بڑے خلاء کو مناسب طریقے سے دور کرنے کی کوشش کی۔
چونکہ ابھی تک سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ دیا ہے، اس کا تفصیلی فیصلہ جو غالبا بعد میں جاری ہو گا میں اس سلسلے میں باقائدہ لائحہ عمل و ہدایات دی جائیں گی، تب بھی اس پر تبصرہ کیا جاسکے گا۔یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اس فیصلے کے اثرات کئی دہائیوں تک محسوس ہوں گے۔ بلکہ مشھور و معروف ججز کیس کی طرح یہ فیصلہ آئندہ کے پارلیمانی انتخابات کے لئے نئی روایت و نظیر کا پیش خیمہ ہوگا۔
دنیا میں اصولی طرف پر یہ فرض کیا جاتا کے کہ آئین ساز اداروں نے آئین و قانون کو good faith میں بنایا یا ترمیم کیا ہے۔اگر اس قانون کو غلط استعمال کیا جائے تو عدالت اپنا تشریح کے حق کو استعمال کرکے اسے قابل استعمال بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
یہاں پر خفیہ رائے شماری آئین کا حصہ ہے کہ اس کے علاوہ رشوت لیکر ووٹ دینا بھی جُرم ہے، یہ فرض نہیں کیا جا سکتا کہ آئین بنانے والوں نے جان بوجھ کر اس آئینی ادارے سینٹ کو بے توقیر کرنے کےلیے خفیہ رائے شماری کے زریعے رشوت ستانی کی دوکان کھولنے کی کوشش کی۔
دوسری طور غیرقانونی رشوت ستانی کے ذریعے ایوان بالا میں داخل ہونا بھی آئین کی روح کے خلاف ہے۔چونکہ مقننہ مناسب قانون سازی کرکے اس وباء سے ختم کرنے میں ناکام رہی، اس لئے سپریم کورٹ نے اپنے آئینی تشریح کے حق کو استعمال کرتے ہوئے آئین کی روح کے اور آئین سازوں کی منشاء (جیوڈیشل good faith ) کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔
سُپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے کا عملی طور پر خیرمقدم کرنے کے باوجود، سپریم کورٹ کے ووٹر کی اسکروٹنی کے دروازے کھولنے پر کچھ دبی دبی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔ ان سے بصد احترام اختلاف ہی کرسکتا ہوں کہ ملک وقوم کو کسی بھی غیر یقینی صورتحال سے نکالنے کے لئے قانون سازی کا پارلیمنٹ کا حق ضرور ہے لیکن عدالتی تشریح کے ذریعے ہی اسے دُھری چابی کے ذریعے ہی کامیابی کے ساتھ چلایا جاسکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں کھلی کرپشن سے کسی فریق نے انکار نہیں کیا۔وہ بذات خود سپریم کورٹ کو راستہ فراہم کرتا ہے۔ بلکہ یہ ایک عوام کے بنیادی حقوق کے مسئلہ ہے کہ نمائندگی کا حق اور درست نمائندوں کو ایوان میں بھیجنا عوام کا بنیادی حق ہے۔ اگر کوئی اسے پیسے کے بل پر عوام کا حق و مینڈیٹ چوری کرے۔ اور مقننہ خاموش تماشائی بن جائے تو سپریم کورٹ اسے fundamental right کے معاملے کے طور پر مداخلت کرنے کا مجاز ہے۔
برطانیہ سے لیکر امریکہ تک پارلیمانی ووٹ خفیہ نہیں ہوتے۔ عوام کے ووٹ خفیہ رکھے جاتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ کی بناء پر طاقتور افراد انہیں پریشان نہ کر سکیں لیکن پارلیمنٹ کے ممبران سے اپنے معاملات کو شفاف رکھنے کی توقع ہوتی ہے چاہے ان کے پارلیمانی ووٹ ہی کیوں نہ ہوں۔
آخرئ سوال “گلّہ بانوں “ کی ترجیحات ہیں، چاہے پسند کریں یا نہیں اس ملک میں ساری بھیڑیں (سیاسی ہوں یا انصافی) “گلّہ بانوں” کے ڈنڈے کے اشارے پر حرکت کرتی ہیں۔ کیا واقعی “گلہ بان” ان سے مایوس ہو گیا ہے یا وقتی طور پر سبق سکھانے کے لئے آرام سے بیٹھے ہیں؟ اس سوال کا جواب وقت ہی فراہم کرے تو کرے۔