کچھ لکھاریوں کا کہنا ہے کہ آج کل کے ینگ جرنلسٹ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ عاصمہ جہانگیر نے اپنے ابتدائی دور میں کتنی جدوجہد کی تھی، لوگ انہیں صرف انسانی حقوق کی علمبردار کے طور پر ہی جانتے ہیں۔
بجا فرمایا محترمہ ۔۔۔۔ ہم میں سے کسی کو علم نہیں کہ عاصمہ جہانگیر نے جس خاندان میں آنکھ کھولی وہاں اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ جرات, بہادری اور سچائی کا ساتھ انہیں ورثے میں ملا تھا ۔ ملک غلام جیلانی ایک اصول پسند ریٹائرڈ سول سرونٹ تھے , جنہوں نے بیوروکریسی کی مدت ملازمت بڑھانے کی بجائے ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی اور اصولی سیاست میں قدم رکھا ۔۔۔۔ جہاں ان کا سامنا ایوب خان کی آمریت سے ہوا۔ ملک غلام جیلانی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دینے والی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ڈٹ گئے جبکہ آمریت کے بت یہ کہاں برداشت کر سکتے تھے کہ اک ادنی سا نوکر شاہی کا پتلا ان کے خلاف آواز بلند کرے لہذا ایوب خان نے انھیں اپنے ارادوں کی راہ میں حائل پا کے انہیں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا , یہ پھر بھی نہ مانے تو انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ جی ہاں یہ تھے عاصمہ اور حنا جیلانی کے والد۔
اس خاندان کی تکلیفیں یہاں ختم نہیں ہوئیں۔ 1967 میں سرکار کے حکم پر ان کی زمین ضبط کر لی گئی تو ایسے میں ان کی والدہ نے ہمت نہیں ہاری اور کپڑوں کی تجارت کا آغاز کیا۔ عاصمہ کی والدہ نے اس دور میں جب اشرافیہ کی بیٹیوں کا بھی اسکول جانا معیوب سمجھا جاتا تھا انہوں نے مخلوط تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اور تو اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ سقوط ڈھاکہ کے مرکزی کردار , یحیی خان نے جب مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی، تو ملک غلام جیلانی نے ان کے اس اقدام کی بھی مخالفت کی۔
یہ وہ ادوار تھے جب عاصمہ اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ لاہور کے کانونٹ آف میری اینڈ جیسس سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کنیرڈ کالج میں ایڈمیشن لیا ۔۔۔۔ اپنے والدین کی جدوجہد کے ساتھ پرورش پانے والی بیٹیاں اتنی ہی بہادر ہوا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔ ظلم کے خلاف کھڑے ہو جانا انہوں نے گھر سے ہی سیکھا۔ بعد میں جامعہ پنجاب سے ایل ایل بی کر کے وکالت کی دنیا میں قدم رکھا ۔عاصمہ وکالت کے شعبے میں بھی کامیاب رہیں اور سپریم کورٹ وکلا تنظیم کی صدر بنی۔
شاید ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ضیا الحق کے مارشل لا دور میں عاصمہ جہانگیر اس آمرانہ سوچ کے خلاف ڈٹ گئی تھیں , انھیں 1983ء میں جمہوری نظام کی بحالی کی کوششیں کرنے کی پاداش میں جیل بھیج دیا گیا۔ 1986ء میں یہ جینیوا چلی گئیں جہاں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی قوتوں نے انھیں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے کا نائب بنا دیا، لیکن ان کے ذہن میں کچھ اور ہی تھا لہٰذا 1988ء میں یہ پھر پاکستان آ گئیں اور یہاں آکے انہوں نے انسانی حقوق کا کمیشن قائم کیا۔ وہ پہلے اس کی سیکرٹری جنرل تھیں، پھر 1993 میں چیرپرسن بن گئیں جہاں انہوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کی بحالی کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا ۔
اور ہم نہیں جانتے کہ جب پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجینسی نافذ کی تو عاصمہ ان کے خلاف احتجاجی تحریک کا حصہ بنیں، اس سے پہلے بھی یہ عدلیہ بحالی تحریک کی نمایاں رہ نما تھیں۔ پرویز مشرف نے انھیں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا۔
ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ عاصمہ جہاں گیر کی خدمات کے صلے میں 2004ء سے 2010 تک اقوام متحدہ نے انھیں اپنا مندوب مقرر کیا، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھتا ہے اس دوران انہوں نے فلسطین ,کشمیر اور سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی۔
اس قابل فخر بیٹی کی شبیہ بہت شاندار ہے۔ عاصمہ جیلانی بنام وفاق پاکستان 1972ء ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس مقدمے میں یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا تھا۔ چالیس سال سے زیادہ وقت گذر گیا لیکن عاصمہ جہانگیر کا سفر بڑھتا رہا انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جمہوری حقوق کی جدوجہد ہو یا عورتوں کی آدھی گواہی کی بحث، آزادی صحافت پر قدغن لگے یا عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہو، بھٹہ مزدوروں کے حقوق ہوں یا جبری مشقت کا معاملہ ،کم عمر بچوں سے مشقت کا مسئلہ ہو یا مذہبی اقلیتوں کے حقوق، بلوچ ہم وطنوں کے حقوق کا سوال ہو یا قبائلی علاقوں میں قوانین، عاصمہ جہانگیر نے اپنے شعور اور عمل سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو مایوس نہیں کیا۔ عاصمہ جہانگیر پر قاتلانہ حملے بھی کیے گئے۔ اور انہیں ملک دشمن اور غدار وطن بھی قرار دیا گیا لیکن عاصمہ, سچائی کی راہ پر ثابت قدم رہیں ۔ شاید اب بھی بہت کچھ لکھنے سے رہ گیا ہو جو ہم نہیں جانتے۔