ملک کی تاریخ کے سب سے پہلے صدارتی انتخابات آج ہی کے دن (یعنی 2 جنوری) 1965ء کو ہوئے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کنونشن مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ جبکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت مشترکہ اپوزیشن کا پانچ جماعتی اتحاد کررہا تھا۔ ان انتخابات میں ایوب خان کی اختراع یعنی بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت بننے والے کونسلروں نے مادر ملت کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت کے لیے صدر منتخب کیا۔ انتخابی نتائج کے بعد ایوب خان پر انتخابات میں خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی میں دھاندلی کے شدید الزامات بھی لگے تھے۔
میں اس وقت اسکول میں پڑھ رہا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایوب خان کا انتخابی نشان گلاب کا پھول اور مادر ملت کا لالٹین تھی، کراچی کے عوام کی اکثریت محترمہ فاطمہ جنا ح کے ساتھ تھی۔ ہمارے ابو نے ایک مرتبہ انتخابات سے چند روز قبل ہمیں ٹیکسی پر لیاقت آباد اور ناظم آباد کی سیر کرائی تھی، جہاں لوگوں نے بڑی بڑی لالٹینیں بنا کر سڑکوں کے کنارے لگائی تھیں اور لوگوں کے ہجوم میں نے خود دیکھے، جبکہ گلاب کے پھول کے نشان نظر نہیں آتے تھے۔ ہمارے محلے میں غزالہ کے ابا اور ان کا خاندان ہی ایوب خان کا حامی تھا، ان کے علاوہ سب ہی مادر ملت کے پرستا ر تھے۔
الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے لیے ایک ماہ کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن جب اِسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ عام لوگ محترمہ فاطمہ جناح کو سننے کے لیے جوق در جوق آ رہے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے ہر فریق کے لیے زیادہ سے زیادہ نو پروجیکشن میٹنگز منعقد کرنے کی حد لگا دی۔ جن میں صرف الیکٹورل کالج کے بیسک ڈیموکریٹس یا صحافی شریک ہو سکتے تھے۔ عوام کو ان اجلاسوں میں آنے کی ممانعت تھی۔عجیب بات ہے کہ ایوب خان جنہیں عام طور پر ایک لبرل اور سیکولر شخصیت سمجھا جاتا تھا انہوں نے کئی علما سے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ لیا۔
جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح پر انتخابی مہم کے دوران یہ گھناؤنا الزام لگایا کہ پختونستان کے لئے وہ باچا خان کا ساتھ دے رہی ہیں.باچا خان اور انکی سیاسی پارٹی نیپ الیکشن میں فاطمہ جناح کو سپورٹ کر رہے تھے.صدارتی الیکشن میں فاطمہ جناح کو کراچی سے 1046 اور ایوب خان کو 837 ووٹ ملے تھے،فاطمہ جناح کو ڈھاکہ سے 353 اور ایوب خان کو 199 ووٹ ملے تھے،سندھ کے تمام جاگیر دار گھرانے ایوب خان کے ساتھ تھے،جبکہ فاطمہ جناح کے ساتھیوں میں جی ایم سید، حیدر آباد کے تالپور برادران،بدین کے فاضل راہو،فاطمہ جناح کے حامی تھے،پنجاب کے تمام سجادہ نشین سوائے پیر مکھڈ صفی الدین،سیال شریف کے پیروں نے مادر ملت کے خلاف فتویٰ دیا،جماعت اسلامی کے بانی امیر سید ابوالااعلیٰ مودودی نے محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمایت کی تھی۔
چنانچہ ایوب خان بحثیت صدر پوری سرکاری مشینری اور ہر طرح کا دباؤ برتنے کے بعد حسبِ توقع بھاری اکثریت سے فاطمہ جناح کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی حلقوں میں جو مایوسی پھیلی اس نے تین برس بعد ایوب خان کے خلاف بھرپور ملک گیر ایجی ٹیشن کی بنیاد رکھ دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔