کورونا کے سبب تعلیمی ادارے بند ہیں کل تک جو ڈی۔ای۔او ،اے ۔ای۔او حضرات اسکول بند ہونے کانوٹس لیتے تھے آج وہی اسکول کھولنے پر نوٹس لے رہے ہیں۔اساتذہ کرام جوقوم کے معمارتصور کیے جاتے ہیں بہت کم ایسے ہیں جو Bye choice اس پروفیشنل میں ہیں زیادہ تعداد By chance والے ہیں۔میرامانناہے کہ ایک اچھا اور فعال استاد وہ ہے جونہ صرف اپنے مضمون پر پورا عبور رکھتا ہے، بلکہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر بھی اسے مکمل دسترس ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر اپنا رویہ ہمیشہ مثبت رکھتا ہے۔ اس نے نسلوں کی تعمیر کرنا ہوتی ہے،وہ بچوں کا رول ماڈل ہوتا ہے اور بچوں کی تربیت میں اس کے مثبت رویے کا تاثر بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔مَیں اس شخص کو استاد نہیں سمجھتا جو بچوں کی آسان رسائی میں نہ ہو۔ جو بچوں کی باتوں اور ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر پوری توجہ نہ دے۔ سکولوں کا بنیادی مقصد ہی بچوں کو ایسا ماحول مہیا کرنا ہے، جس سے ان کے اندر چھپی ہوئی بے پناہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں،تاکہ مستقبل میں وہ ایک باصلاحیت ا نسان اور اچھے شہری کے طور پر سامنے آئیں۔ تعلیم حقیقت میں ایک طرز زندگی ہے۔ اچھی طرح اٹھنا، اچھی طرح بیٹھنا، اچھی طرح کھانا، اچھی طرح پینا، اچھی طرح با ت کرنا، اچھالہجہ اپنانا، اچھا رویہ رکھنا، ایسا سب کچھ سکھانا ہی تعلیم ہے اور یہ سکھانے والا ہی استاد کہلانے کے لائق ہے۔
ہم اپنے سرکاری سکولوں کو بہترین اساتذہ مہیا کرتے ہیں جو تعلیمی ہی نہیں پیشہ ورانہ طور پر بھی انتہائی اہل ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ تمام لوگ جو معاشی طور پر قدرے خوشحال ہوتے ہیں، اپنے بچوں کو ان سکولوں میں نہیں بھیجتے کہ وہ غریبوں کے سکول ہیں۔ وہاں تعلیم مفت ہے۔ وہ مفت میں کیا پڑھائیں گے۔حکومت یکساں نظام تعلیم کے نعرے لگا رہی ہے۔ اصل مسئلہ تمام وسائل تک ہر طبقے کے بچوں کی یکساں رسائی کا ہے۔تعلیم آئینی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سارے سکولوں کا معیار ایک جیسا ہو سکے تو کریں، ورنہ یکساں نظام تعلیم ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ بڑے بڑے پرائیویٹ تعلیمی ادارے،جن میں غریبوں کے بچوں کا گزر بھی ممکن نہیں، ان کو پابند کیا جائے کہ وسائل نہ رکھنے والے لوگوں کے بچوں کے لئے سکول کی کل تعداد کا کم از کم بیس فیصد کوٹہ رکھیں اور انہیں فری تعلیم دیں۔
حکومت کچھ ایسے اقدامات بھی کرے کہ کھاتے پیتے لوگ بھی سرکاری سکولوں میں بچوں کو داخل کرانا بہتر سمجھیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم اور تحقیق سے وابستہ ایک لیبارٹری سکول ہے۔ وہاں بہت سے پی ایچ ڈی سکالر بھی پڑھاتے ہیں۔ پاکستان بھر کے بہترین استاد ہی نہیں، استادوں کے استاد اس سکول کے منتظم ہیں، مگر میں نے وہاں بھی یونیورسٹی کے کسی سینئر استاد یا کسی سینئر آفیسر کے بچے کو پڑھتے نہیں دیکھا۔ سرکاری سکولوں کے بارے معاشی طور پر بہتر لوگوں کا رویہ ایک غلط سوچ ہے، جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔
عام آدمی،جو معاشی طور پر بہت آسودہ تو نہیں قدرے بہتر ہوتاہے، وہ بھی اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ سرکاری سکول کی نسبت کوئی بہتر سکول مل جائے۔ جن کے پاس پیسے ہیں، وہ لوگ مفت کی نسبت کچھ نہ کچھ پیسے دے کر بچوں کو پڑھانا بہتر جانتے ہیں۔ایسے سکول زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں۔ اس سیکٹر میں ایک مافیا بھی موجود ہے جو پوری طرح کمرشل انداز میں انتہائی مہنگے سکول چلا رہا ہے،مگر کچھ پرائیویٹ سکول بڑی معقول فیس کے ساتھ لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان سکولوں کے مالک خدمت خلق یا معمولی نفع پر کام کرتے ہیں یا کچھ سکول حکومتی اداروں کے تحت ہیں۔ افواج پاکستان،وہ چاہے آرمی ہو، ائیر فورس ہو یا نیوی، کے بارے میں لوگوں میں ایک مثبت تصور ہے کہ یہ لوگ ہر کام بڑے پروفیشنل انداز میں کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے افواج پاکستان کے سکولوں کا بہت اچھا تاثر ہے۔ آرمی کے بہت سے سکول بہت عرصے سے نصابی، ہم نصابی اور غیر نصابی، ہر طرح سے بچوں کی تربیت میں شاندار کردار ادا کر رہے ہیں۔لوگ ان سکولوں میں بچے کو داخل کرانے کے بعد اس کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔
پاکستان ائیر فورس کے بھی کچھ سکول ہیں جنہیں عام طور پر ایئر فورس کے افسران یا PAFWAکنٹرول کرتی ہے۔میرے ایک جاننے والے کو شوق تھا کہ ان کا بچہ کسی اچھے سکول میں پڑھے، آمدن بھی کافی بہتر تھی۔ آمدن بہتر ہو تو سرکاری سکول نہیں بھاتا۔ وہ کسی بہتر سکول کی تلاش میں تھے۔ انہیں لاہورکینٹ کے علاقے میں موجود ائیر فورس کا سکول بھلا لگا، مگر وہاں داخلہ مشکل تھا، مگرکسی حوالے اور سفارش سے بچہ مونٹیسوری میں داخل ہو گیا۔ چند دن پہلے وہ مونٹیسوی کی کلاس ایڈوانس میں پڑھ رہا تھا۔اس کے والدین مجھ سے ملے۔ کچھ پریشان تھے کہ بچہ گھر میں ہر چیز فرفر سنا دیتا ہے، مگر سکول کے نام سے جانے کیوں نروس ہو جاتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سکول نہ جائے۔ ہم کلاس ٹیچر سے ملے ہیں،وہ کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ ہیڈ مسٹرس صاحبہ بھی کوئی توجہ نہیں دیتیں۔
بچہ گھر میں ہر طرح ٹھیک ہے، مگر سکول سے حد درجہ خائف۔سکول کے تمام ذمہ داروں سے ملے ہیں،مگر کوئی ہماری بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ انہوں نے سکول ایڈمنسٹریٹر، شا ید اسلم نام تھا، کافون دیا۔ میں نے اس سے بات کی تو اس نے مجھے کہا کہ والدین کو میرے پاس بھیج دیں۔ میں دیکھ لیتا ہوں۔ والدین ملے تو اس نے صرف یہ کیا کہ انہیں سکول ہیڈمسٹرس سے ملنے کا کہا۔ ان کے بقول وہ ہیڈ مسٹرس صاحبہ سے دو تین بار مل کر خاصی عزت افزائی حاصل کر چکے تھے،اس لئے دوبارہ ملنے کا ان میں حوصلہ نہیں تھا۔ مَیں نے انہیں ہیڈ مسڑس صاحبہ کافون نمبر لانے کا کہا کہ خود بات کر لوں۔
مجھے ان دنوں اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ میرا ایک چھوٹا بھائی بھی ائیر فورس میں ہے۔ اتفاق سے ایک جگہ وہ، اس کے سارے بیج میٹ اور مَیں اکٹھے تھے۔ میں نے ساتھ بیٹھے ائیر وائس ماشل سرفراز سے پوچھا کہ آپ میں سکولوں کو کون دیکھتا ہے؟ مجھے شاید لاہور میں سفارش کے لئے ضرورت پڑے۔ کہنے لگے لاہور کے بیس کمانڈر ائیر کموڈور عمرہمارے ساتھی ہیں، ان سے بات کر لیں گے، یہ تو انتہائی معمولی کام ہے۔مَیں لاہور واپس آیا تو ہیڈ مسٹرس کا نمبر لے کر انہیں فون کیا۔ ہیلو کے جواب میں، مَیں نے کہا کہ ہیڈ مسٹرس صاحبہ سے بات کرنی ہے۔ بڑے تیز لہجے میں انہوں نے پوچھا، آپ کون ہیں اور کیوں بات کرنی ہے؟ مَیں نے مختصر لفظوں میں اپنا تفصیلی تعارف کرایا کہ ریٹائرڈ پروفیسر ہوں اور آج بھی فلاں یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہوں اور اپنے ایک عزیز کے فلاں کلاس کے فلاں بچے کے بارے بات کرنی ہے۔ جواب ملا، میں والدین کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرتی۔ میں نے منت کی کہ کچھ بات سن تو لیں، مگر وہ فون بند کرنے لگیں،مجبوراً میں نے انہیں کہا کہ میں ان کے رویے اور ان جیسی استادانہ شفقت سے بے بہرہ ٹیچر کے بارے حکام بالا کو ضرور مطلع کروں گا۔ تھوڑی سی مزید بات چیت کے بعد فون بند ہو گیا مگر مَیں کافی دیر تک ا ن کے لہجے کی تلخی اور تحکمانہ طرز عمل کے بارے میں سوچ کر محظوظ ہوتا رہا۔ یہ لہجہ اور یہ انداز ان لاڈلی بیگمات کا تو ہو سکتا ہے جو اپنے خاوندوں کو ڈرانے میں کمال رکھتی ہیں مگر ایک استاد کا ہرگز نہیں ہو سکتا۔مجھے یقین ہے کہ ائیر فورس کے کسی بڑے افسر کا بچہ اس سکول میں نہیں پڑھتا ہو گا، ورنہ وہ خاتون اور ان کی ٹیچر وہاں اپناوجود برقرار نہ رکھ سکتیں۔
ائیر فورس کے لوگ پیشہ ورانہ مہارت پر ایمان رکھتے ہیں وہ ایسے اساتذہ کوکیونکر برداشت کریں گے۔یہ غریبوں کے بچوں کی قسمت سے کھیلنے کی اسی لئے عادی ہیں کہ ذمہ داران کو ان کے جبراور ناروا سلوک کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ میرے عزیز مجھ سے اسی دن پھر ملے تو مَیں نے انہیں کہا کہ اگر آپ کو بچے کا مستقل عزیز ہے تو خدارا اس سکول کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھیں اور اگر بچے کا مستقل تباہ کرنا ہے تو مَیں سفارش کے لئے کہہ دیتا ہوں۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور وہ بچے کو کہیں اور داخل کرانے کا فیصلہ کرکے چلے گئے،مگر اگلے دن ہیڈ مسٹرس صاحبہ نے والدین کو خود بلا لیا اور یوں بچہ اور مسئلہ آج بھی جوں کے توں ہیں۔
میں 1974ء سے تاحال 45 سال سے تدریس کا کام کر رہا ہوں۔ 30 سال سے ٹیچر ٹریننگ کا کام بھی کرتا ہوں۔بنیادی مضمون ریاضی ہے، مگرپنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم اور تحقیق سے پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ ان ایجوکیشن بھی لیا ہے اور آج بھی وہاں ایلیمنٹری ٹیچرز کو پڑھاتا ہوں۔میرے پاس مشی گن یونیورسٹی امریکہ کے شعبہ تعلیم سے Leading Educational Innovation and Improvement کا سرٹیفکیٹ ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی امریکہ سے Leaders in Learningکا سرٹیفکیٹ اور امریکہ ہی کی مشہور MIT یونیورسٹی سےCompetency-Based Education: The Why, What, and How کے موضوع پر پوسٹ گریجوایٹ سرٹیفکیٹ کا حامل ہوں۔ تعلیم کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مَیں جانتا ہوں کہ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم بچے کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ یہ تعلیم بچے کی بنیاد بناتی ہے، لیکن اس بنیاد کی تعمیر کی بنیاد ی اساس ہی استاد کا رویہ ہے۔ بچے کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں چند باتیں جاننا بہت ضروری ہیں۔
سکول، والدین اور بچہ ایک ایسی ٹرائیکا ہے جس کا مربوط ہونا بچے کی کامیابی کی دلیل ہے۔ استاد والدین کو بچے کے سکول کے معمولات اور والدین استاد کو گھر کے ماحول اورگھر میں بچے کے معمولات سے آگاہ رکھتے ہیں۔ دونوں کی بچے کے حالات سے مکمل آگاہی بچے کی بہتر تربیت کے لئے انتہائی ضروری ہے۔استاد کا والدین کو نہ سننا یا رابطہ نہ رکھنا ایک تو جرم ہے اور دوسرا بچے کی تربیت کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ۔ استاد بچے کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے۔ اس کا رویہ اور بچے سے بہتر سلوک بچے کی تربیت میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ ابتدائی کلاس کے ٹیچرز کا طرز عمل بچے کی تعلیم میں دلچسپی کا فیصلہ کرتا ہے۔ استاد کا پیار اور شفقت کا اظہاربچے کے اندر مثبت طرز عمل پیدا کرتا ہے، وہ تعلیم اور ماحول سے پیار کرنے لگتا ہے۔ اس کے اندر سے محبت پھوٹتی ہے۔ استاد کا منفی رویہ نفرت کا پرچار کرتاہے۔ بچہ بھی اپنے اندر نفرت پالنے لگتا ہے۔ بچے کو تعلیم سمیت ہر چیز بری لگنے لگتی ہے۔ اس لئے ابتدائی کلاسوں کے استاد کو سراپا پیار ہونا چاہئے۔اسے حوصلہ افزائی کا منبع ہونا چاہئے۔ بچہ تعلیمی کام غلط بھی کرے تو بھی اس کے کام کو غلط کہنے کی بجائے کام کر لینے پر شاباش دیتے ہوئے بڑے خوبصورت انداز میں اصلاح کی جائے کہ بچہ خوشی سے کام کو دوبارہ بہتر انداز میں کرنا پسند کرے۔
Competency-Based Education،جس کو آج امریکہ میں بہت مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور امریکہ کے تقریباً پچاس فیصد سکول جسے اختیار کر چکے ہیں، اس کے مطابق ہر بچہ ذہین ہوتا ہے۔ نالائق استاد ہوتے ہیں یا سسٹم۔ فرق صرف یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو سمجھنے میں کچھ بچے کم وقت لیتے ہیں اور کچھ زیادہ۔ یہ سکول کا فرض ہے کہ بچے کو اس کی سوچ اور سمجھ کے مطابق وقت دے۔ جو بچہ دو گھنٹے میں سبق یاد کر اور سمجھ لیتا ہے، اسے دو گھنٹے دیں، جو چارگھنٹے کا وقت لیتا ہے اس کو چار گھنٹے دیں۔ جسے چھ گھنٹے درکار ہیں،اس پر چھ گھنٹے خرچ کرنا سکول اور ٹیچر کی ذمہ داری ہے۔ اگر ابتدائی کلاسوں کے اساتذہ اس طرز عمل کو اپنا لیں تو کچھ عرصے میں بچے ہم پلہ ہو جاتے ہیں۔ایڈیسن جسے دنیا کوبلب، بیٹری اور مووی کیمرے سمیت 1250 کے قریب ایجادات دینے کا اعزاز حاصل ہے، سلو لرنر تھا۔ سکول والوں نے اسے نالائق سمجھ کر نکال دیا، اس کے بعد وہ کبھی سکول نہیں گیا، مگر اس نے اپنے خلاف ہونے والی ہر سوچ کو غلط ثابت کیا۔ سکول کا وہ نالائق آج دنیا کا ذہین ترین شخص تصور ہوتا