سیف انداز بیاں رنگ بد ل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ہوتی
میں اس شعری ٹکڑے کا ہمیشہ سے ہی متعرف رہا ہوں کیونکہ اس میں بڑی واضح اور دو ٹوک بات کی گئی ہے کہ یہ انداز تکلم ہی ہوتا ہے جو بات کو نیا رنگ دے دیتا ہے اور یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو سحر انگیز ہوں تو قلب میں سرائیت کر جاتے ہیں اور وہ بھی الفاظ ہی ہوتے ہیں جو اپنے اندر اثر نہ رکھنے کی بنا پر غبارے کی طرح پھٹ کراپنا وجود کھو دیتے ہیں یہ انداز گفتگو ہی ہوتا ہے جس کی بنا پر لوگ آپ کے گرویدہ و مرید ہو جاتے ہیں یا ناپسندیدگی کی بنا پر دوسری بار آپ کو سننا یا دیکھنا گوارہ نہیں کرتے لیکن ہر وہ لکھاری یا مقرر جب زمانہ کی بساط کو اپنے ادارک اور فہم کے تحت مختلف زاویوں سے پرکھتا ہے اور جانچتے ہوئے پذیرائی پاتا ہے تو یہی پذیرائی اس کی شہرت کا ذریعہ بن جاتی ہے سیعد آسی صاحب جن کو میں صحافت میں اپنا روحانی استاد مانتا اور جانتا ہوں کے کالم اور تحریریں معروضی اور ادبی امتزاج میں انفرادیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے صحافی لکھاریوں کے لئے رہنما اصولوں سے کم نہیں ہیں کو آج تک اچھے نثر نگار لکھاری تک ہی جانتا رہا لیکن انکی شعری ادبی تخلیق ”کلام سعید“ نے سعید آسی صاحب کی شخصیت کو مجھ پر ایک اعلیٰ پائے کے شاعر کی حثیت سے منکشعف کیا ہے اور اسی بنا پر بڑے وثوق سے یہ بات ماننی پڑے گی کہ آسی صاحب کثیر جہتی تحریری اوصاف سے مال مال ہیں ماں بولی اظہار خیال ہو یا پھر قومی زبان میں قرطاسی افکار ہر ادبی صنف گہرے مشاہدات،احساسات اور قلبی ادارک کا کمال اور بہترین آئینہ دار ہیں یہی وجہ ہے کہ سیعدصاحب کی پنجابی تصانیف ”رمزاں“ یا ”سوچ سمندر“ یا پھر اردو ادبی شاہکار ”جزیرے جزیرے“ آگے موڑ جدائی کا تھا“ تیرے دکھ بھی میرے یا دیگر کتب قاری کو لفظی حصار میں جکڑ لیتے ہیں اور جو کہ ان کتب کی ادبی چاشنی سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اگر بات کر لی جائے آسی صاحب کے تازہ ترین شعری مجموعہ ”کلام سیعد“ کو تو میں اسے اردو اب میں منفرد تخلیقی تجربے کے طور پر دیکھتا ہو ں کیونکہ جہاں اس ادبی فن پارے میں ایک طرف زیست ناتواں کے غم غلط کرنے کے لئے لطیف و گداز انداز میں رومانوی جذبوں کا اظہار کیا گیا
ہے تو دوسری طرف زندگی کے تلخ اور کٹھن حقائق کو ساتھ ساتھ لے کر چلا گیا ہے اور لفظوں کی یہ لڑی رومان کی کیا خوب مثال ہے
کبھی تو شرم سے خود سمٹتی جا تی ہو
کبھی تم آپ ہی گنگنایا کرتی ہو
زمانہ کی سبک رفتاری میں گرتی قدروں،بے اعتنائی اور بے حسی کی روش کی ترجمانی کرنی ہو تو آسی صاحب کے کیا کہنے
کہاں وہ بات ہر دوست اپنا ساتھی تھا
کہاں یہ حال بے دست و پا ہوئے ہم
”کلام سعید“بہ زبان سیعد کو نوجوان نسل کی پسندیدہ شاعری کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہو گا کیونکہ عشق،محبت اور رومان کے محسوسات میں سے گزرنے والے کلام کے اس حصہ کو پڑھتے ہیں تو یو ں لگتا ہے کہ شاعر نے ان کے دل کی ترجمانی کر ڈالی ہے
دل کی دنیا اجاڑنے والے
مان جاؤ بہت اداس ہوں میں
اپنی دینی اقدار کو پست پشت ڈال کر مادیت کے چنگل میں پھنسے ماڈرن ورلڈ کے دلدادہ لوگوں کو جب نعمت خداوندی چھن جانے کے بعد مفلسی کا سامنا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آسی صاحب یوں گویا ہوتے ہیں
روشن خیالی کی نگری میں
بھوکی مر گئی خلقت یارا
ویرانی سی ویرانی ہے
اٹھ گئی گھر سے برکت یارا
روٹھ گئی ہے آسی ہم سے
دنیا کر ہر نعمت یارا
زندگی کی آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے دعائیہ انداز اپناتے ہوے اللہ پر کامل یقین ایک مومن کی پکار ہے۔
بیچ ہے منجدھار آسی اور ساحل دور ہے
کیسا ہو گا اپنا بیڑا پار، الہیٰ خیر ہو
روایتی انداز میں فراق کے احساس اور محبوب کی بے قدری کو کیا خوب رنگ دیا ہے ہے کہ ہر جائی کی بے رخی بھی بے یقینی نظر آرہی ہے
شاید میری الفت کو بہت یاد کرو گی
اپنے دل معصوم کو نا شاد کرو گی
شاید میری تربت کو بھی ٹھکرا کر چلو گی
شاید میری بے سود وفاؤں پر ہنسو گی
کلام سعید پر بات چیت کی تشنگی ابھی باقی ہے لیکن تنگ دامانی کی وجہ سے ان ہی الفاظ پر اکتفا کرتے ہو بات سمیٹنا چاہوں گا آسی صاحب کی یہ تصنیف ہم عصر شعرا کے مقابلہ میں اپنا مختلف انگ اور انداز بیاں اور اسلوب رکھتی ہے اور اردو ادبستان ہو یا پنجابی دبستان آسی صاحب کی ادبی تخلیقات کو ہمیشہ ہے چوٹی کے مقام پر دیکھا جائے گا دعا ہے اللہ اور زور قلم عطا فرمائے اور آسی صاحب نثر اور نظم میں مزید اوج کمال پایئں (آمین)